آخر کار شاہ فیصل نے اپنی سیا سی جماعت کا اعلان کر ہی دیا۔جموں و کشمیر پیپلز مو منٹ کا منشور بھی مشتہر کیا گیا جس میں پر امن طریقے سے مسلہ کشمیر کو حل کرنے سے لے کر ریاست جموں و کشمیر کی خصوصی آئینی پوزیشن کا دفاع کرنے تک اور کشمیری پنڈتوں کی باز آباد کاری سے لے کر بے روزگاری کے خاتمے تک ہر ایک مُدے پر بات کی گئی ہے۔ سول سروسز سے مستعفی ہونے کے بعد شاہ فیصل نے بقول اُن کے، کشمیر، جموں و لداخ خطوں کے مختلف ا لخیال لوگوں، با ا لخصوص نوجوانوں سے تبا دلہ خیال کرنے کے بعد ہی نئی پارٹی بنانے کا فیصلہ کیا۔ اُن کا کہنا ہے کہ کئی سیاسی پارٹیوں کی جانب سے اُن کو شمولیت کی پیشکش کی گئی تھی لیکن نوجوانوں کی ایک بھاری تعداد نے اُنہیں ایسا کرنے سے روک دیا اور اُنہی نوجوانوں کے اصرار پر اُنہوں نے نئی پارٹی بنانے کا من بنا لیا۔
یوں تو ریاست جموں و کشمیر میں سیاسی پارٹیوں کی بھر مار ہے اور کئی سابقہ ممبران اسمبلی نے بھی اپنی اپنی سیاسی ٹولیاں بنا رکھی ہیں۔ لیکن شاہ فیصل کے اس قدم کو اس لئے سنجیدگی سے لیا جارہا ہے کیونکہ اُنہوں نے ایک معتبر نوکری کو خیر باد کہہ کر سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا۔ایساکرنے کے لئے ہمت چا ہیے، اپنے آپ پر اور اپنے نظریے پر مکمل اعتماد ہونے کے ساتھ ساتھ ایک واضع سوچ کا ہونا بھی لازمی ہے۔سیاست میں آنے اور پھر اپنی پارٹی لانچ کرنے کا فیصلہ بہت ہی بڑا فیصلہ ہے اور شاہ فیصل نے یہ بڑا فیصلہ لے کر ثابت کر دیا ہے کہ وہ ایک واضع سوچ لے کر اس میدان میں اُترے ہیں۔
شاہ فیصل کا سیاست میں آنے کا فیصلہ صحیح ہے یا غلط، وہ ایڈمنسٹریشن میں رہ کر عوام کی زیادہ خدمت کرسکتے تھے یا سیاست میں آکر کر پائیں گے، ان سب سوالوں سے پرے ہٹ کر اُن کے سیاست میں آنے کے فیصلے کا ایک بہت ہی مثبت پہلو ہے جسے نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔ اُنہوں نے سرکاری نوکرے چھوڑنے کا فیصلہ اس لئے کیا کہ وہ موجودہ نظام سے بد دل ہوگئے تھے۔ کشمیری نوجوانوں میں نظام یعنی سسٹم کے تئیں بد دلی کوئی نئی بات نہیں۔ یہ نظام کے تئیں بد دلی ہی ہے جو نوجوانوں کو کبھی بندوق کی شکل میں اپنے غصے اور ناراضگی کا اظہار کرنے کا باعث بنتی ہی تو کبھی ہاتھوں میں پتھر لے کر بغاوت کا اعلان کرواتی ہے۔ اور بد قسمتی سے یہ انقلاب اور بغاوت دوسرے انقلابوں کی طر ح پچھلی کئی دہا ئیوں سے اپنے ہی بچوں کو کھا رہا ہے۔ ایسے میں ہر ذی حس شخص پر لازم ہے کہ نوجوانوں کی اس بے دلی اور ناراضگی کو تعمیری راہ پر ڈالنے کی کوشش کرے اور شاہ فیصل کے سیاست میں آنے کا یہی ایک مثبت پہلو ہے کہ اُنہوں نے ایک ایسی پہل کی شروعات کی ہے۔
شاہ فیصل کے ساتھ جو نوجوان جُڑ چکے ہیں یا جو آنے والے دنوں میں جُڑیں گے، وہ نظام سے بھلے کتنے ہی ناراض اور نا لاں کیوں نہ ہوں، اپنی ناراضگی کی آگ میں اپنے آپ کو جھلسنے نہیں دیں گے۔شاہ فیصل نے انہیں ایک ایسی ڈگرکا عندیہ دیا ہے جو بربادی کی طرف نہیں جاتا۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ نوجوان اس نظام کے سامنے سر جھکادے جس نظام سے وہ نالاں ہے، ہر گز نہیں۔شاہ فیصل نے نوجوانوں کو نظام میں رہ کر نظام کو بدلنے کی ترغیب دی ہے اور یہی وقت کی ایک اہم ترین ضرورت ہے۔
