سرینگر// چاڈورہ کے کٹھی پورہ چھترگام علاقے میں فوج کے ساتھ جھڑپ کے دوران لشکر کمانڈر نوید جٹھ عرف ابو حنظلہ کی ہلاکت کے بعد ریاستی پولیس کے سربراہ دلباغ سنگھ نے کہا کہ وہ حکومت ہند کے ساتھ رابطہ قائم کرینگے،تاکہ جان بحق کمانڈر کی نعش پاکستان کو سپرد کرنے کا معاملہ وہ اسلام آباد کے ساتھ اٹھائے۔ نوید جٹ بدھ کو چھترگام چاڈورہ علاقے میں فوج کے ساتھ ایک جھڑپ کے دوران ساتھی سمیت جان بحق ہوئے۔پولیس ہیڈ کواٹر میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے کہا کہ وہ پاکستان کے ساتھ با اختیار اتھارٹی کے ذریعے رابطہ قائم کریں گے،اور ان سے کہا جائے گا کہ وہ نوید جٹ کی نعش کا دعویٰ کریں۔ رپورٹوں کے مطابق لشکر کے جان بحق کمانڈر نوید جٹ پاکستان کے ملتان علاقے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہوں نے کہا نوید جٹ وادی میں کافی عرصے سے متحرک تھا،اور فورسز پر کئی حملوں میں ملوث ہونے کے علاوہ سنیئر صحافی شجاعت بخاری کی ہلاکت میں اہم مشتبہ شخص تھا۔جب ان سے پوچھا گیا کہ شجاعت بخاری کی ہلاکت میں کچھ تفصیلات دستیاب ہیں تو دلباغ سنگھ نے کہا’’ اگر نوید کو زندہ پکڑا جاتا تو اس کیس میں مزید تفصیلات جمع کرنے میں مدد ملتی،مگر نوید جھڑپ میں ہلاک ہوا، تو معاملات واضح نہیں ہوئے،مگر تحقیقات جاری ہے اور جونہی تحقیقات مکمل ہوگی انہیں منظر عام پر لایا جائے گا‘‘۔ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے لشکر کمانڈر کی ہلاکت کو فورسز کیلئے ایک بڑی کامیابی قرار دیا۔انہوں نے کہا’’ نوید جٹ کی ہلاکت فورسز اور عوام کیلئے ایک بڑی کامیابی ہے،کیونکہ انکی طرف سے ظلم و جبر انتہا کو پہنچ چکا تھا‘‘۔دلباغ سنگھ نے کہا کہ جنوبی کشمیر میں شہری ہلاکتوں اور پولیس اہلکاروں کے اہل خانہ کو ہراساں کرنے و ہلاک کرنے میں نوید جٹ اور لشکر کے جنگجو ملوث تھے۔ریاستی پولیس کے سربراہ نے کہا’’کچھ ہفتوں سے جنوبی کشمیر میں نوجوانوں کو گولیوں سے داغنا بنکوں میں ڈکیتی اور پولیس اہلکاروں کو مارنے کے علاوہ انکے رشتہ داروں کو ہراساں کرنے کی کاروائی میں نوید جٹ اور لشکر کے جنگجو شامل تھے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ گزشتہ ایک ہفتے میں جنوبی کشمیر میں2درجن کے قریب جنگجوں کو ہلاک کیا گیا،جبکہ یہ جنگجو مختلف سرگرمیوں میں شامل تھے۔ انہوں نے کہا کہ پولیس اعلیٰ جنگجو کمانڈروں کو ہدف بنا رہی ہے اور نوید ان میں سے ایک تھا،تاہم انہوں نے دعویٰ کیا کہ جنگجوئوں کی صفوں میں نوجوانوں کے بھرتی ہونے کا سلسلہ تھم گیاہیکیونکہ گزشتہ2ماہ سے وہ نوجوانوں کو بھرتی کرنے میں ناکام ہوئے۔ ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے اس رجحان کو عوام کی طرف سے تشدد کے نقصانات سے بہرہ مند ہونے کا اشارہ قرار دیا۔دلباغ سنگھ نے مزید کہا کہ جنگجوئوں کی صفوں میں نئے نوجوانوں کے بھرتی عمل کے علاوہ سنگبازی کے واقعات بھی وادی میں کم ہوئے،جو لوگوں کی طرف سے فورسز کو تعاون دینے کا ثبوت ہے۔ انہوں نے کہا’’ہم اس بات کو یقینی بنانا چاہتے ہیں کہ کسی بھی نقصان کے بغیر آپریشنوں کو پورا کیا جائے‘‘۔انہوں نے کہا کہ سنگبازی کے واقعات میں کمی آئی ہے،جبکہ نوجوانوں سے اپیل کی کہ وہ جھڑپوں کے مقامات سے دور رہیں۔ڈائریکٹر جنرل آف پولیس نے عسکریت پسندوں سے بھی تشدد کا راستہ چھوڑنے کی اپیل کرتے ہوئے کہا’’ میں جنگجوئوں سے اپیل کرتا ہو کہ وہ تشدد کا راستہ ترک کریں‘‘۔انہوں نے کہا کہ سرکار ان لوگوں کی باز آبادکاری کی پالیسی پر عمل پیرا ہے،جنہوں نے تشدد کا راستہ ترک کیا‘‘۔ریاستی پولیس کے سربراہ سے جب نامہ نگاروں نے پوچھا کہ جنگجو سماجی میڈیا پر کسی طرح تصاویر منظر عام پر لانے میں کامیاب ہوتے ہیں،تو انہوں نے کہا’’ہر ایک اپنی موجودگی کا نشان چھوڑنا چاہتا ہیں اور اسی طرح جنگجو بھی کرتے ہیں،اور وہ اپنے ویڈیو اور تصاویر کو سماجی میڈیا پر نوجوانوں کو لبھانے اور اپنی صفوں میں شمولیت کیلئے یہ تصاویر اپ لوڈ کرتے ہیں‘‘،جبکہ سماجی میڈیا پر ہر کسی کی رسائی ہیں۔ ڈائریکٹر جنرل پولیس نے تاہم حال ہی میں حزب جنگجو عمر مجید کی لالچوک کے گھنٹہ گھر کے سامنے لی ہوئی تصویر پر ردعمل پیش کرتے ہوئے کہا کہ یہ پرانی تصویر ہے۔