زندگی ایک عذاب بن کر رہ گئی ۔
پریشانیاں دن بہ دن گھٹتی نہیں بلکہ بڑھتی جارہی ہیں ۔
مگر اب شاید خوشیاں …………
کُسم دیوی اپنی پڑو سن نر ملا کو اپنا دکھڑا سُنا رہی تھی ۔
ان کا جب ہسپتال میں علاج ہو رہا تھا تو اُن ہی دنوں میں نے اُن سے منّت سماجت کی اور خود کا اور بچوں کا واسطہ دیکر کہا کہ وہ ان بیکار اور خوامخواہ کے جھمیلوں میں نہ پڑا کریں اور اُن سے وعدہ بھی لینا چاہا لیکن انہوں نے یہ کہہ کر ٹال دیا ’’کوشش کروں گا وعدہ نہیں کر سکتا‘‘ ۔
پر وہ اپنی حرکتوں سے باز نہ آئے ۔
چند مہینے پہلے کی بات ہے ہمیں ہمارے نانک پور کے رشتہ داروں نے شادی میں بلایا ۔ میں نے انہیں جانے کے لئے راضی کر لیا ۔ جس دن ہم نانک پور شادی میں جانے کے لئے نکل پڑے ، اس دن میں اور بچے بہت خوش تھے ، موسم بھی خوشگوار تھا ہم ٹیکسی میں بیٹھ کر چل دئے ۔ ہائے وے پر دیکھا سارا ٹریفک جام پڑا ہے ۔ بہت ساری گاڑیاں پتا نہیں کیوں رُکی پڑیں تھیں ۔ ڈرائیور نے بتا یا کافی ٹائم لگ سکتا ہے ۔ یہ سنتے ہی وہ گاڑی سے اُترے اور آگے پیدل چل دئے ۔ کچھ دیر بعد گاڑیاں ذرا ذرا کرکے حرکت میں آنے لگیں ۔ بچوں کو اور مجھے فکر لاحق ہونے لگی ۔ ڈرائیور بھی بار بار پوچھنے لگا ۔
ارے یہ صاحب کہاں چلے گئے ؟
تھوڑا آگے چل کر ہم نے دیکھا وہ کڑی دھوپ میں ایک ہاتھ میں چھڑی لئے اور منہ میں وہسل دبائے ٹریفک کرمچاری کی مدد کررہے ہیں ۔ میں نے دیکھا وہ پسینے میں نہائے ہوئے تھے ۔ پر وہ زور زور سے وہسل بجا رہے تھے ۔ اور اپنے بازئوں کو ہوا میں لہرا لہرا کر گاڑیوں کو چلنے کا اشارہ کررہے ہیں ۔ لوگ انہیں حیرت بھری نظروں سے دیکھ رہے تھے اور کچھ لوگ ٹھا ٹھیں مار کر ہنس بھی رہے تھے ۔ ہماری سواری دیکھ کر وہ ٹیکسی کے نزدیک آئے اور مجھے سمجھانے لگے ۔
آپ لوگ چلو میں بھی آتا ہوں ۔
میں غصہ ہوئی اور ان پر چلا کر کہا ۔
چلئے اندر آئیے ! بہت ہو گیا ، آپ یہ کیا کررہے ہیں ؟ دیکھئے نا ! سارے لوگ ہنس رہے ہیں ۔
نہیںکُسم ! دیکھو وہ وہاں تک ساری گاڑیاں پہلے کلئیر کرنی ہونگی ورنہ یہ سارے لوگ یہاں جام میں پڑے پریشان رہیں گے ۔
وہ دیر رات گئے شادی میں پہنچے تب تک شادی کی ساری رونقیں ماند پڑچکی تھیں اور دعوت بھی ختم ہو چکی تھی ۔
سُن رہی ہو نا نرملا !
