پرویز احمد
سرینگر //بھارت میں 55فیصد لوگ نیند کی کمی اور اس سے جڑی مختلف نوعیت کی بیماریوں کے شکار ہیں۔ ان میں 21فیصد لوگ صرف 4گھنٹے نیند کرتے ہیں۔ کشمیر میں 45.6فیصد لوگوں کو نیند کی کمی کا سامنا ہے۔معالجین کا کہنا ہے کہ نیند نہ آنا در اصل دماغ اور ذہن میںگردش کررہے اُن ان گنت مسائل کا موجب ہے، جو عمومی طور پرہر ایک شخص کو مبتلا کردیتا ہے۔نیند نہ آنا ایک بیماری ہے جسے(Insomnia)بے خوابی کہتے ہیں۔نیند نہ آنے کیساتھ کئی بیماریاں جڑی ہوتی ہیں۔ 32فیصد افراد میںبے قراری، 54فیصد جسم میںدرد،7فیصد بخار اور 5فیصد موٹاپے کے شکار ہوتے ہیں۔معالجین کا کہنا ہے کہ تمباکو نوشی ،موٹاپا، الیکٹرانک آلات کا زیادہ استعمال، غربت اور ناکام رشتے، ذہنی تھکاوٹ، اعصابی تنائو اور نشیلی ادویات یا منشیات کا استعمال لوگوں میںنیند نہ آنے کی بڑی وجوہات میں شمار ہوتے ہیں۔اسکے علاوہ سفر یا کام کا شیڈول،نیند کی خراب عادات،شام کو بہت دیر سے کھانا،دماغی صحت کے عوارض،دوائیاں،طبی صورتحال اورنیند سے متعلق امراض بھی شامل ہیں۔ میڈیکل سائنسز صورہ کی ایک تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ کم نیند کرنے کے عادی افراد نفسیاتی بیماریوں کے شکار ہوجاتے ہیں اورانہیں ہارٹ اٹیک آسکتا ہے یاانکی نس پھٹنے کے امکانات زیادہ رہتے ہیں کیونکہ نیند مکمل نہ کرنے کی وجہ سے انکا بلڈ پریشر بڑھ جاتا ہے جو جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ نیند نہ آنے کے متاثر ین میں 53فیصد مرد اور 46فیصد خواتین ہوتی ہیں۔ 20سے 35سال کے 24.7فیصد، 36سے 51سال کے 12فیصد، 52سے 67سال کے 39فیصد اور 68سال سے زیادہ عمر کے 24فیصد افراد نیند نہ آنے کی بیماری میں مبتلا ہوتے ہیں۔تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ ان میں شادی شدہ لوگوں کی شرح 85فیصد جبکہ غیر شادی شدہ لوگوں کی شرح 15فیصدہے۔ تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ بے روزگاری سے متاثر 39فیصد،برسرروزگار لوگوں کی شرح 27فیصد، زیر تعلیم طلبہ کی شرح 8فیصد جبکہ گھریلوکام کرنے والی خواتین میں سے 26فیصد نیند نہ آنے اور اس سے منسلک مختلف بیماریوں کے شکار ہیں۔ بے خوابی سب سے زیادہ عام نیند کی خرابیوں میں سے ایک ہے۔ یہ خرابی لاکھوں لوگوں کو متاثر کر رہی ہے خاص طور پر وہ لوگ جو نیند کی غیر صحت مند عادات رکھتے ہیں اور انہیں نفسیاتی یا طبی بیماریاں ہوتی ہیں۔ نیند آنے کے باوجود انہیں نیند آنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ بے خوابی تھکاوٹ اور تھکن کا باعث بنتی ہے جو جسمانی افعال کو متاثر کرتی ہے۔ بے خوابی علمی صلاحیتوں اور مزاج پر بہت اثر انداز ہوتی ہے۔ یہ کام کے ساتھ ساتھ گھریلو کاموں میں کارکردگی کی سطح کو کم کرتا ہے۔ بے خوابی کے شکار افراد کو جسمانی کام کرنے میں دشواری ہوتی ہے اور یہ عارضہ ان پر ڈرائیونگ کے دوران بھی اثر انداز ہو سکتا ہے۔ بے خوابی کو بنیادی بے خوابی اور ثانوی بے خوابی میں درجہ بندی کیا گیا ہے۔ بنیادی بے خوابی کا تعلق صحت کی کسی دوسری حالت سے نہیں ہے جبکہ ثانوی بے خوابی بعض صحت کے مسائل، جیسے کینسر، دمہ، افسردگی، دل کی جلن اور گٹھیا کی وجہ سے ہوتی ہے۔ یہ ادویات یاشراب کے زیادہ استعمال کا نتیجہ بھی ہو سکتا ہے۔ بے خوابی کا سبب بننے والے مختلف عوامل ہیں۔ نفسیاتی عوامل، دوائیں یا ہارمونل تبدیلیاں چند عوامل ہیں جو اس نیند کی خرابی کا باعث بنتے ہیں۔ اگر کسی شخص کی نفسیاتی حالت ہے جیسے ڈپریشن، تو اس بات کے زیادہ امکانات ہوتے ہیں کہ اسے نیند آنے میں دشواری کا سامنا کرنا پڑے۔ بے چینی، تنائو، مغلوبیت کا احساس کچھ دوسری حالتیں ہیں جو بے خوابی کا سبب بنتی ہیں۔ دائمی بے خوابی کو یقینی طور پر طویل مدتی صحت کے اثرات سے بچنے کے لیے بروقت علاج کی ضرورت ہوتی ہے۔تحقیق میں بتایا گیا کہ نیندنہ آنے اور اس سے جڑی دیگر بیماریوں کی شکایت کرنے والے لوگوں میں 71فیصد سگریٹ نہیں پیتے جبکہ سگریٹ نوشی کرنے والے افراد میں صرف 29فیصد لوگ ہی متاثر ہوتے ہیں۔ اس تحقیق کے مرکزی تحقیق کار اور سکمز میں شعبہ میڈیسن کے پروفیسر ڈاکٹر مدثر قادری نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’کشمیر میں نیند کی کمی اور اس سے جڑی بیماریوں میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد مبتلا ہے۔ انہوں نے کہا ’’ وادی میں ان مریضوں کی شرح 45فیصد سے زائد ہے لیکن یہ کہنا بھی غلط نہیں ہوگا کہ لوگوں کی ایک بڑی تعداد اس کا علاج و معالجہ نہیں کرتے اور نہ ہی کسی سے اس بارے میں ذکر کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ اس وجہ سے ان مریضوں کے تعداد کا اندازہ کسی بھی تحقیق میں نہیں لگایا جاسکتا ۔ انہوں نے کہا کہ چھوٹے بچوں میں نیند نہ آنے کی بڑی وجہ جنک فوڈ ،الیکٹرانک آلات کا بے تحاشہ استعمال، موٹاپا اور بڑوں میں بلڈ پریشر، شوگر اور دیگر بیماریاں وجوہات ہیں۔