آزادی کے بعد تمام جمہوری اداروں میں (چاہے وہ پارلیمان کے دونوں ایوان راجیہ سبھا اور لوک سبھا ہوں یا کوئی بلدیاتی ادارہ ) مسلمانوں کی نمائندگی کبھی بھی ان کی آبادی کے تناسب سے نہیں رہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی وجہ سیکولر جماعتوں کی مسلمانوں سے لاتعلقی ہے۔ تاہم اس سے بڑی وجہ کانگریس اور مسلمان قوم پرست قائدین کا متحدہ قومیت پر اَٹوٹ ایقان اور مسلمانوں کی علیحدہ شناخت بچانے والے دو قومی نظریہ سے نفرت رہی ہے۔ کانگریس نے اپنے قیام (1885ء)کے وقت سے ہی مسلمانوں کی علیحدہ قوم کی حیثیت سے شناخت کو تسلیم نہیں کیا۔ اسی کے نتیجہ میں 1906 میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا (واضح ہو کہ مسلم لیگ کے قیام میں تمام اہم مسلم اکابرین کے علاوہ مولانا محمد علی جوہر جیسے عظیم قائد بھی پیش پیش تھے۔ مسلمان ہمیشہ یہ چاہتے تھے کہ ہر انتخاب میں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے نشستوں کی تعداد مقرر کی جائے۔اس طرح کے تحفظ کی کانگریس اور کانگریس کے قوم پرست مسلم قائدین نے (جن میں سب سے آگے امام الہند ابوالکلام آزاد بھی شامل تھے) ہمیشہ اس کی شدت سے مخالفت کی۔ 1928 میں دستوری اصلاحات کے لئے پیش کی جانے والی موتی لال نہرو رپورٹ میں ان تمام تحفظات اور مراعات کو ختم کردیا گیا جوکہ 1916 کے میثاقِ لکھنؤ کہلانے والے معاہدے میں مسلمانوں کو دئے گئے تھے۔ مسلمانوں کو دئے گئے دو اہم تحفظات میں ایک یہ تھا کہ مسلمانوں کو ہی ووٹ دیں ،اس لئے ہندو مسلم حلقے الگ الگ بنائے جاتے تھے۔ اس کو جداگانہ انتخاب نظام کہا جاتا تھا۔ دوسرا تحفظ یہ تھا منتخب کئے جانے والے ہر ادارہ میں آبادی کے اعتبار سے مسلمانوں کے لئے نشستوں کا تعین کیا جاتا تھا۔ موتی لال نہرو کی رپورٹ پر غور کرنے کے لئے کلکتہ میں ہونے والی آل پارٹی کانفرنس (1929) میں مسلمانوں کے دو اہم قائدین مولانا محمد علی جوہر اور محمد علی جناح نے جدگانہ انتخاب کے مطالبہ سے دستبرداری تو اختیار کرلی لیکن ہر ادارہ میں مسلمانوں کے لئے ان کی آبادی کے تناسب سے نشستوں کے تحفظ اور تعین پر وہ سختی سے اَڑ گئے اور جب ان کا یہ مطالبہ بھی مسترد کردیا گیا تو دونوں قائدین نے کانفرنس کا مقاطعہ کیا بلکہ کانگریس سے اپنا تعلق بھی ختم کرلیا۔ دعویٰ کیا جاتا ہے کہ مسلمانوں کے لئے نشستوں کے تحفظ اور تعین پر اگر کانگریس راضی ہوجاتی تو ملک تقسیم نہ ہوتا کیونکہ مسلمانوں کو سرسید کی یہ نصیحت ہمیشہ یاد تھی کہ مخلوط انتخابات کی صورت میں مسلمان اپنی کم تعداد کی وجہ سے کامیاب نہیں ہوسکتے۔ اس لئے مسلمانوں کیلئے نشستوں کا تعین ضروری ہے۔ 1935کے انڈیا ایکٹ میں مسلمانوں کو ہر انتخاب میں آبادی کے اعتبار سے نشستوں کا تحفظ دیا گیا لیکن 1947 میں آزادی کے بعد مسلمانوں کا یہ حق چھین لیا گیا اور مخلوط انتخابات کے ساتھ متحدہ قومیت کے نظریہ کے تحت اپنی کم تعداد کی وجہ سے ہر جمہوری ادارہ میں مسلمانوں کی تعداد کم سے کم ہوتی گئی۔