پھر ایک دن پتا نہیں مجھے کیا سو جھا میں نے ان سے کہا۔
سب کی پرواہ تو کرتے ہو بس میرا ہی خیال نہیں ۔ پتا ہے ہمیں کتنے دن ہو گئے ہم ایک ساتھ کہیں گھومنے یا شاپنگ کے لئے نہیں نکلے ۔
اس میں کونسی بڑی بات ہے ، جب کہو چلتے ہیں ۔
میں نے موقعے کا فائدہ اُٹھا تے ہو ئے کہا تو پھر کل چلیں۔
دوسرے دن وہ اور میں گھومنے اور شاپنگ کرنے کے لئے نکل پڑے ۔ ابھی ہم مارکیٹ میں چل ہی رہے تھے ایک جگہ چو راہے پر کافی بھیڑ جمع دیکھی ۔ ہم بھی لو گوں میں سے جگہ بناتے ہوئے آگے بڑے اور دیکھا ایک شخص زخمی حالت میں بیچ سڑک پر پڑا ہوا تھا ۔ اُسے کسی تیز رفتا رگاڑی نے کچل دیا تھا ۔ اس کا کافی خون بہہ چکا تھا اور وہ زخمی حالت میں چھٹ پٹا رہا تھا ۔ پر کوئی بھی آگے بڑھ کر اُسے اُٹھا نے کی کوشش نہیں کر رہا تھا ۔
پو لیس کیس ہے بھائی !
اس کو ہسپتال لیا تو خوامخواہ پولیس کے جھمیلوں میں پڑنا ہوگا ۔
بھیڑ میں ایک شخص دوسرے سے کہہ رہا تھا ۔
پر ان سے کہاں دیکھا گیا ۔آگے بڑھے تو میں نے بازو پکڑ کر روک لیا ۔
کیا کر رہے ہیں ؟ اتنے سارے لوگ ہیں، ان میں سے تو کوئی نہیں آگے آرہا ۔ پھر آپ کیوں ؟
کیا کہہ رہی ہو کُسم ؟ اسے ہسپتال نہیں لیا گیا تو مر جائے گا ۔ چھوڑ دو مجھے ۔
وہ سڑک کے ایک طرف چل رہے ٹریفک میں کود پڑے ، گاڑیاں روکنے کی کوشش کرنے لگے پر کوئی گاڑی والا نہ رکا ۔ ایک نے جب گاڑی روکی بھی اور جب اسے پتا چلا کہ زخمی شخص کو ہسپتال لے جانا ہے تو اس نے صاف انکار کردیا۔
نہیں نہیں ! میری گاڑی کی سیٹ خراب ہو جائے گی۔ یہ دیوانوں کی طرح منت سماجت کرتے رہے اور مدد مانگتے رہے مگر وہ نکل پڑا۔ پھر ایک ٹیکسی والا رکا ، اس نے پانچ سو روپے مانگے ۔
ہاں ہاں! دونگا بھائی بس میری مدد کر دو ۔
یہ اُس زخمی شخص کو ٹیکسی میں بٹھا کر چل دئے ۔ یہ بھی یاد نہیں رہا میں ان کے ساتھ ہوں ۔ میں اُلٹے پیر اکیلے واپس چلی آئی ۔ یہ دیر رات گئے تک واپس نہیں لو ٹے تو میں نے ان کے آفس کے ساتھی شر ما جی کو فون کرکے سارا واقعہ بتا دیا اور وہ آدھی رات کے قریب انہیں ساتھ لیکر گھر آئے ۔ پتا چلا پولیس تھانے سے آرہے ہیں ۔ شرما جی نے بتا یا پولیس انہیں ہسپتال سے کچھ سوال جواب کے لئے تھانے لے گئی ۔ شرما جی سے یہ بھی پتا چلا انہوں نے اُس زخمی شخص کی جان بچانے کے لئے خون بھی دیا ۔
یہ تو میرا ہی کلیجا ہے جو ان کے ساتھ نبھا رہی ہوں ۔ کبھی کبھی من میں آتا ہے خودکشی کر لوں لیکن پھر بچوں کا خیال آتا ہے ۔
