۔22؍ مارچ کوڈاکٹر عبدالرشید جنید کی تصنیف’’خلیجی ممالک میں اردو کی نئی بستیاں‘‘ کی رسم رونمائی کی شاندار تقریب میڈیا پلس آڈیٹوریم حیدرآبا د میں منعقد ہوئی۔ تقریب میں علم وادب اور صحافت اوردینی علوم جیسے شعبوں سے وابستہ سرکردہ شخصیات اور شائقین نے شرکت کی ۔ تقریب میں مولانا مفتی محمد خلیل احمد شیخ الجامعہ جامعہ نظامیہ، مولانا خواجہ بہاء الدین فاروق انجینئر شہ نشین پر موجود تھے۔ محترمہ فاطمہ بیگم پروین نے تقریب کی صدارت کی۔ پروفیسر ایس اے شکور اسپیشل آفیسر حج کمیٹی اور ڈاکٹر عابد معز کنسلٹنٹ اردو مرکز برائے فروغ علوم مانو نے مہمانان ِذی وقار کی حیثیت سے شرکت کی۔ اردو ویکلی ’’گواہ ‘‘حیدر آباد کے مدیر اعلیٰ ڈاکٹر سید فاضل حسین پرویز نے شرکائے مجلس کا پُر تپاک خیر مقدم کیا۔ ڈاکٹر موصوف نے اپنی خیر مقدمی تقریر میں نیوزی لینڈ کے شہیدوں کو خراج عقیدت پیش کیا اور بتایا کہ انہی شہدائے مساجد کے احترام میں تقریب میں کسی قسم کی گل پوشی یا تہنیت سے گریز کیا گیا۔ مولانا خواجہ بہاء الدین اور فاروق انجینئر نے نیوزی لینڈ کے شہیدوں کے لئے دعائے مغفرت اور عالم اسلام کے لئے صبرو استقامت کی دعا کی۔ قاری محمد عبدالرافع ابراہیم کی قرأت کلام پاک سے تقریب کا آغاز ہوا، جب کہ محمد عبدالعزیز فضیل نے ترجمہ قرآن پیش کیا۔ا س موقع پر وائس چانسلر مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی ڈاکٹر اسلم پرویز نے اس بات پر زور دیا کہ یونیورسٹیوں سے زیادہ اردو کے اچھے معیاری پرائمری اسکولوں کے قیام کی ضرورت ہے کیوں کہ نئی نسلوں کی آبیاری اور شخصیت سازی کا سلسلہ پرائمری اسکول سے شروع ہوتا ہے۔ طلبہ اور اساتذہ کا اس میں بڑا اہم رول ہوتا ہے۔ عموماً اساتذہ پرائمری سطح پر تدریس کو معیوب سمجھتے ہیں۔سید خالد شہبازنے نظامت کی۔ ڈاکٹر محمد اسلم پرویز نے کہا کہ شخصیت اور کردار سازی میں مادری زبان کا بڑا اہم رول رہتا ہے۔ قرآن فہمی‘ سیرت طیبہ سے واقفیت کے لئے مادری زبان میں تعلیم ضروری ہے۔ انہوں نے کہا کہ وہ پرانی دہلی کے مرزا غالب کے علاقہ بلیماران سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے اردو تہذیب، ثقافت، اخلاص و مروت، رواداری کا دور دیکھا ہے۔ انہیں خوشی ہے کہ حیدرآباد اردو کا شہر ہے۔ یہاں کے اردو اخبارات کا معیار بلند ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اردو 25سال پہلے سائنس میگزین کی اشاعت کا آغاز کا مقصد یہی تھا کہ قوم کو زندگی کے حقائق سے واقف کروایا جائے۔ انہوں نے کہا کہ ماحولیات کا تحفظ ہماری ذمہ داری ہے۔ ماحول کی پراگندگی دراصل فساد فی الارض ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالرشید جنید کو ان کے تحقیقی کا م کے لئے مبارکباد پیش کی اور اسے ایک عظیم خدمت قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ مجھے اس بات کی خوشی ہے کہ مانو کے وائس چانسلر کی حیثیت سے میںمانو کے اسکالر کی کتاب کی اجراء انجام دے رہے ہیں۔