دستور سازی کے وقت قوم پرست مسلمان قائدین نے مسلمانوں کے لئے نشستوں کے تحفظ و تعین کے مسئلہ کو بالکل نظرانداز کردیا۔ اس طرح کہا جاسکتا ہے ع
لمحوں نے خطا کی تھی صدیوں نے سزا پائی
1952 میں جب ملک میں پہلی بار عام انتخابات ہوئے تو ملک کی واحد بااثر اور بڑی پارٹی کانگریس کی تھی اگر کانگریس 1952میں لوک سبھا اور ریاستی اسمبلیوں کے انتخابات میں مسلمانوں کو زیادہ ٹکٹ دیتی تو ایک روایت قائم ہوجاتی لیکن کانگریس نے یہ روایت قائم کی کہ مسلمانوں کو ان کی آبادی سے بہت کم ٹکٹ دئے جائیں ،یہ ایک طرح سے محض ضابطے کی رسمی تکمیل تھی۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ 1952 میں بڑے جید مسلمان قائدین زندہ تھے لیکن اس مسئلہ پر کہ مسلمانوں کو بہت کم ٹکٹ دئے گئے ہیں کسی عظیم قوم پرست مسلمان قائد غور ہی نہیں کیا گیا۔ کانگریس کی تقلید نے دوسری چھوٹی چھوٹی سیکولر جماعتوں (جن میں اس وقت جے پرکاش نارائن کی سوشلسٹ پارٹی سب سے زیادہ قابل ذکر ہے) نے بھی مسلمانوں کو برائے نام ٹکٹ دئے ۔ اس طرح مسلمانوں کو نظرانداز کرکے ان کو کم سے کم ٹکٹ دینے کی روایت ملک کے پہلے عام انتخابات میں ہی پڑ گئی جو آج تک چلی آرہی ہے۔ 1947سے لے کر آج تک اس مسئلہ پر سیکولر جماعتوں کے کسی مسلم یا غیر مسلم قائد نے توجہ نہیں کی اور اگر مسلم لیگ یا مجلس اتحادالمسلمین کے قائدین (محمود بنات والا اور سلطان صلاح الدین اویسی نے کچھ کہا بھی تو ان کی بات بے اثر رہی)،اس طرح مسلمان ہر انتخاب میں اپنے حق سے محروم رہتے ہیں۔
یہ تو سیکولر اور دیگر مسلم جماعتوں کے قائدین کا فرض تھا کہ وہ اس مسئلہ کو بہ شد ت اُٹھاتے لیکن ایسا کبھی نہیں ہوا تاہم 2019کے انتخابات سے قبل توقع تھی کہ کم از کم اس بار مختلف جماعتیں مسلمانوں کو ان کی آبادی کے تناسب سے نہ سہی کسی حدتک کم ٹکٹ دے کر ان کے حق کو کسی حدتک ادا کرتی۔ دوسری طرف یہ توقع تھی کہ اس موضوع پر مسلمان قائدین خاص توجہ دیں گے لیکن ایسی کوئی بھی بات دیکھنے میں نہیں آرہی ہے۔ اب تک مختلف مسلم پارٹیوں کی جانب سے جو اعلانات ہوئے ہیں، اُن میں صرف ممتابنرجی نے بنگال میں اپنی جماعت ترنمول کانگریس کے اُمیدواروں میں مسلمانوں کی کسی حدتک معقول تعداد کو شامل کیا ہے۔ ممتابنرجی نے سات مسلمانوں کو ٹکٹ دئے ہیں۔ کانگریس اور دوسری جماعتیں کیا کرنے والی ہیں ،اس کا کوئی اندازہ نہیں ہے۔ قوم پرست مسلم قائدین خواہ وہ مذہبی رہنما ہوں یا سیاسی قائدین، اس مسئلہ سے بے تعلق نظر آتے ہیں۔ انتخابات کے بارے میں ان کا کوئی بیان آتا بھی ہے تو صرف یہ کہ مسلمان سیکولر جماعتوں کو ووٹ دیں۔ حالانکہ تمام مسلم قائدین کا فرض تھا کہ وہ امیدواروں کے انتخاب سے پہلے ہر جماعت پر زور ڈالتے کہ مسلمانوں کو ان کے حق سے محروم نہیں کیا جائے اور ان کی آبادی کے تناسب سے ان کو ٹکٹ دیا جائے، لیکن ہمارے قائدین نے ایسی کوئی زحمت گوارہ نہیں کی۔ اس کا نتیجہ شائد یہی ہو کہ 2019 میں بھی لوک سبھا میں مسلمانوں کی تعداد ان کی آبادی کے تناسب سے بہت کم ہو۔