حیرت کی بات یہ ہے کہ جب شاہ فیصل نے نوکری چھوڑ کر سیاست میں آنے کا فیصلہ کیا تھا تو نیشنل کانفرنس کے نائب صدر اور سابقہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ نے اُن کا والہانہ استقبال کرتے ہوئے بیروکریسی کے نقصان کو سیاست کا فائیدہ جتلایا تھا۔ لیکن جونہی شاہ فیصل نے اپنی الگ سیاسی جماعت بنانے کا فیصلہ لیا، عمر عبداللہ کو دال میں کچھ کالا نہیں بلکہ ساری کی ساری دال ہی کالی لگنے لگی۔اُنہیں شاہ فیصل کے اس فیصلے میں کہیں نہ کہیں دہلی کا ہاتھ دکھائی دینے لگا۔ وہ کہتے ہیں کہ نئی نئی پارٹیاں بنا کر کشمیریوں کو تقسیم در تقسیم کیا جارہا ہے۔عمر عبداللہ کے اس رد عمل سے 1978 کا ایک واقعہ یاد آگیا۔ مرحوم عبدالغنی لون نے کئی دوستوں بشمول مرحوم افتخار انصاری کو ساتھ ملا کر جموں و کشمیر پیپلز کانفرنس کی داغ بیل ڈالی۔ اُس وقت مرحوم شیر کشمیر شیخ محمد عبداللہ کا طوطی بولتا تھا۔ اُن کے مد مقابل کھڑے ہونے کی کوئی ہمت نہیں کر سکتا تھا۔ ایسے میں ہندواڑہ جیسے علاقے کے ایک پچھڑے ہوئے گائوں کے عبدالغنی لون نے جب پارٹی بنانے کا اعلان کیا تو شیخ صاحب تلملا اُٹھے اور انہوں نے الزام لگانا شروع کردیا کہ دہلی سرکار کشمیریوں کو تقسیم کرنے کی سازش کر رہی ہے اور یوں نئی نئی پارٹیاں منظر عام پر لائی جارہی ہیں۔
1998 میں جب مرحوم مفتی محمد سعید نے پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی بنائی، تو شیخ صاحب کے فرزند، ڈاکٹر فاروق عبداللہ نے بھی وہی باتیں دہرانا شروع کردیں جو اُ ن کے مرحوم والد نے 1978 میں پیپلز کانفرنس کے حوالے سے کی تھیں۔ حالانکہ پی ڈی پی معرض وجود میں آنے کے بعد سے اب تک دو بار ریاست میں سرکار بھی بنا چکی ہے ، لیکن فاروق عبداللہ آج بھی اس پارٹی کو Made in Delhi جتلانے میں ذرا بھی نہیں ہچکچاتے۔ اور ایسے الزامات لگانے کی عادت اب تیسری پیڑی تک آ پہنچی ہے۔ اسی لئے عمر عبداللہ بھی آج شاہ فیصل کی پیپلز مومنٹ کو لے کر وہی الزامات دہرا رہے ہیں جو اُن کے دادا نے پیپلز کانفرنس پر لگائے تھے اور اُن کے والد نے پی ڈی پی پر۔ نسلیں بدل گئیں، حالات بدل گئے، سیاست بدل گئی لیکن نیشنل کانفرنس کی سیاسی ڈکشنری میں کوئی بدلائو نہیں آیا۔ سیاسی مخالفین کے خلاف جو الفاظ 1978 میں استعمال کئے جاتے تھے، جو 1998 میں استعمال کئے گئے وہی آج 2019 میں بھی استعمال کئے جا رہے ہیں۔
نیشنل کانفرنس کا نئی سیاسی جماعتوں کے تئیں رویے کا اگرسنجیدگی سے تجزیہ کیا جائے تو یہ بات کھل کر سامنے آتی ہے کہ اس پارٹی میں دوسروں کے وجود کو برداشت کرنے کا مادہ نہیں ہے۔ یا پھر یہ پارٹی اور اس کی لیڈر شپ اپنے آپ کو کشمیر کا مالک و مختار سمجھتی ہے جہاں کسی غنی لون، مفتی سعید یا شاہ فیصل کو سیاست میں آنے کی جرأت نہیں کرنی چاہیے۔ یہ سچ ہے کہ نیشنل کانفرنس کے قائید شیخ صاحب نے کشمیر کو مہاراجہ کی غلامی سے آزاد کرانے کے لئے کلیدی رول ادا کیا لیکن یہ بھی سچ ہے کہ شخصی راج سے آزادی کے بعد جب جمہوری نظام کو اپنایا گیا تو ہر ایک عام آدمی کو یہ حق دیا گیا کہ وہ اپنی رائے کا استعمال اپنی مر ضی کے مطابق کرے۔عمر عبداللہ کو نیشنل کانفرنس چلانے کا حق ہے تو بالکل اسی طرح سجاد لون کو پیپلز کانفرنس چلانے کا حق ہے، محبوبہ مفتی کو پی ڈی پی چلانے کا حق ہے تو شاہ فیصل کو پیپلز مو منٹ اور انجینئررشید کو عوامی اتحاد پارٹی چلانے کا حق ہے۔ یہ حق کوئی کسی سے نہیں چھین سکتا۔ شاہ فیصل اپنے مشن میں کامیاب ہوتے ہیں یا نہیں، یہ الگ بات ہے لیکن ان کو اپنی سیاست کیسے چلانی ہے اس کا فیصلہ وہ خود کریں گے اور اُنہوں نے خود کیا۔سیاسی جماعتوں کو چاہے کہ وہ اپنے اند ر جمہوری مزاج پیدا کرکے ایک دوسرے کے وجود کو برداشت کرنا سیکھ لیں۔
ہفت روزہ ’’ نوائے جہلم ‘‘ سری نگر