گاندربل//موسم سرما کی آمد کے ساتھ ہی سائبریا اور وسطیٰ ایشیاء کے دیگر ممالک سے آنے والے پرندے وادی کی آبگاہوں میں اپنا ڈھیرا جماتے ہیں۔ اب تک کشمیر کے مختلف آبی پناہ گاہوں میں لاکھوں کی تعداد میں مہاجر پرندے پہنچ گئے ہیں جن میں سے صرف گاندربل کے شالہ بگ آبی پناہ گاہ میں 2لاکھ سے زائدنئے مہاجر پرندے پہنچ چکے ہیں جبکہ یہاں سال بھر مقیم رہنے والے تقریباً1لاکھ پرندوں کو ملا کرتعداد3لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔گاندربل سے دس کلو میٹر کی دوری پر واقع شالہ بگ آبی پناہ گاہ میں محکمہ وائلڈ لایف کے انچارج رینج آفیسر شمس الدین نشاطی نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ گذشتہ برسوں کے مقابلہ میں رواں سال مسلسل موسم خشک رہنے کے باعث ابھی تک کم تعداد میں مہاجر پرندے وادی پہنچ چکے ہیں اور ایک سروے کے مطابق2 لاکھ سے زائد نئے پرندے شالہ بگ آبی پناہ میں ڈھیرہ ا ڈال چکے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا کہ وسطی ایشیا میں شامل تاشقند،روس،افغانستان،پاکستان،چین،سائبیریا سمیت شمالی یورپ کے علاوہ ہندوستان کے کچھ حصوں سے مختلف اقسام کے جو 2 لاکھ سے زائد رنگ برنگے آبی مہاجر پرندے شال بگ وارد ہوئے ہیں اور اس طرح تعداد3 لاکھ کیآ س پاس تک پہنچ چکی ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ اس سیزن میں سردی کی شدت میں اضافہ ہونے کی وجہ سے مہاجر پرندوں کی تعداد میں مزید اضافہ ہوگا تاہم انہوں نے بتایا کہ سردی کی شدت میں کمی ہونے کے باعث فروری ماہ میں مزیدلاکھوں کے قریب پرندوں کی آمد ہے اور یوں امسال متوقعہ طور پرکل ملاکر5 لاکھ سے زائد پرندے آنے کی امیدہے ۔آفیسر نے مزید کہا کہ 20 اقسام کے یہ پرندے ماہ اکتوبرکے آخری ہفتے میں کشمیر آنا شروع ہوتے ہیں اورمارچ تک یہاں قیام کرتے ہیں جس کے بعد اپریل مہینے کے آخر میں بہت پرندے اگرچہ واپس لوٹ جاتے ہیں تاہم لاکھ کے قریب پرندے آبی گاہ شالہ بگ کو ہی اپنا مستقل ٹھکانہ بناکر یہی رہ جاتے ہیں ہے۔36ہزار کنال پر مشتمل شالہ بگ آبی پناہ گاہ وادی کی دوسری پناہ گاہوں کے مقابلہ میں مہاجر پرندوں کی سب سے بڑی قرارگاہ ہے جہاں ہر سال 2سے5لاکھ کے قریب مہاجر پرندو ں کی آمد رہتی ہے ۔ مذکورہ آفیسر نے کشمیرعظمیٰ کو بتایاکہ آبی مہاجر پرندوں کی دیکھ ریکھ کیلئے پناہ گاہوں کے بنیادی ڈھانچوں کو وسعت دی جارہی ہیں اور انکی موجودگی کو یقینی بنانے کیلئے ہر ممکن اقدمات کئے جارہے ہیں۔