نہ صرف ہم نے بلکہ کئی دوسرے تجزیہ نگاروں نے بھی مجلس اتحادالمسلمین کے قائد اسد الدین اویسی کو مشورہ دیا تھا کہ وہ مختلف ریاستوں میں مسلمانوں کی نمائندگی بڑھانے کے لئے اپنے اثر و رسوخ کا استعما ل کریں اور کسی بھی جماعت یا کسی بھی گٹھ بندھن کے حق میں ووٹ دینے کی اپیل کرنے سے قبل مسلمانوں کی جانب سے شرائط بھی پیش کریں کہ مسلمانوں کے لئے کونسی مراعات اور کن تحفظات کو ان کے انتخابی منشور میں شامل کیا جاتا ہے ،کیونکہ یہ ہوتا آرہا ہے کہ سیکولر جماعتیں بھاجپا سے ڈراکر اپنے حق میں ووٹ ڈلوالیتی ہیں اور مسلمان ہر بار محروم رہتے ہیں۔ مسلمانوں کی ضرورت صرف یہی نہیں ہے کہ بھاجپا کو اقتدار سے محروم کردیا جائے بلکہ مسلمانوں کا یہ بھی فرض ہے کہ اپنے مفادات کو ملحوظ نظر رکھتے ہوئے صرف ان قائدین کو یا جماعتوں کو ووٹ دیں جو مسلم مفادات کی تسلی بخش طور پر بحفاظت کرسکتے ہیں۔ اس سلسلہ میں ملک گیر پیمانے پر جن مذاکرات کی ضرورت تھی اس کے بارے میں مسلم قائدین نے شائد سوچا بھی نہیں ہو اور بھاجپا کو ہرانے یا ملک میں سیکولر ازم کو مضبوط کرنے کیلئے بلا سونچے سمجھے بلا کسی شرط سیکولر جماعتوں کو ووٹ دیتے آرہے ہیں۔ اب بھی وقت ہے کہ جلد منعقد ہونے والے انتخابات سے قبل مختلف پارٹیوں اور گٹھ بندھنوں کے انتخابی منشور میں مسلمانوں کے لئے مناسب تیقنات اور تحفظات کو شامل کیا جائے۔ مسلمانوں کو یاد رکھنا چاہئے کہ بھاجپا کو اقتدار سے محروم رکھنے کے علاوہ ان کا یہ اہم فرض ہے کہ وہ مسلم مفادات کے تحفظ کا بھی خیال رکھیں اور دو قومی نظریہ پر عمل پیرا ہونے کے الزام کی پرواہ بالکل نہ کریں کیونکہ متحدہ قومیت نے مسلمانوں کو کچھ نہیں دیا۔ دوقومی نظریہ سے مغائرت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مسلمان اپنے مفادات اور اپنے حقوق بھی بھول جائیں اور متحدہ قومیت کی خاطر ان پر جو بھی ظلم ڈھایا جائے اور ان سے جو بھی ناانصافی کی جائے وہ اس پر اپنا سر جھکادیں۔ تجربہ یہ رہا ہے کہ مسلمانوں کو سیکولر جماعتوں سے بھی ماضی میں بہت نقصانات پہنچے ہیں۔ اس لئے سیکولر جماعتوں کو سبق دینے کے لئے اس بار ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی ضرورت ہے۔ اس سلسلہ میں اسد الدین اویسی جیسے قائدین کو آگے آنا چاہئے۔ اسد الدین اویسی اس کام کو اپنے تدبر اور بے باکی کے سبب بخوبی انجام دے سکتے ہیں۔ ان کو یہ نہیں
بھولنا چاہئے کہ وہ ایک قومی مسلم قائد ہیں۔ ان پر ہندوستان بھر کے مسلمانوں کا حق اورذمہ داریاں ہیں وہ اپنے آپ کو صرف حیدرآباد اور تلنگانہ کے حدتک محدود نہ رکھ کر ایک بھیانک غلطی کریں گے، اس کا نقصان ہندوستان بھر کے مسلمانوں کو ہوگا۔
Ph: 07997694060
Email: [email protected]