منجودھپولا
کسی بھی ملک یا ریاست کی ترقی کا انحصاربہت حد تک اس کے وسائل پربھی ہوتا ہے۔ ایک طرف تویہ آمدنی کا بڑا ذریعہ بنتا ہے اور دوسری طرف شہریوں کی زندگیوں کو آسان بھی بناتا ہے۔ اس کے بغیر ترقی کا تصور نامکمل سمجھا جاتا ہے۔ ہمارے ملک میں بہت سی ایسی ریاستیں ہیں جنہیں قدرت نے بھرپور طریقہ سے قدرتی وسائل سے نوازا ہے۔ لیکن کئی بار اس کی غیر مساوی تقسیم کی وجہ سے نہ صرف شہری اس کا فائدہ اٹھانے سے محروم رہتے ہیں بلکہ ریاست ترقی میں بھی پیچھے رہ جاتی ہے۔ دوسری طرف اس کا فائدہ اٹھاتے ہوئے دوسری ریاستیں اور شہر آگے بڑھتے ہیں۔ پہاڑی ریاست اتراکھنڈ بھی اس ریاست میں شامل ہے جسے قدرت نے بے شمار وسائل سے نوازا ہے لیکن اس کے باوجود اس کے دیہی علاقے ترقی نہیں پارہے ہیں۔یہ ایک ایسی ریاست ہے جہاں قدرتی وسائل کی کوئی کمی نہیں ہے، اس سے لوگوں کو روزگار فراہم کیا جا سکتا ہے۔ اس کے باوجود یہاں کے دیہی علاقے ترقی میں اس لیے پیچھے رہ گئے کہ ان وسائل کوبہتر طور استعمال نہیں ہورہا ہے۔ ریاست میں آمدنی کا بڑا ذریعہ ہونے کے باوجود دیہاتیوں کو روزگار کے لیے شہروں کارْ خ کرنا پڑتا ہے۔ دوسری طرف ان وسائل کے اندھا دھند استعمال کی وجہ سے اب یہ محدود مقدار میں رہ گئے ہیں۔ اگر وسائل کو تیزی کے ساتھ ضائع ہونے پر روک نہیںلگائی جاتی تو اس کا بھی زیادہ نقصان دیہی علاقوں کوہی اٹھانا پڑ ے گا۔ کیونکہ انسانی توقعات لامحدود ہیں، لیکن قدرتی وسائل کی مقدار محدود ہے۔
اتراکھنڈ کے کئی اضلاع میں جڑی بوٹیاں اور دوائوں کے پودے وافر مقدار میں دستیاب ہیں۔ لیکن ایسا لگتا ہے کہ ریاست کے باگیشور ضلع کے کپکوٹ بلاک پر قدرت کچھ زیادہ ہی مہربان ہے۔جہاں پہاڑوں میں لامحدود مقدار میں جڑی بوٹیاں اور پودے اْگتے ہیں۔ جن کا استعمال ادویات بنانے میں کیا جاتا ہے۔ ایسی کئی جڑی بوٹیاں ہیں جو لاعلاج بیماریوں میں استعمال ہوتی ہیں۔ خود گائوں والوں کی ایک بڑی تعداد اس کی اہمیت سے ناواقف ہے۔ دوسری طرف ادویات بنانے والی کمپنیاں اس کا بھرپور فائدہ اٹھا کر ان ادویات سے بھاری منافع کما رہی ہیں۔ اس حوالے سے ایک مقامی بزرگ 60 سالہ پارولی دیوی کا کہنا ہے کہ یہ جڑی بوٹیاں سنگین بیماریوں کے لیے بھی استعمال ہوتی تھیں اور لوگ جلد صحت یاب ہو جاتے تھے جبکہ اس کے کوئی مضر اثرات نہیں تھے۔ یہی وجہ ہے کہ پہلے گائوں میں کوئی میڈیکل سٹور نہیں تھا۔ لیکن اب جدیدیت کے نام پر لوگ جڑی بوٹیوں کو ترک کر کے انگریزی ادویات کے محتاج ہو گئے ہیں جبکہ انگریزی دوا کے مضر اثرات سے بچنے کے لیے انہیں دوسری دوائیں لینا پڑتی ہیں۔ دوسری جانب شہر کے لوگ ان جڑی بوٹیوں کی اہمیت کو سمجھنے لگے ہیں اور انہیں سستے داموں میں خرید رہے ہیں۔ جس کی وجہ سے یہ جڑی بوٹیاں آہستہ آہستہ محدود ہوتی جارہی ہیں۔دوسری طرف زراعت اور معدنی وسائل کے معاملے میں بھی ریاست کے دیہی علاقوں کو کوئی خاص فائدہ نہیں مل رہا ہے۔