پھر ایک دن ایک بڑی پریشانی نے ہمارے گھر کے دروازے پر دستک دی ۔
یہ آفس میں جس عہدے پر ہیں وہ کوئی خاص بڑا عہدہ نہ سہی مگر کام کے اعتبار سے نہایت ہی اہم ہے ۔ ان کے دستخط کے بغیر کوئی بھی فائل آگے نہیں بڑ ھتی ۔ ایک دن انہوں نے ایک شخص کی فائل بغیر زیادہ جانچے پرکھے آگے کے لئے ریکمنڈ کر دی ۔ بعد میں پتا چلا اس شخص نے جو بھی کاغذا جمع کر وائے تھے وہ سب جعلی تھے اور ………… اور انہیں… …… انہیں سسپنڈ کر دیا گیا۔ ان کے دوست اور فتر کے سبھی ساتھی اچھی جانتے ہیں کہ یہ کبھی بھی روپے پیسے کی لالچ میں آکر ایسا کام نہیں کر سکتے بلکہ جو انہیں قریب سے جانتے ہیں وہ ان کی بے حد عزت کرتے ہیں لیکن مسٔلہ کچھ ایسا تھا کہ آفس والوں کو انہیں سسپنڈ کرنا ہی پڑا ۔ پورا دن گھر میں بیٹھے سوچتے رہتے ۔ میں جب پوچھتی تو کہتے مجھے اس بات کا افسوس نہیں کہ اس شخص نے مجھے دھوکہ دیا یا پھر مجھ سے غلط کاغذات پر دستخط لیئے ۔ بلکہ افسوس اس بات کا ہے کہ اس نے خود کو دھوکہ دیا ۔ بھلا ایک انسان خود کو کیسے دھوکہ دے سکتا ہے ۔
مجھے حیرت ہو تی کہ اتنا ہونے کے باوجود بھی یہ ابھی بھی اس شخص کے بارے میں سوچتے ہیں، جس نے انہیں اتنا بڑا دھوکہ دیا ۔ پھر ہمیشہ کی طرح مصیبت کی گھڑی میں مجھے ایشور یاد آئے ۔ پتا نہیں میں نے کیسے ہمت جٹا ئی، خود کو ٹوٹنے سے بچایا اور ان کی ڈھارس بندھائی اور ان سے ایک دن کہا ، چلئے مندر چلتے ہیں ، بھگوان کے درشن سے کشٹ دور ہو جائیں گے اور ہماری بگڑی بھی بن جائے گی ۔ ہم اکٹھے مندر چل دئے ۔ مندر پہنچتے ہی پتا نہیں مجھے یہ خیال کہاں سے آیا کہ میرا چپل، جو میں پہن کے آئی ہوں، کہیں مندر کی سیڑھیوں سے چوری نہ ہو جائے ۔ مجھے نہیں پتا وہ میرے اس خیال کو کیسے بھانپ گئے۔ مندر کی سیڑھیوں پر بیٹھ گئے اور مجھ سے کہا ،
جائو درشن کرکے آجائو ۔
آپ نہیں چلیں گے ؟ میں نے حیرت سے پوچھا ۔
نہیں نہیں ! میں یہی پر ٹھیک ہوں ۔
ہم مندر سے واپس لوٹے تو میں نے کہا ۔
مجھے بالکل اچھا نہیں لگا ۔ آپ نے درشن نہیں کیے ۔
وہ میری طرف نظریں اٹھائے بغیر کہنے لگے ،
اُس درشن سے بھلا کیا فائدہ جہاں دھیان ایشور کے بجائے چپل میں اٹکا ہو ۔
میں شرمندہ بھی ہوئی اور حیران بھی ۔
اچھا ابھی اس وقت بھائی صاحب کہاں ہے ؟
نرملا نے کافی دیر کے بعد لب کشائی کی ۔
