جدید دور میں سب سے اہم ادارہ ، در حقیقت تمام اداروں کی ماں ، ریاست ہی ہے۔ اس میں اجتماعیت کے تمام افعال کا احاطہ کیا گیا ہے اور جدید دور کے بین الاقوامی نظام کی بنیاد بنتی ہے۔ ریاست کا ایک اہم کام معاشرے کے مختلف طبقات کے درمیان توازن برقرار رکھنا اور دستیاب وسائل کو منصفانہ اور موثر انداز میں تقسیم کرنا ہے۔ جوریاست یہ کام کرتی ہے وہ کامیاب کہلاتی ہے اور جویہ کام کرنے میں ناکام رہتی ہے ،وہ لوگوں کی نظروں میں جواز کھو دیتی ہے۔ ایک ہی کام کی قدرتی اور منطقی توسیع ان لوگوں کی مدد کرنا ہے جو کسی وجہ سے مالی یا دوسرے بحران میں الجھے ہوئے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ پوری دنیا کی ریاستیں معاشرے کے ان طبقوں کے لئے پیکیجوں اورسکیموں کا اعلان کرتی ہیں جنہیں انسا ن کی لائی ہوئی یا قدرتی تباہی کا سامنا کرنا پڑاہو۔ ایسے تمام حالات میں ،چاہئے وہ طوفان ہو، زلزلہ ہو ، سیلاب ہو یا آگ ، لوگ توقع کرتے ہیں کہ ریاست کے کارندے ان ان کے بچاؤ کے لئے حاضر ہوجائیں گے۔گزشتہ شام بھی ایک ایسی ناگہانی آفت نے جموںوکشمیر کو اپنی لپیٹ میں لے لیا۔سرشام بادل پھٹنے کے واقعہ میں بڈگام میں اینٹ بھٹہ پر کام کررہے اتر پردیش کے 2سگے بھائی والدہ سمیت لقمہ اجل بن گئے جبکہ بو ٹینگو اننت ناگ میں آندھی چلنے سے ٹین کی چادر ایک خاتون پر گری جس سے وہ جاں بحق ہوئی اور گاندربل میں اسی طرح کے واقعہ میں ایک خاتون زخمی ہوئی۔ شمالی کشمیر کے سوپور، بانڈی پورہ، جنوبی کشمیر کے ترال، بجبہاڑہ، اننت ناگ اور وسطی کشمیر کے گاندربل علاقے میں تیز رفتار ا?ندھی سے متعدد مکانوں، اور دکانوں کی چھٹیں اڑ گئیں، درجنوں کی تعداد میں بجلی کے کھمبے اور سینکڑوں درخت اکھڑ گئے جسکے ساتھ ہی ژالہ باری سے میوہ باغات تباہ ہوئے۔ متاثرہ خاندانوں کے لئے مالی امداد کا اعلان کرکے انتظامیہ نے ایک عمدہ اقدام اٹھایا ہے۔ ناگہانی آفات کے متاثرین کی امداد اور دلجوئی کے سرکاری اقدامات کا ہمیشہ اعتراف اور خیر مقدم کیا جانا چاہئے۔ متعلقہ عہدیداروں کے ایسے اقدامات کرنے پر اگرچہ ہم ان کی تعریف کرتے ہیںتاہم انہیںبھی اپنے عملے کو ہدایت کرنے کی ضرورت ہے تاکہ اس بات کو یقینی بنایا جاسکے کہ امداد واقعی مستحق کنبے تک بنا کسی تاخیر کے پہنچ جائے۔ اس عمل میں عہدیداروں کو یہ امداد حاصل کرنے والے لوگوں کی عزت نفس پر بھی غور کرنا چاہئے۔ یہ لوگ نقصان سے پہلے ہی تباہ ہوچکے ہوتے ہیں اور ہمیں فائلوں کو ایک ٹیبل سے دوسرے ٹیبل پر چلاتے ہوئے ان کے احترام کو پامال نہیں کرنا چاہئے۔ مدد انسانی وقار کی قیمت پر نہیں آنی چاہئے بلکہ متاثرین کا وقار برقرار رکھتے ہوئے اگر مدد ہو تو مستحسن ہے۔ضرورت اس امر ہے کہ انتظامیہ سے جڑے لوگ آندھی طوفان ،برف،آتشزدگی یا کسی بھی ناگہانی آفت سے متاثرہ لوگوں کی دلجوئی کو کوئی خیرات نہ سمجھیں بلکہ اس کو اپنا فریضہ مانیں اور جب یہ فرض تصور کیاجائے تو یقینی طور پر انتہائی رازداری کے ساتھ متاثرین کی امداد بھی یقینی بنائی جاسکتی ہے اور ان کی بازآبادکاری میں بھی تاخیر نہیں ہوسکتی ہے۔عموماً دیکھنے میں آیا ہے کہ یہاں ناگہانی آفات سے متاثرہ لوگوں کوسٹیٹ ڈیزاسٹر رسپانس فنڈ سے چند ہزار روپے کی علامتی سرکاری امداد کیلئے درد ر کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہی نہیں کیاجاتا ہے بلکہ اُن سے رشوت کا تقاضا بھی کیاجاتا ہے ،جو انتہائی افسوسناک امر ہے۔موجودہ جمہوری دور کی ریاست سے اس طرح کے سلوک کی امید نہیں کی جاسکتی ہے کیونکہ آج کی ریاست جوابدہ بھی ہے اور نظم و ضبط کی تابع بھی ۔آج کی ریاست فلاحی ریاست کا تصور لیکر آئی ہے جہاں آئے روز یہی دعوے کئے جاتے ہیں کہ ریاست لوگوں کی فلاح و بہود میں منہمک ہے ۔سرکار سے جڑے لوگ اسی ریاست کے کل پرزے ہوتے ہیں اور جب کل پرزے درست سمت میںاپنی مفوضہ ذمہ داریاں انجام دیں تو ریاست کا سفر بھی صحیح سمت میں جاری رہے گا لیکن جب یہی کل پرزے راہ سے بھٹک کر اقدار کو فراموش کریں اور ضرورتمندوں کی امداد کو بھی ذاتی مفادات سے جوڑ دیںتوریاست کی جو خیالی شاندار عمارت لوگوںکے تصور میں رچی بسی ہوتی ہے ،وہ پاش پاش ہونے لگتی ہے اور یوں ریاست اور رعایا کے درمیان ایک خلیج یا دراڑ پیدا ہوجاتی ہے جو آگے چل کربے پناہ مسائل کا سبب بن جاتی ہے۔امید کی جاسکتی ہے کہ ریاست اپنی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ہوجائے گی اور رعایا یا اپنی عوام کیلئے پیش پیش ہی نہیں رہے گی بلکہ اس امر کو بھی یقینی بنایا جائے گا کہ رعایا کے پسماندہ طبقہ جات اورناگہانی آفات کے متاثرین و مستحقین کی فوری اور بھرپور امداد ہو تاکہ اُنہیں اپنی عزت نفس کو اپنے ہاتھوں پامال کرتے ہوئے دوسروں کے آگے ہاتھ نہ پھیلانا پڑے ۔