انہوں نے کہا محکمہ کا عملہ سرد یخ بستہ راتوں کے دوران شبانہ گشت کرکے ان مہاجر پرندوں پر نظر رکھے ہوئے ہیںاوران مہاجر پرندوں کو غیر قانونی طور شکار بنانے والے لوگوں پر کڑی نگاہ رکھی جاتی ہے جبکہ آبی پناہ گاہ کے ارد گرد رہائش پذیر دیہات کے لوگوں نے بھی عملہ کے ساتھ تعاون کرکے ان پرندوں کے شکار کو تقریباً ناممکن بنا دیا۔شالہ بگ آبی پناہ گاہ وادی کی واحد آبگاہ ہے جہاں کئی اقسام کے پرندے واپس سائبیریایا وسطی ایشیائی ممالک میں جانے کی بجائے پورے سال بھر اسی آبی پناہ گاہ میں قیام کرتے ہیں اور موسمی تبدیلی کے باوجود اس آبی پناہ گاہ میں انہیں آب و ہوا کے ایسے تمام سہولیات دستیاب ہیں جنکی وجہ سے وہ ہجرت پر مجبور نہیں ہوتے۔ مبصرین کہتے ہیں کہ دراصل شالہ بگ آبی پناہ گاہ میں موجود مختلف آبی ذخائر ان پرندوں کو سردی کے موسم میں گرمی کا احساس دیتے ہیں اور گرمی میں ٹھنڈک کا، جس وجہ سے یہ مہاجر پرندے واپس چلے جانے کی بجائے رفتہ رفتہ اسی آ بگاہ کے اندر ایک جگہ سے دوسری جگہ گھومنے پھرنے کے عادی ہونے لگے ہیں۔دراصل شالہ بگ آبی پناہ گاہ کو دو وسائل سے پانی فراہم ہوتا ہے ایک آنچار،ڈل جھیل سے دوسرا دریا جہلم اور نالہ سندھ شامل ہیں.چونکہ جھیل ڈل کا پانی نالہ سندھ کے مقابلہ میں گرم رہتا ہے، جس وجہ سے اس آبی پناہ گاہ کے ایک حصہ میں نالہ سندھ کا سردپانی ہوتا ہے اور دوسرے حصہ میں جھیل ڈل کاقدرے گرم پانی موجود رہتا ہے۔ مہاجر پرندے، جو انتہائی چالاک ہوتے ہیں، گرمیوں میں اس آبی پناہ گاہ کے س حصہ میں رہتے ہیں جہاں نالہ سندھ کا پانی دستیاب رہتا ہے جو انہیں ٹھنڈک کا احساس دیتا ہے جبکہ سردیوں کے ایام میں وہ شالہ بگ آبی پناہ گاہ کے اس حصے کی طرف ہجرت کرتے ہیں جس میں جھیل ڈل کا پانی ہوتا ہے، جو ان مہمان پرندوں کو گرمی کا احساس دیتا ہے۔ انہوں نے کہا کہ اس کے علاوہ کئی پرندے شام ہوتے ہی ہوکرسر،آنچار اور وادی کی کئی دیگر آبگاہوں کی راہ لیتے ہیں شالہ بگ آبی پناہ گاہ کے انچارج آفیسر کے مطابق ’’گذشتہ9برسوں سے نہ صرف سائبیریابلکہ دیگر ممالک سے کشمیر آنے والے 3سے5لاکھ کے قریب مہاجر پرندوں نے شالہ بگ کو اپنا مستقل ٹھکانہ بنایا ہے بلکہ اس آبی پناہ گاہ میں مہمان پرندے افزائش نسل بھی کرتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا ’’ 20اقسام کے یہ پرندے سال میں دو مرتبہ انڈے دیتے ہیں اور ان کی ایک مادہ20سے22انڈے دیتی ہیں جس سے پھر ان مہاجر پرندوں کے بچے نکل آتے ہیں‘‘۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ 1990 کے بعد چونکہ شکاریوں کی سرگرمیوں میں کافی کمی آئی ہے جس کی وجہ سے گزشتہ برسوں کے دوران ان کی تعداد میں اضافہ دیکھنے کو ملا ہے۔ تاہم پرندوں کو پھندے بچھا کر زندہ پکڑنے اور گاہے بگاہے بندوق سے شکار کرنے کے واقعات کی خبریں ملتی رہتی ہیں۔