اعجاز میر+اشرف چراغ
سرینگر+کپوارہ // وادی بنگس کا گیٹ وے’درنگیاری‘ کپوارہ کا ایک بڑا پہاڑی مقام ہے،جو کپواڑہ ضلع کے چوکیبل علاقے میں اونچی شمس بری پہاڑیوں کے سلسلے میں واقع ہے۔مقامی زبان میں درنگیاری کا مطلب ہے وہ جگہ جہاں نالوں کا سنگم ہو۔ یہاں ایک بڑا نالہ ہے جو سڑک کے کنارے بہتا ہے جس کا نام درنگیاری نالہ ہے۔ تین دوسرے چھوٹے نالے بھی اس میں ضم ہو جاتے ہیں اور یہ شہر چوکیبل کی طرف بہتا ہے۔ یہ جگہ خوبصورت گھاس کے میدانوں، چشموں اور برف پگھلنے والی ندیوں سے بھری ہوئی ہے۔ درنگیاری ان جگہوں میں سے ایک ہے جو اب صرف سیاحتی مقامات کیلئے جانے جاتے ہیں۔درنگیاری بڑی بہک، عینچا اور تلی پترا جیسی جگہوں سے گھرا ہوا ہے جو اپنی جنگلی حیات کے لیے مشہور ہے۔ درنگیاری میںمتعدد جھیل اور قدرتی آبی ذخائر بھی ہیں۔یہاں کوئی مستقل بستی نہیں ہے اور یہ علاقہ شدید برف باری کی وجہ سے ناقابل رسائی بنتاہے۔ گرمیوں میں، کپواڑہ کے میدانی علاقوں سے چرواہے مویشی چرانے کے لیے یہاںلاتے ہیں اور وادی بنگس کے گھاس کے میدانوں میں ٹھہرتے ہیں۔ کشمیر میں بے شمار مقامات ایسے ہیں جو نباتات اور حیوانات کے لیے مشہور ہیں اور بہت سی جگہیں ہیں جنہیں ابھی تک اپنی اہمیت نہیں ملی۔ ایسی ہی ایک جگہ درنگیاری ہے۔درنگیاری کے صحت افزا مقام میں بنیادی طور پر جنگلات کے14 کمپارٹمنٹ ہیں۔ یہ پورا علاقہ 15,142ہیکٹر جنگلاتی اراضی پر پھیلا ہوا ہے۔ وادی بنگس کی طرح درنگیاری کی جنگلاتی اراضی بھی ڈیولپمنٹ اتھارٹی کو منتقل نہیں کی جاسکی ہے کیونکہ اس میں محکمہ جنگلات کیساتھ کچھ قانونی لوازمات پورا کرنے کی کوشش نہیں کی جارہی ہے۔
چیف ایگزیکٹیو آفیسر درنگیاری لولاب ڈیولپمنٹ اتھارٹی غلام جیلانی زرگر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ درنگیاری میں سیاحت کو فروغ دینے کیلئے سرکار سے رجوع کیا گیا ہے تاکہ اس علاقے میں سیاحتی ڈھانچے کو ترقی دی جائے لیکن ابھی تک جنگلاتی اراضی کو اتھارٹی کو منتقل نہیں کی گئی ہے۔اس حوالے سے ڈویژنل فاریسٹ آفیسر کہمیل فارسٹ ڈویژن کرالہ پورہ فیصل احمد نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا کہ ابھی تک محکمہ جنگلات کی اراضی منتقل نہیں کی جاسکی ہے۔انکا کہنا تھا کہ حکومت کی جانب سے اراضی منتقلی کیلئے کوئی تحریری رابطہ نہیں کیا گیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ درنگیاری میں کسی بھی قسم کی رہائشی ڈھانچے کی تعمیر کی اجازت نہیں ہے البتہ محکمہ نے واچ اینڈ وارڈ کیلئے یہاں ایک ہٹ تعمیر کی ہے۔معلوم ہوا ہے کہ یہاں عارضی طور پر گرمیوں کے کچھ مہینوں میں لوگ رہائش اختیار کرتے ہیں جس کے لئے انہوں نے کچھ شیڈ تعمیر کئے ہیں جنہیں ’بہک‘ کہا جاتا ہے۔8اکتوبر2005 کے زلزلہ کے دوران رنگوار کی ایک پوری بستی تباہ ہوئی تھی جس کے بعد بستی کے تباہ شدہ لوگوں نے ٹی پی فاریسٹ اراضی پر پختہ تعمیر شروع کی اور اب یہاں ایک مکمل بستی قائم ہے، جو کہ کرناہ چوکیبل شاہراہ پر ٹی پی کے کنارے قائم کی گئی ہے۔ان متاثرین کو اپنی جگہ پربسانے کے بجائے اُس وقت کی سیاسی قیادت نے انہیں جنگلاتی اراضی دی ، حالانکہ اسکے بارے میں کیس عدالت تک جا پہنچا لیکن کوئی کارروائی عمل میں نہیں لائی گئی۔ ڈویژنل فاریسٹ آفیسر کہمیل فارسٹ ڈویژن کرالہ پورہ فیصل احمد نے کہا کہ اس جگہ کو خالی کرنے کیلئے کئی بار ٹونسز بھی جاری کی گئیں لیکن اس سے قبل کہ بستی کو ہٹایا جائے انکے متبادل کا انتظام کرنا لازمی ہے۔ ٹی پی درنگیاری میں دہائیوں قبل تعمیر کی گئی بیکن کی کچھ بھی عمارتیں ہیں۔ یہ وادی قدرتی دولت سے مالا مال ہے لیکن رات کے قیام کے لیے بنیادی ڈھانچہ ا بھی قائم نہیںکیا جا رہا ہے۔ اس جگہ کو ابھی تک سیاحتی مرکز کے طور پر تیار کرنا باقی ہے، کیونکہ فی الحال یہاں کوئی رہائشی انتظامات موجود نہیں ہیں اور یہی وجہ ہے کہ رات کے وقت یہاں نہیں رہ سکتے۔ یہ وادی ایک کلاسیکی منظر پیش کرتی ہے جس میں لمبے درخت، پس منظر میں بلند و بالا پہاڑ اور سڑک کے ساتھ بہتا ہوا ایک چھوٹانالہ ہے۔ وادی جنگل میں آرام دہ قیام سے لطف اندوز ہونے کے لیے ایک بہترین جگہ ہے۔ اس علاقے میں پھول قدرتی طور پر کھلتے ہیں۔ رنگوار گائوں کو ابھی تک بجلی کی سپلائی نہیں ملی ہے۔ درنگیاری کو اس کی مناسب اہمیت نہیں ملی ہے کیونکہ سیاح مشکل سے ہی اس جگہ کا دورہ کرتے ہیں یا اس کے بارے میں جانتے ہیں۔ اس علاقے کو سیاحوں کو سنبھالنے کے لیے بنیادی ڈھانچے کی ترقی کی ضرورت ہے اور یقینی طور پر لوگوں کو اس جادوئی جگہ کے بارے میں بتانے کے لیے بہت زیادہ تشہیر کی ضرورت ہے۔