راجوری//راجوری ضلع کے نوشہرہ سب ڈویژن میں لگ بھگ سات برس قبل برات کو لے جانے والی ایک بدقسمت بس سیلاب میں بہہ جانے کے بعد ایک سانحہ پیش آیاتھا جس میں 60 سے زائد افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے جبکہ چھ سے سات افراد کی لاشوں کا ابھی تک پتہ نہیں چل سکا ہے۔تاہم طویل عرصہ گزرنے کے بعد بھی اس سانحہ کا زخم آج بھی ان گاؤں والوں کے دل اور آنکھوں میں تازہ ہے جنہوں نے اپنے خاندان کے افراد کو کھو دیا۔حادثے کا شکار ہونے والی بدقسمت بس کی باقیات ابھی تک رائے پور بھاٹہ پل کے نیچے بہتی ہوئی ایک چھوٹی ندی میں پڑے ہیں اور اس گاڑی کے باقیات لام لائن آف کنٹرول کے علاقے کی طرف بڑھنے والے ہر شخص کا خیرمقدم کرتے ہیں۔علاقہ مکینوں کا کہنا ہے کہ اس سانحہ کی یاد ان کے دلوں سے کبھی بھی مٹ نہیں سکتی کیونکہ انہوں نے وہ دن دیکھے تھے جب مقامی شمشان گھاٹ میں 10 سے 11 افراد کی لاشوںکی ایک ساتھ آخری رسومات ادا کی گئی ۔تفصیلات بتاتے ہوئے، رائے پور بھاٹہ گاؤں کے مقامی لوگوں نے بتایا کہ 4 ستمبر 2014 کو ایک مقامی سکھ لڑکے کی بارات گاؤں سے لام جا رہی تھی اور رائے پور بھاٹہ پر چھوٹے سیمنٹ والے پل کو عبور کرتے ہوئے ڈرائیور نے گاڑی کا کنٹرول کھو دیا اور گاڑی حادثے کا شکار ہو گئی تھی ۔ایک مقامی رہائشی ایم کے سنگھ نے بتایا کہ ’’یہ ہمارے لئے ایک ڈراؤنا خواب تھا کیونکہ ایک بارات بس جو کئی خاندانوں کے افراد کو لے کر جا رہی تھی، سیلابی ریلے میں گر گئی اور بہہ گئی اور تمام مسافر اس کا شکار ہو گئے۔انہوں نے کہا کہ اس بدقسمت بس کی باقیات اب بھی پل کے نیچے پڑے ہیں ۔انہوں نے کہاکہ لام لائن آف کنٹرول کے علاقے کی طرف بڑھتے ہوئے ہر کوئی اس پل کے اوپر سے گزرتا ہے اور بس کی باقیات کو پانی میں پڑا ہوا دیکھتا ہے۔’’دیگر راہگیروں کیلئے یہ صرف ایک کہانی یا خبر کا حصہ ہے لیکن ہمارے لئے یہ ایک ڈراؤنا خواب ہے اور جب بھی ہمیں اس سانحے کی یاد آتی ہے تو ہم کانپ جاتے ہیں‘‘۔انہوں نے کہاکہ اس بس حادثے کی یاد گاؤں کے ہر ایک فرد کے دل میں آج بھی تازہ ہے اور جب بھی ہم اپنے قریبی عزیزوں کو یاد کرتے ہیں جو اس حادثے میں ہلاک ہوئے تھے، ہماری آنکھیں آنسوؤں سے بھر جاتی ہیں۔