وہ آج آفس گئے ہیں ، انہیں آج تقریباً چھ مہینے کے بعد آفس والوں نے انکویئری کمیٹی کے سامنے حاضر ہونے کے لئے کہا تھا۔ ان کے ساتھی شرما جی کہہ رہے تھے ، آفس میں سبھی لوگ، یہاں تک کہ بڑے صاحب بھی، سیوک کمار جی کے ساتھ نرمی کا رویہ اختیار کرنے والے ہیں ۔
سنتی ہو نرملا ! اب شاید خوشیاں …………
اب پریشانی کے دن ختم ہونے والے ہیں ۔ آج انکی نوکری پھر سے بحال ہونے والی ہے ۔ اب سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ اب ان سے وعدہ لے لوں گی اور کہوں گی کہ اب تو ان بیکار جھمیلوں میں نہ پڑیں ، کسی پر آنکھیں بند کرکے بھروسہ نہ کریں ، دوسروں کے لئے اب جینا چھوڑ دیں ، دوسروں کی پرواہ کرنا چھوڑ دیں ، اس ظالم دنیا میں رہنا ہے تو سنبھل کر رہنا ہوگا ۔ نہ صرف سنبھل کر بلکہ چالاکی سے رہنا ہوگا ۔ ورنہ ۔
ورنہ ………… ورنہ یہ دنیا ہر گز جینے نہ دے گی
اہا ……… اہا ………… اہا ۔
سیوک کمار گلا کھنکارتا ہوا گھر میں داخل ہوا اور پڑوسن نرملا کُسم دیوی کو دلاسہ دیکر چلی گئی ۔
سیوک کمار اپنی بیوی کُسم دیوی سے نظریں چُرا رہا تھا ۔
کیاہوا؟
کہئے نا کیا ہوا؟
آپ کی نوکری بحال ہو گئی نا ؟……
چلئے جلدی سے کہئے نا کیا فیصلہ ہوا ؟
وہ ………… وہ انہوں نے کچھ کاغذات تیار رکھے تھے ۔ بس وہ ………… وہ مجھے دستخط کرنے کے لئے کہا اور یہ بھی کہا کہ باقی وہ خود سب سنبھال لیں گے ۔
تو ؟ کُسم دیوی نے حیرت سے پوچھا ۔
تو آپ نے دستخط کر دئے نا ؟
کُسم اُن کاغذوں میں صاف لکھا تھا جو فائل ، جس کی وجہ سے یہ سب پریشانی ہوئی ،میں نے ریکمنڈ کی ہی نہیں تھی
ہاں تو ٹھیک ہے نا ۔
نہیں بالکل نہیں ۔
بھلا میں اس غلطی سے کیسے مکر جائوں جو مجھ سے ہوئی ہے ۔
کُسم دیوی کا دل زوروں سے دھڑکنے لگا ۔
تو ؟ کُسم دیوی نے حیرت سے پوچھا ۔
تو کیا ؟ میں نے ………
میں نے وہ کاغذ پھاڑدئے اور چلا آیا ۔
ان کاغذوں پر دستخط کرنے سے بہتر تھا میں خودکشی کرلیتا ۔
سیوک کمار نے نظریں چُراتے ہوئے جواب دیا ۔
کُسم دیوی کے امید کے دیئے بجھ گئے اور اس کی آنکھوں کے سامنے اندھیرا سا چھا گیا پھر اسے اچانک اپنے بھائی کی باتیں اور نصیحت یاد آئی ۔
’’سیوک کمار ہم میں سے تو ہے لیکن ہم جیسا نہیں ، یہ تو بالکل نیا آدمی ہے ، ایک الگ ماٹی سے بنا نیا آدمی۔ بہن تم اس کو اپنے آکار میں ڈھالنے کی غلطی کبھی نہ کرنا ورنہ یہ ٹوٹ جائے گا بکھر جائے گا‘‘۔
کُسم دیوی اپنے پتی سیوک کمار سے لپٹ گئی اور پھوٹ پھوٹ کر رونے لگی ۔