پبلک سیفٹی ایکٹ کے مضر اثرات

کپوارہ//نیشنل کانفرنس کی قیادت کو پبلک سیفٹی ایکٹ (پی ایس اے)کے مضر اثرات سمجھنے میں 40سال لگ گے جبکہ نئی دلی کی کشمیر سے متعلق پالیسی جو ں کی تو ں ہے ۔ان باتو ں کا اظہار عوامی اتحاد پارٹی کے سر براہ اور سابق ممبر اسمبلی لنگیٹ انجینئر رشید نے کپوارہ میں کئی عوامی وفود سے ملاقات کے دوران کیا ۔انہو ں نے کہا کہ اگر نیشنل کا نفرنس کے نائب صدر اور سابق وزیر اعلیٰ عمر عبد اللہ کے اس بیان کی اگر ان کی جماعت بر سر اقتدار آگئی تو وہ افسپا جیسے کالے قانون کا ختم کریں گے تاہم انجینئر رشید نے اس امید کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ اگر عمر عبد اللہ کی جماعت اب کے بار اس معاملہ کو لیکر سنجیدگی اور استقامت کا مظاہرہ کریں ۔انہو ں نے کہا کہ 1953سے لیکر اب تک نیشنل کانفرنس قیادت نے کشمیری قوم کے ساتھ بے شمار وعدے تو کئے لیکن آج تک کسی بھی وعدے کی وفا نہیں کیا اور نا ہی کشمیری قوم کی مصیبتو ں میں کوئی کمی واقع ہوئی ۔انجینئر رشید کا کہنا ہے عمر عبد اللہ کو یہ بات نہیں بھولنی چایئے کہ آج سے 40سال قبل 1978میں نیشنل کانفرنس نے ہی اس قانون کو کشمیریو ں پر تھوپ دیا لیکن اگر 40سال کے بعد عمر عبداللہ نے اپنی غلطی کا احساس کیا تو عوامی اتحاد پارٹی اسمبلی کے اندر اور باہر اس بد نام زمانہ قانون کے خاتمے کے لئے نیشنل کا نفرنس قیادت کو بھر پور ساتھ دیں گے ۔انہو ں نے یہ بھی کہا کہ اٹانومی کشمیر مسئلہ کا حل نہیں ہے بلکہ اس نعرے سے کشمیر مسئلہ کی اصلی حیثیت کمزور ہورہی ہے ۔انہو ں نے کہا کہ ایک روز قبل پاکستانی وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی اور میر واعظ عمر فاروق کے درمیان ٹیلی فون پر گفتگو پر نئی دلی کی طرف سے اعتراض بلا جواز ہے بلکہ حقیقت یہی ہے کہ نئی دلی کے پاس کشمیر پر اپنا قبضہ بر قرار رکھنے کے سوا 1947سے لیکر آج تک کوئی اور پالیسی نہیں رہی ہے ۔انجینئر رشید نے مزید کہا کہ جب نئی دلی کو ضرورت پڑی تو انہو ں نے کبھی کوکہ پرے کو اپنے شیشے میں اتارا تو کبھی محمد یسین ملک ،میر واعظ اور جماعت اسلامی کے ساتھ درپرہ بات چیت کی ۔انہو ں نے کہا کہ حقیقت تو یہ ہے کہ نئی دلی کے پاس مسئلہ کشمیر کو لیکر کو ٗی ٹھوس پالیسی نہیں ہے ۔انہو ں نے کہا کہ کچھ نادان لوگ واجپائی پالیسی کی تعریف کرنے میں نہیں تھکتے ان کو یہ بات ذہن نشین ہونی چایئے کہ اٹل بہاری واجپائی کبھی کشمیر مسئلہ کی اصلیت ماننے کے لئے تیار ہی نہیں تھے بلکہ اس کی نرم رو پالیسی کا مقصد کشمیریو ں میں صرف انتشار پیدا کرنا اور بین الااقوامی سطح پر جمو ں و کشمیر مسئلہ کو داخلی مسئلہ ثابت کرنا تھا ۔انجینئر رشید نے کہا کہ نئی دلی نے ایک وقت عسکری کمانڈرو ں سے بھی بات کی لیکن ن تمام مذکرات کا واحد مقصد کشمیریو ں کو ایک دوسری کی نظرو ں میں مشکوک بنانے کے سوا کچھ بھی نہیں تھا ۔انجینئر رشید نے 30برسو ں کی مسلسل جد و جہد کے بعد بھی نئی لی اپنی ضد پر اٹکی ہوئی ہے اور کبھی بھی با معنیٰ مذاکرات کے لئے تیار نہیں ہوسکتی ہے تو پھر کشمیریو ں کے پاس آگے بڑھنے کا رو ڈ میپ کہا ں ہے ۔