سرینگر//نیوز ڈیسک//2018 حالیہ برسوں میں سب سے خونین سال ثابت ہوا ہے جبکہ نومبر کا مہینہ بھی حالیہ برسوں میں سب سے خونین ماہ بن گیا ہے۔رواں برس ابتک 227جنگجو جاں بحق ہوئے ہیں ، جن میں 9اعلیٰ کمانڈر بھی شامل ہیں۔رواں ماہ میں ابتک37جنگجو جاں بحق ہوگئے ہیں۔ایک رپورٹ کے مطابق جاں بحق جنگجوئوں میں سے بیشتر مقامی ہیں ،جن میں اسکالر سے بننے جنگجو ڈاکٹر منان وانی اور سبزار صوفی بھی شامل ہیں ۔ ان جنگجو کمانڈروں میں نوید جٹ بھی شامل ہیں جو تین روز قبل کوٹھی پورہ بڈگام میں مارے گئے۔رپورٹ کے مطابق گذشتہ برس اسی عرصہ کے دوران کشمیرمیں207جنگجو جاں بحق ہوئے تھے۔پولیس سربراہ دلباغ سنگھ کا کہنا ہے کہ اس وقت کشمیر میں سرگرم جنگجوئوں کی تعداد 250کے آس پاس ہے۔انہوں نے کہا کہ کئی کامیاب آپریشنز کے بعد ،خاص کر جنوبی کشمیر میں ملی ٹنسی کا گراف کافی نیچے آگیا ہے۔رپورٹ میں کسی آفیسر کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ اس وقت صرف چار جنگجو کمانڈر سرگرم ہیں اور ان میں حزب المجاہدین کا آپریشنل کمانڈر ریاض نائیکو،البدر کمانڈر زینت الاسلام، برہان وانی کا ساتھی لطیف ٹائیگر اور ذاکر موسیٰ شامل ہیں۔رپورٹ میں سرکاری ایجنسیوں کے پاس جمع اعدادوشمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا گیا ہے کہ رواں برس ماہ اگست تک128نوجوانوں نے بندوق اٹھائی ۔نئی بھرتی کے نوے فیصد لڑکوں کا تعلق جنوبی کشمیر کے شوپیاں،پلوامہ،کولگام اور اسلام آباد اضلاع سے ہے جبکہ دیگر اضلاع کے نوجوان بھی جنگجوئیت کی جانب راغب ہیں۔جنگجوئیت کی جانب نوجوانوں کی رغبت کے رجحان کا تقابلی جائزہ لیتے ہوئے سرکاری ایجنسیوں کا کہنا ہے کہ امسال ابھی تک کم از کم128نوجوان مختلف جنگجو تنظیموں میں شامل ہوگئے ہیں اور یہ تعداد گذشتہ سال جنگجو بننے والوں سے کئی زیادہ ہے۔گذشتہ پورے سال میں126نوجوانوں نے بندوق اٹھائی تھی ۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ صدام پڈر اور کشمیر یونیورسٹی کے پروفیسرسے جنگجو بنے ڈاکٹر رفیع کے مارے جانے کے بعد نئے جنگجووں کی بھرتی میں مزید اضافہ ہوتے دیکھا گیا ۔چناچہ فقط شوپیاں اور پلوامہ کے مختلف علاقوں کے کم از کم70لڑکو ںنے جنگجوئیت کا راستہ اختیار کیا ۔پولیس اور فوج کے اعلیٰ افسران کا کہنا ہے کہ ملی ٹنسی گراف میں کمی آرہی ہے اور مقامی نوجوانوں کی جنگجوئیت کے راستے پر چلنے میں تنزلی ہورہی ہے ۔گزشتہ ایک ہفتے کے دوران جنگجو مخالف آپریشنز میں تیزی دیکھنی کو ملی اور ایک نئی حکمت عملی کے
تحت جنگجو ئوں کے خلاف شبانہ آپریشنز کئے جارہے ہیں ،تاکہ عوامی مزاحمت سے محفوظ رہا جاسکے ۔اس رپورٹ میں شہری اور فورسز ہلاکتوں کا کوئی ذکر نہیں ہے۔