سرینگر // وادی میں پھول بانی اور سبزیوں کے بیجوں کی فروخت کرنے سے منسلک کاروبار سے وابستہ کاشتکار مشکل سے روزی روٹی کمارہے ہیں۔وادی خاص کر شہر سرینگر میں پھول بانی سے سینکڑوں لوگ وابستہ ہیں جو سڑکوں، نشاط روڑ اور اپنے فارموں پر پھولوں کی پنیری فروخت کرتے ہیں۔لیکن کورونا لاک ڈائون کی وجہ سے کوئی گاہک نہیں آرہا ہے۔پھول بانی کے کاروبار سے وابستہ کاشتکاروں کا کہنا ہے کہ ان میں سے اکثر پھولوں کی نیری خرید کر لاتے ہیں اور بعد میں اسے فروخت کرکے اپنی روزی روٹی کماتے ہیں۔انکا کہنا ہے کہ کچھ لوگوں کے پاس اپنے پرائیوٹ فام ہیں جہاں وہ مختلف پھولوں کے اقسام کی پنیری تیار کرکے بعد میں فروخت کرتے ہیں۔وادی میں باغیچوں اور صحنوں کو مختلف اقسام کے پھولوں سے سجانا یہاں کی صدیوں پرانی روایت اور لوگوں کا مشغلہ رہا ہے۔ یہاں ہر ایک مکان کے ارد گرد پھول اگانا ایک محبوب مشغلہ رہا ہے۔ نارمل حالات میں پھول بانی سے وابستہ لوگ ان کی خرید فروخت بھی کرتے ہیں اور انکا گذارا بھی اسی پر چلتا ہے۔عام طور پر باغبان پھول فروخت کرنے کا کام کرتے ہیں اور وہ مکانوں کے باغیچوں میں بھی انہیں لگانے کا کام کرکے اپنا پیٹ پالتے ہیں۔چونکہ پھولوں کے پودوں کی عمر زیادہ نہیں ہوتی لہٰذا پھولوں کی پنیری فروخت کرنے کیلئے کم وقت ہوتا ہے جس کے بعد پنیری بے اثر ہوجاتی ہے اور پودے مرجھا تے ہیں۔اس وقت ان کاشتکاروں کے پاس 25اقسام کے پھولوں کے پودے ہیں اور ان کا کہنا ہے کہ کورونا لاک دائون سے ان کا بہت نقصان ہوا ہے ۔ گرینڈی فلور ، میکڈوریا، تمبالیہ ، آروٹریکا اور پام کے الگ الگ پودے بھی فروخت کئے جاتے ہیں، جن کی اچھی خاصی قیمت ہوتی ہے۔غلام محیٰ الدین بٹ نامی ایک شہری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ پھولوں کی شجرکاری کا آج وقت ہے اور سیزن ختم ہونے کے بعد اس کی خرید وفروخت متاثر ہو جائے گی پھر انہیں کافی زیادہ نقصان اٹھانا پڑے گا ۔انہوں نے مزید کہا کہ گذشتہ تین برسوں سے انہیں لاکھوں کے نقصان سے دوچار ہونا پڑا ہے ۔انہوں نے کہا کہ حکومت نے ان کیلئے کوئی جگہ بھی میسر نہیں رکھی ہے اور وہ کھلے آسمان تلے فٹ پاتھوں پر پودے فروخت کرتے ہیں ۔
پھول بانی سے وابستہ کاشتکاروں کو روزی روٹی کمانا مشکل
