سرینگر// سرکار کی طرف سے انسداد منشیات کیلئے پالیسی کو منظر عام پر لانے کا اشارہ دیتے ہوئے بشری حقوق کے ریاستی کمیشن کے سربراہ جسٹس(ر) بلال نازکی نے کہا کہ مذکورہ پالیسی چیف سیکریٹری کوروانہ کی جارہی ہے۔ آئی جی کشمیر نے کہا کہ مصنوعی منشیات سرحد کے اس پار سے آتی ہے جبکہ صوبائی کمشنر نے سکولوں میں منشیات کے زہر سے نقصانات کے حوالے سے پروگرام منعقد کرانے کی وکالت کی۔ یوم انسانی حقوق کے سلسلے میں جموں اینڈ کشمیر سٹیٹ ہیومن رائٹس کمیشن کی جانب سے محکمہ اطلاعات کے آڈیٹوریم میں کل ایک تقریبکے دوران انکشاف کیا گیا کہ کشمیر میں70 ہزار افراد منشیات کے عادی ہیں جن میں4 ہزار خواتین ہیںجبکہ سروے کے مطابق 65 سے70 فیصد حصہ طلاب شامل ہیں۔ بشری حقوق کے مقامی کمیشن کے چیئرمین جسٹس(ر) بلال نازکی نے پروگرام کے حاشیہ پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا کہ جموں کشمیر میں منشیات کا پھیلائو ایک حساس اور سنجیدہ مسئلہ بن چکا ہے،اور اس کی طرف توجہ دینا بے حد ضروری ہے۔انہوں نے کہا’’جب درد محسوس ہوتا ہے تو دوائی کی تلاش بھی کی جاتی ہے‘‘۔شہری ہلاکتوں کو چھوڑ کر منشیات بشری حقوق کے عالمی دن پر سمینار کرنے سے متعلق پوچھے گئے سوال کا جواب دیتے ہوئے جسٹس(ر) بلال نازکی نے بھی سوالیہ انداز میں جواب دیتے ہوئے کہا’’کیا منشیات کا تعلق انسانی حقوق سے نہیں ہے اور اگر بچہ اس لت میں مبتلا ہوتا ہے تو اس کے تمام حقوق از خود سلب ہوجاتے ہیں‘‘۔ انہوں نے کہا’’سرکار انسداد منشیات کے حوالے سے پالیسی ترتیب دے رہی ہے،اور غالباً وہ آج ہی چیف سیکریٹری کے پاس روانہ ہوگی اور اس میں تمام چیزوں کا ذکر ہوگا،تاہم انہوں نے کہا کہ انہیں اس پالیسی کے خد و خال اور مسودے کے بارے میں ابھی معلومات نہیں ہے۔جسٹس بلال نازکی نے کہا کہ انہوں نے کچھ لوگوں سے از خود بات کی ہے،جس کے دوران اس بات کا انکشاف ہوا کہ سرینگر میں منشیات کی ایک خوراک ساڑھے3ہزار روپے میں خریدی جاتی ہے اور اس لت میں مبتلا کچھ لوگ دن میں دو مرتبہ یہ خوراک لیتے ہیں،جس کا مطلب ہے کہ ماہانہ وہ2لاکھ روپے اس پر خرچ کرتے ہیں۔اس سے قبل سمینار سے خطاب کے دوران انہوں نے کہا کہ رواں برس کے دوران صدراسپتال اور پولیس ڈرگ ڈِی اڈکشن سینٹر میں علاج ومعالجہ کے لئے10 ہزار سے زائد افراد کو رجسٹرر کیا گیا۔ اس موقعہ پر بتایا گیا کہ یونائٹیڈ نیشن ڈرگ کنٹرول پروگرام کے ایک سروے کے مطابق کشمیر میں70 ہزار افراد ایسے ہیں جو منشیات کے عادی ہیں اور ان میں سے4 ہزار خواتین ہیں۔سروے کے مطابق منشیات کے عادی افراد کا65 سے70 فیصد حصہ طالب علموں پر مشتمل ہے۔ذہنی امراض کے سرکاری ہسپتال کی جانب سے فراہم کے گئے اعداد وشمار کے مطابق منشیات کے عادی افراد کی عمر17 اور35 برس کے درمیان ہے۔پولیس کے صوبائی سربراہ ایس پی پانی نے قریب کے حاشیہ پر نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے کہا ’’ مصنوعی منشیات(سینتھیٹک ڈرگ) کی نقل و حمل پار سے ہوتی ہے‘‘،تاہم ان کا کہنا تھا کہ پولیس اس پر کام کر رہی ہے۔آئی جی کشمیر ایس پی پانی نے کہا کہ منشیات کے استعمال کے رجحان پر قابوپانے کے لئے پولیس پبلک پارٹنر شِپ لازمی ہے۔اپنے خیالات کا اظہار کرتے ہوئے صوبائی کمشنر کشمیر بصیر احمد خان نے اس وباء پر قابو پانے کے لئے صوبائی اور ضلع سطح پر موثر لائحہ عمل ترتیب دینے پر زور دیا۔تقریب پر ریٹائرڈ جسٹس بشیر احمد کرمانی، ماہر نفسیات ڈاکٹر ارشد حسین، ڈاکٹر مظفر خان، سینٹرل یونیورسٹی کشمیر کے وائس چانسلر پروفیسر معراج الدین، شعبۂ قانون کے ڈین، شیخ شوکت حسین اور دیگر کئی شخصیات نے بھی اپنے خیالات کا اظہار کیا۔اس موقعہ پر ڈپٹی کمشنر سرینگر ڈاکٹر سید عابد رشید، ڈپٹی کمشنر بڈگام ڈاکٹر سید سحرش اصغر، اے ڈی سی بارہ مولہ فاروق احمد بابا، جوائنٹ ڈائریکٹر اطلاعات محمد اشرف حکاک اور دیگر کئی عہدیدار بھی موجود تھے۔