عظمیٰ نیوز سروس
سرینگر // وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے پیر کے روز وقف ایکٹ سیکولر ہونے پر سوال اٹھاکر دلیل دی ہے کہ یہ ایکٹ ایک خاص مذہب کو نشانہ بناتا ہے، جو ہندوستان کے سیکولر اصولوں سے متصادم ہے۔نئی دہلی میں نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے وزیر اعلیٰ نے تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کی اہمیت پر زور دیا اور کہا کہ سپریم کورٹ کے فیصلے کا انتظار ہے۔عمر نے یہ بھی کہا کہ جموں و کشمیر نیشنل کانفرنس نے وقف ایکٹ کو چیلنج کرنے کے لیے سپریم کورٹ میں عرضی داخل کی ہے۔ انہوں نے وقف ایکٹ پر حکمران جماعت کے موقف کی وضاحت کرتے ہوئے کہا”میری پارٹی پہلے ہی سپریم کورٹ کے سامنے ایک پٹیشن دائر کر چکی ہے، اب اسے ججوں پر چھوڑ دیں، ہم ان متعدد تنظیموں میں شامل ہیں جنہوں نے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے، وہ اس پر ایک نظر ڈالیں، ہمیں یقین ہے کہ اس قانون سازی نے ایک خاص مذہب کو نشانہ بنایا ہے۔عمرنے پیر کو سخت مخالفت کا اظہار کیا، اور یہ الزام لگایا کہ یہ قانون ایک خاص مذہبی طبقے کے خلاف امتیازی سلوک کرتا ہے۔عبداللہ نے ایکٹ کے آئینی جواز کے بارے میں خدشات کو اجاگر کرتے ہوئے کہا”ہم سمجھتے ہیں کہ قانون سازی کے اس حصے نے ایک خاص مذہب کو نشانہ بنایا ہے، بھارت کو ایک سیکولر ریاست سمجھا جاتا ہے، تمام مذاہب کے ساتھ یکساں سلوک کیا جانا چاہئے،” ۔انہوں نے کہا”ہم سمجھتے ہیں کہ ہمارے ساتھ یکساں سلوک کرنے کا حق ہے، ہم چاہتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس پر فیصلہ سنائے،اب ہم انتظار کریں گے” انہوں نے مزید کہا کہ معاملہ اب عدلیہ کے ہاتھ میں ہے۔ رٹ پٹیشن 11 اپریل کو پارٹی صدر فاروق عبداللہ کی “ہدایت” پر اور “ہندوستان کی اقلیتوں کے مفاد میں” دائر کی گئی تھی۔دریں اثنا، دیگر تنظیموں نے بھی ایکٹ کے مضمرات کے بارے میں اسی طرح کے خدشات کا اظہار کرتے ہوئے سپریم کورٹ سے رجوع کیا ہے۔اپوزیشن اس ایکٹ کے نفاذ پر تنقید کر رہی ہے اور سپریم کورٹ میں دائر کئی عرضیوں نے اسے چیلنج کیا ہے۔