2011 کی مردم شماری کے مطابق، اس وقت اتراکھنڈ کی تخمینہ شدہ آبادی ایک کروڑ 17 لاکھ سے زیادہ ہے۔ ان میں مردوں کی آبادی 59 لاکھ 60 ہزار سے زائد ہے جبکہ خواتین کی آبادی کا تخمینہ 57 لاکھ 39 ہزار سے زائد ہے جبکہ اس کا جغرافیائی رقبہ تقریباً 59,226 مربع کلومیٹر ہے۔ جس میں 37,999 مربع کلومیٹر جنگلات سے گھرا ہوا ہے جو کل مربع کلومیٹر کا 63.41 فیصد بنتا ہے۔ اس وقت کل 6.98 لاکھ ہیکٹر اراضی پر زرعی کام کیا جاتا ہے جو کہ کل رقبہ کا صرف 11.65 فیصد ہے۔ جبکہ ریاست کی 70 فیصد آبادی کا انحصار زراعت پر ہے۔لیکن مسلسل موسمیاتی تبدیلی نے اتراکھنڈ کے زرعی کام کو بہت متاثر کیا ہے۔ جس کی وجہ سے کسانوں کی آمدنی کم ہوئی ہے اور نئی نسل اس سے منہ موڑ رہی ہے اور روزگار کے دوسرے ذرائع کی تلاش میں دوسری ریاستوں کی طرف ہجرت کر رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ریاست میں کئی دور دراز گائوں ایسے ہیں جہاں نقل مکانی کی وجہ سے نوجوانوں کی تعداد تقریباً نہ ہونے کے برابر ہو گئی ہے۔
اس علاقے میں زراعت کے علاوہ میگنیسائٹ اور چونا پتھر معدنی وسائل کے طور پر پیدا ہوتا ہے جسے مقامی زبان میں کھڈیا کہا جاتا ہے۔ یہ بہت سے مقاصد کے لیے استعمال ہوتا ہے۔ لیکن اسے نکالنے کے لیے پہاڑوں کو بے دریغ کاٹا جا رہا ہے اور درختوں کی اندھا دھند کٹائی ہو رہی ہے۔ جس کی وجہ سے ریاست میں ماحولیاتی عدم توازن کا خطرہ بڑھتا جا رہا ہے۔ مقامی لوگوں نے زرعی کام چھوڑ کر کچھ پیسوں کے لیے پہاڑوں کی کھدائی شروع کر دی ہے۔ اس کی وجہ سے اتراکھنڈ کو بڑا نقصان ہو رہا ہے۔ اس حوالے سے کپکوٹ بلاک کے ایک گائوں کے 75 سالہ بزرگ منموہن رام کا کہنا ہے کہ زراعت میں ہونے والے نقصانات، معاشی بحران اور روزگار کی کمی کی وجہ سے گائوں کے لوگ پہاڑوں کو لامحدود کھود کراس سے نکلنے والے وسائل کوکم قیمت پر فروخت کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ہمیں چاک کی اصل قیمت معلوم ہے لیکن پیسے کی خاطر ہم اسے کم قیمت پر بیچ رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ کچھ لوگ روزگار کے لیے شہروں کی طرف بھی ہجرت کر رہے ہیں۔
بہرحال،ترقی کی دوڑ میں اتراکھنڈ کے مسلسل پیچھے رہنے اور وسائل کی کمی کی سب سے بڑی وجہ اس کا لامحدود استعمال اور لوگوں کی نقل مکانی ہے۔ درحقیقت قدرت وسائل پیدا کرنے میں ایک خاص وقت لیتی ہے، لیکن انسانوں کی طرف سے لالچ کے تحت کیے جانے والے کاموں کی وجہ سے اس کے بہت خطرناک انجام ہو سکتے ہیں۔ ایسے میں ضروری ہے کہ ریاستی حکومت ایسی منصوبہ بندی کرے کہ اس کے شہریوں بالخصوص اس کے دیہی علاقے کے لوگوں کو اس کے قدرتی وسائل کے استعمال کا پہلا حق ملے تاکہ نقل مکانی جیسے سنگین مسئلے پر قابو پایا جا سکے۔
( مصنفہ کا تعلق کپکوٹ، اتراکھنڈ سے ہے اور آپ سوبن سنگھ جینا یونیورسٹی، الموڑہ، اتراکھنڈ میں گریجویشن کی طالبہ ہے)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