پروفیسر فاطمہ بیگم پروین نے جامعہ نظامیہ حیدرآباد کی خدمات کو خراج تحسین پیش کیا اور کہا کہ حضرت انواراللہ فاروقیؒ نے شخصیت سازی کی تعلیم دی۔ جامعہ نظامیہ کے فارغ التحصیل ہر شعبہ حیات میں اپنی قابلیت اور صلاحیت کا لوہا منوارہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ 1950ء کے بعد سے عثمانیہ یونیورسٹی کا ذریعہ تعلیم جو اردو تھا‘ نہ صرف بدل دیا گیا بلکہ اردو پر اس قدر ستم ڈھایا گیا کہ جہاں اردو پڑھنے والے نہیں تھے، وہاں اردو اساتذہ کا تقرر کیا گیا ہے اور جہاں اردو پڑھنے والے تھے، وہاں پر اساتذہ کا تقرر نہیں کیا گیا۔ انہوں نے کہا کہ ڈاکٹر عبدالرشید جنیدؔ نے جس محنت کے ساتھ ’’خلیجی ممالک میں اردو کی نئی بستیاں‘‘ تلاش کی ہیں، وہ قابل تعریف ہے۔ اگرچہ اردو کے تعلق سے حالات بدل رہے ہیں‘ روزگار کے مواقع کم ہورہے ہیں مگر اللہ کی زمین تنگ نہیں ہے۔ جو محنت دیارِ غیر میں کی تھی، اُتنی ہی محنت اگر اپنے ملک میں کی جائے تو اللہ رزاق و رحیم ہے۔ اس کی عطائوں میں کوئی کمی نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ اگرچہ کہ حیدرآباد کی تہذیب کو بدلنے کی کوشش کی گئی‘ مگر آج بھی مروت، اخلاص، رواداری یہاں بدر جہ ٔ اتم موجود ہے۔ آج بڑے بڑے مکان چھوٹے فلیٹس میں بدل گئے۔ چھوٹی جگہوں پر دل کی وسعتوں میں اضافہ کی ضرورت ہے۔ انہوں نے کہا کہ اردو سے دشمنی کے دور میں اس بات کا اطمینان ضرور ہے کہ دینی مدارس نے اردو کو زندہ رکھا ہے۔
پروفیسر ایس اے شکور نے ریاستی حکومت کی جانب سے اردو کی ترقی، بقاء، ترویج و اشاعت کے لئے کئے جانے والے اقدامات پر تذکرہ کرتے ہوئے کہا کہ تلنگانہ میں اردو کے فروغ کے لئے ماحول سازگار ہے۔ انہوں نے کتاب کے مصنف کو مبارک باد پیش کی۔ ڈاکٹر عابد معز نے کہا کہ اردو کی نئی بستیاں انہی لوگوں نے آباد کیں جو ہندوستان سے وہاں آباد ہوئے۔ جب وہ وہاں سے واپس ہوجائیںگے تو یہ بستیاں بھی ختم ہوجائیںگی کیوں کہ مقامی عوام کو اردو سے کوئی دلچسپی نہیں ہے۔ انہوں نے ڈاکٹر عبدالرشید جنیدؔ کی عرق ریزی اور مقالہ کی تیاری کے لئے ان کی جستجو اور جدوجہد کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ یہ انہی کا کام تھا جو انجام دیا گیا۔ ورنہ جن حالات سے وہ دوچار ہوئے وہ حوصلہ شکنی کے لئے کافی تھے۔ڈاکٹر عبدالرشید جنید ؔنے اس موضوع پر ریسرچ کے لئے جن صبر آزما حالات کا سامناکیا ،ان کا بالاختصار کا ذکر کیااور ڈاکٹر عابد معز سے ان کے عملی تعاون کے لئے اظہار تشکر کیا۔ انہوں نے بتایا کہ اس مقالے کی تیاری کے لئے انہیں سعودی عرب سے پانچ مرتبہ حیدرآباد آنا اور 100؍سے زائد کتابوں کا تفصیلی مطالعہ کرنا پڑا۔ اَن گنت افراد اور مقتدر اداروں سے انٹرویوز لینے پڑے۔ فاصل مصنف نے اس بات پر فخر جتایا کہ وہ جامعہ نظامیہ کے فارغ التحصیل ہیں اور یہاں کی سند ہر ڈگری سے زیادہ عزیز ہے۔
رسم رونمائی کی تقریب میں ڈاکٹر عبدالرشید جنیدؔ، کے این واصف، نفیسہ خان، نوید افروز، م۔ق۔سلیم، ڈاکٹر مختار احمد فردین، ڈاکٹر محمد شجاعت علی راشد، ڈاکٹر نسیم بیگم اسسٹنٹ پروفیسر ویمنس کالج، جاوید علی، مولاناحافظ محمد جیلانی، ضیاء الرحمن یاہند ڈاٹ کام،حافظ محمد جعفر محی الدین، مولوی محمد عثمان، حافظ سید وحید اللہ حسینی ملتانی، حافظ محمد اسلم جاوید، حافظ محمد احسن الحمومی، حافظ محمد عبدالرزاق نوید، سید حنیف احمد عامر، ڈاکٹر آصف علی، ڈاکٹر جہانگیر احساسؔ، زاہد ہریانوی، حافظ محمد نصیرالدین، ایم اے حکیم ٹی آر ایس قائد، خواجہ طہور اسسٹنٹ ڈائرکٹر اسٹیڈی سرکل مائناریٹی ڈپارٹمنٹ، جلال الدین اکبر، منیرالدین احمد علوی پرنسپل آدمس ہائی اسکول، جے ایس افتخار،مظہرالدین جاوید، حبیب امام قادری کے علاوہ شرکاء کی کثیر تعداد موجود تھی۔مولانا مفتی خلیل احمد صاحب کی دعاء پر تقریب کا اختتام ہو ا۔