حصہ دوم
افتخار اے درابو
1960کی دہائی کے آخر میں ریاستی انجینئروں سے کہا گیا کہ وہ نالہ مار کے مسائل کا مطالعہ کریں اور نالہ مار کو اُس کی سابقہ شان میں بحال کرنے کے امکانات تلاش کریں۔ چنانچہ یہاں کی انجینئرنگ کمیونٹی کے درمیان کافی بحث و مباحثہ ہوا جبکہ اس سلسلے میں قومی سطح کے ماہرین سے بھی تکنیکی مشورے اور رہنمائی لی گئی۔
نالہ مار کی قابل رحم حالت اور عملی طور پر ممکنہ قابل عمل حل پر غور و فکر کرنے کے بعد کئی برسوں کے طویل عرصہ میں منصوبے کی تصور اور حتمی شکل مکمل کی گئی۔ ان بحث و مباحثوں کے نتیجے میں یہ بات واضح ہوچکی تھی کہ نالہ مار کو اصل شکل میں بحال کرنا کوئی قابل عمل تجویز نہیں تھی۔
مجوزہ حل یقینی طور پر ‘فوری حل نہیں تھے جیسا کہ بتایا جارہا ہے بلکہ نالہ مار کو دوچار مختلف مسائل کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد یہ نتائج اخذ کئے گئے تھے۔بحث و تمحیص کے نتیجہ میں درج ذیل دو حل نکل کر سامنے آئے ؛
1۔ نالہ مار کو اس کےماخذ (براری نمبل جھیل کی طرف سے)پر بڑے پیمانے پر پمپنگ کے ذریعے طوفانی پانی کی نالی میں تبدیل کرنا۔
2۔ نالے کی بھرائی کرکے اس کو راستے میںتبدیل کرنا اور اس کے نیچے سے نکاسی نظام چلانا۔
کہا جاتا ہے کہ پہلے حل کو جانچنے کے لئے گڈیار کے قریب بھاری پمپ نصب کیا گیا تھا تاکہ جہلم سے پانی کو مار میں پمپ کیا جا سکے لیکن کسی بھی صورت میںیہ تجربہ کامیاب ثابت نہ ہو سکا، ممکنہ طور پر نہر میں کافی حد تک کیچڑ جمع ہونے کی وجہ سے ۔جس کے بعدیہ خیال ترک کر دیا گیا۔ پہلے حل کی دوسری خرابی ،اُس کے سالانہ چلانے اور دیکھ بھال کے بھاری اخراجات تھے۔ ان دونوں چیزوں نے پہلے حل کو اپنانے کے خلاف فیصلہ کُن کام کیا۔آخر کارایسا لگتا ہے کہ تمام سٹیک ہولڈر یا متعلقین دوسرے حل یعنی مار میں فضلہ کی نکاسی کیلئے نکاسی نظام قائم کرکے اوپر سے اِسکی بھرائی کرکے سڑک تعمیر کرنے کے مکمل طور پر حامی تھے۔
اس حل کو بالآخر حتمی شکل دی گئی اور عملدرآمد کےلئے منظور کر لیا گیا۔ یہاں یہ بتانا ضروری ہے کہ اختلاف کرنے والی واحد پیشہ ورانہ رائے صرف انجینئر وی ڈی زاڈو کی تھی، جنہوں نے نالہ مار بھرنے کی مخالفت کی تھی۔انہوں نے پہلے ہی خبردار کیا تھا کہ مار کو بھرنا تباہ کن ہوگا۔اس مرحلے پر انجینئروں نے مستقبل کو مدِ نظر رکھ کر اس منصوبے کے دائرہ کار کو وسیع کیا۔انہوں نےپروجیکٹ کے دائرہ کار کو گٹر اور نالیاں بچھانے اور گٹر کے اوپر سڑک کی تعمیر تک محدود کرنے کے بجائے اس پورے علاقے کیلئے ری ڈیولپمنٹ پلان کاجامع منصوبہ پیش کیا۔
اس مربوط ری ڈیولپمنٹ پلان کا مقصد شہر خاص میں اقتصادی سرگرمیوں کو بحال کرنا تھا۔اس کے مطابق، پروجیکٹ میں دکانیں، رہائش کے لئے فلیٹس اور مختلف عوامی مقاصد کی عمارتیں جیسے پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف آفس، پولیس سٹیشن، سکول، صحت کے مراکز کی تعمیر کا تصور کیا گیا ۔ترقیاتی منصوبے میں پیٹرول پمپ، سینما ہال اور پارکنگ ایریاز کی بھی منصوبہ بندی کی گئی۔ اس نے زمین پر ترقی کے نقش کو بڑے پیمانے پر بڑھا وادیااور اس کو عملی جامہ پہنانے کیلئے مار کے 35سے 40فٹ چوڑائی کے مقابلے میں120 فٹ راہداری کی ضرورت تھی۔
مربوط ری ڈیولپمنٹ پلان
نالہ مارعلاقہ کی ترقی سے متعلق ایک مربوط ری ڈیولپمنٹ پلان کی تکنیکی رپورٹ محکمہ آبپاشی اور فلڈ کنٹرول کشمیر نے تیار کی تھی اوراس پروجیکٹ کی افتتاحی تقریب جون `1971میں منعقد ہوئی تھی۔اس پراجیکٹ کو صحت عامہ اور حفظان صحت کے معیارات کو بلند کرنے کے لیے ایک قدم کے طور پر بیان کیا گیا تھااور چار سال میں مکمل ہونے کا تصور کیا گیا تھا۔ اس کے بعد اس پروجیکٹ کو عمل درآمد کے لئے سری نگر ڈیولپمنٹ اتھارٹی کے حوالے کر دیا گیا۔
اس پس منظر میں اب اس پروجیکٹ کے مختلف پہلوؤں میں سے ہر ایک کو تفصیل سے دیکھتے ہیں، جس پر1974سے عمل درآمد شروع ہوا تھا۔ عام طور پر کہا جاتا ہے کہ جب کوئی نالہ مار پروجیکٹ یا مار پلان کی بات کرتا ہے، تو عموماًہم صرف نالہ مار کو بھرنے اور اس کے اوپر سