نرسوں کا عالمی دن

پرویز احمد

سرینگر //انٹرنیشنل کونسل آف نرسز نے سال 2022میں عالمی یوم نرس کیلئے ’’  شعبہ صحت کو مضبوط بنانے کیلئے نرسوں کو  تحفظ،مدد اور نرسنگ شعبہ میں سرمایہ کاری‘‘ کے موضوع کا انتخاب کیا ہے۔ وادی کے مختلف اسپتالوں میں کام کرنے والی نرسوں کا کہنا ہے کہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے باوجود بھی انہیں قلیل تنخواہیں دی جاتی ہیں۔انکا کہنا ہے کہ، مختلف سرکاری اسپتالوں میں خالی پڑیں اسامیوں کو پر کرنے میں سرکار کی عدم دلچسپی  اسکی بنیادی وجہ ہے کیونکہ انہیں پرائیویٹ اسپتالوں اور نرسنگ ہوموں میں کم تنخواہ پر کام کرنا پڑتا ہے۔سکمز نرسنگ کالج پرنسپل پروفیسر منیرا بشیر نے کشمیر عظمیٰ کو بتایا ’’وادی کے سرکاری اسپتالوں میں کام کرنے والی نرسوں کی تعداد کافی کم ہے اور اسی وجہ سے سرکاری اسپتالوں میں ایک نرس کو 30مریضوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ نرسنگ قوائد و ضوابط کے مطابق ایک نرس کو معمول کے وارڈ میں 10مریضوں کا خیال رکھنا ہوتا ہے جبکہ انتہائی نگہداشت والے وارڈوں میں  ایک مریض کی دیکھ بال کیلئے ایک نرس  درکار ہوتی ہے۔ پروفیسر منیرا نے بتایا ’’ نرسنگ کی تعلیم کیلئے بنیادی ڈھانچہ کو مضبوط کیا جارہا ہے اور سرکاری اور نجی سطح پر کئی نرسنگ کالجوں کا قیام عمل میں لایا گیا ہے لیکن اعلیٰ تعلیم یافتہ نرسوں کو روز گار فراہم کرنے کیلئے کچھ بھی نہیں کیا جارہا ہے‘‘۔

پرنسپل نے بتایا ’’ نرسوں کی بھرتی اور ترقی میں تاخیر کی وجہ سے سینئر نیم طبی عملہ سبکدوش ہورہا ہے لیکن ان کی کمی کو پورا کرنے کیلئے متبادل فراہم نہیں کیا جاتا ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ نجی سیکٹر میں کئی لیبارٹریز اور اسپتالوں کا قیام عمل میں آیا ہے لیکن وہاں آج بھی اعلیٰ تعلیم یافتہ نرسیں قلیل تنخواہوں پر کام کررہی ہیں۔ انہوں نے کہا ’’ وادی میں موجود 10سرکاری نرسنگ کالجوں سے ہر سال 500کے قریب نرسیں تعلیم مکمل کرکے فارغ ہوتی ہیں جو بعد میں نجی اسپتالوں میں قلیل تنخواہوں پر کام کرتی ہیں۔ پروفیسر افروز نے بتایا ’’ سکمز صورہ میں بھی پی ایچ ڈی نرسیں سبکدوش ہورہی ہیں لیکن ان کی کمی کو پورا کرنے کیلئے کوئی بھرتی نہیں کی جارہی ہے اور نہ ہی پرانی نرسوں کو ترقی دی جارہی ہے‘‘۔ انہوں نے کہا کہ نرسوں کے بھرتی عمل میں کافی تاخیر ہوتی ہے۔ گورنمنٹ میڈیکل کالج سرینگر میں کام کرنے والی ایک نرس نے بتایا ’’عالمی وباء کے دوران  نرسنگ عملہ پر ہی زیادہ بوجھ رہا اور اس کے بائوجود بھی نرسنگ عملہ کی بھرتی نہیں کی گئی‘‘۔مذکورہ نرس نے بتایا ’’ سرکار نے چند ماہ کیلئے عارضی بنیاد پر نرسوں کی تعیناتی عمل میں لائی اور کورونا وائرس کیسوں میں کمی کے ساتھ ہی عارضی نرسوں کو پھر فارغ کیا گیا ‘‘۔مذکورہ نرس نے بتایا کہ جی ایم سی سرینگر میں سینئر نرسیں سبکدوش ہورہی ہیں اور بھرتی کا عمل بھی شروع نہیں کیا گیا ہے۔نرسنگ شعبہ کو مضبوط کرنے سے ہی شعبہ صحت میں استحکام ممکن ہے لیکن اس کیلئے سرمایہ کاری کی ضرورت ہے جو ابھی کوسوں دور ہے‘‘۔ یہ امر قابل ذکر ہے کہ نرسنگ کی تکنیکی تربیت کا کورس 4سال کا ہوتا ہے اور چار سال تک مکمل تربیت اور تعلیم حاصل کرنے کے باوجودبھی انکی خدمات کا سرکاری طور پر ضائع کیا جاتا ہے۔ انڈین پبلک ہیلتھ اسٹینڈرڈز (IPHS) کے اصولوں کے مطابق جموں کشمیر ہسپتالوں میں 3193 نرسیں ہونی چاہئیں، لیکن نرسوں کی صرف 1290 منظور شدہ جگہیں ہیں۔ ایک آڈٹ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ منظور شدہ آسامیوں میں سے، صرف 857 نرسیں ہیں، جب کہ 433 آسامیاں خالی ہیں۔صحت اور خاندانی بہبود کی مرکزی وزارت کے تجویز کردہ اصولوں کے مطابق، مجموعی طور پر 1903 نرسوں کی کمی ہے۔محکمہ صحت کے افسران نے بتایا کہ ماضی میں خالی آسامیوں کو پر کرنے اور نئی آسامیاں بنانے کے لیے کم از کم تین تجاویز اعلیٰ حکام کو بھیجی گئی تھیں۔ان کا کہنا تھا کہ حکومت اسپتال میں مریضوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ اور نئے اسپتال کھولنے کے پیش نظر نرسوں کی بڑھتی ہوئی ضرورت کو نظر انداز کر رہی ہے۔”بدقسمتی سے تجاویز پر کبھی غور نہیں کیا گیا،۔جموں و کشمیر میں 22 ڈسٹرکٹ ہسپتال، 88 سب ڈسٹرکٹ ہسپتالوں کے علاوہ کشمیر اور جموں دونوں میں آٹھ میڈیکل کالج اور 11 متعلقہ ہسپتال ہیں۔ مجوزہ 10 نرسنگ کالجوں کے لیے کوئی عملہ منظور نہیں کیا گیا ہے جسے ریاست کی متواتر حکومتوں کی “سب سے بڑی ترجیح” قرار دیا گیا ہے۔

رپورٹ میں تجویز پیش کی گئی ہے کہ “مجوزہ نرسنگ کالجوں کے لیے عملہ پیدا کرنے کی بھی فوری ضرورت ہے تاکہ ہسپتالوں کے لیے مطلوبہ تعداد میں اچھے معیار کی نرسوں کو تربیت دی جا سکے۔”