انجینئر مشتاق تعظیم کشمیری
اللہ تبارک وتعالیٰ قران مجید میں(سورۃ بقرہ، آیت نمبر222 )میں ارشاد فرماتے ہیں’’بے شک اللہ محبت رکھتا ہے توبہ کرنے والوں سے اور محبت رکھتا ہے پاک صاف رہنے والوں سے‘‘۔اللہ کا کوئی ایسا بندہ نہیں جس کے دل و دماغ دنیا کی ہمہ ہمی، چمک دمک اور رنگ رلیوں سے متاثر نہ ہوتے ہوں۔ نفسانی خواہشات، دنیا کی مختلف لذتیں اور پھر شیطانوں کے مختلف جہتوں سے تسلسل کے ساتھ حملے ہیں جن کے سبب ولی صفت انسان بھی غفلت کا شکار ہوکر گناہ اور قصور کربیٹھتا ہے لیکن جب وہ ندامت، شرمندگی اور اللہ کے نزدیک جواب دہی کا احساس پیدا کرتا ہے اور اپنے آپ کو مجرم اور خطاوار سمجھ کر معافی اور بخشش مانگتا ہے اور آئندہ کیلئے توبہ کرتا ہے تواس کے سارے گناہ معاف کردئیے جاتے ہیں اور وہ اللہ کی نظر میں اتنا محبوب اور پیارا انسان ہوجاتا ہے جیسا کہ اس نے کوئی گناہ ہی نہ کیا ہو۔
قرآن مجید میں توبہ و استغفار کرنے والے بندوں کیلئے صرف معافی اور بخشش ہی کی نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کی خاص عنایت و محبت اور اس کے پیار کی بشارت سنائی گئی ہے اور گناہ کا احساس اور پھر گریہ و زاری اللہ کو بہت پسند ہے۔ جب کوئی انسان جرم اور گناہ کرنے کے بعداپنے مالک حقیقی کے سامنے روتا ہے تو وہ اس سے بے انتہا خوش ہوتا ہے گویا اس نے اپنی بندگی، عاجزی اور اللہ کی عظمت کااعتراف کرلیا اور یہی وہ تصور ہے جس کے استحکام پر اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب اور بڑی نعمتوں اور رحمتوں کا وعدہ فرمایا ہے۔ ندامت کے آنسوؤں کے وہ قطرے جو سجدہ میں گنہگاروں کی آنکھوں سے گرتے ہیں وہ اتنے قیمتی ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی رحمت ان کو شہیدوں کے خون کے برابر وزن کرتی ہے ۔
گناہ پر اصرار یعنی بے فکری اور بے خوفی کے ساتھ گناہ کرتے رہنا اوراس پر قائم و دائم رہنا بڑی بدبختی اور بہت برے انجام کی نشانی ہے اور ایسا عادی مجرم اللہ کی رحمت کا مستحق نہیں۔اس لیے احادیث میں گناہ پر ندامت اور توبہ کی تاکید کی گئی ہے۔ اگرچہ بظاہر گناہ کا کوئی عمل معلوم نہ ہو پھر بھی توبہ کی عادت بنالینی چاہیے، اس لیے کہ توبہ عاصیوں اور گنہگاروں کیلئے مغفرت و رحمت کا ذریعہ اورمقربین و معصومین کیلئے درجات قرب و محبوبیت میں بے انتہا ترقی کا وسیلہ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ایک ایک دن میں ستر مرتبہ اور ایک روایت کے مطابق سو مرتبہ توبہ و استغفار فرماتے تھے۔ اس میں صالحین اور نیکوکاروں کیلئے بڑی نصیحت اور عبرت مضمر ہے۔ ممکن ہے کہ کوئی گناہ ہوگیاہو اور یاد نہ ہو تو توبہ کے ذریعہ وہ معاف ہوجائے گا اور اگر واقعتا کوئی گناہ نہیں ہوا ہے تو ترقی کا ذریعہ ثابت ہوگا جس کا ہر شخص محتاج ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ستر مرتبہ توبہ و استغفار کے عمل سے یہ بات بھی معلوم ہوتی ہے کہ اگرکسی گناہ پر ایک مرتبہ توبہ کرنے کے بعد پھر سے وہی گناہ ہوجائے تو پھر سے توبہ کرلی جائے۔اس میں شرم کرنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ایک گناہ کا بارہا ارتکاب ہورہا ہے بلکہ متعدد مرتبہ غلطیوں سے استغفار سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور اس توبہ واستغفار کے نتیجہ میں گناہ کو ترک کرنے کا داعیہ پیدا کردیا جاتا ہے۔اللہ تعالیٰ ہمیں سچی توبہ کرنے کی تو فیق عطا فرمائے اور ہماری توبہ اپنی بارگاہ میں قبول فر مائیں۔ آمین ثْم آمین۔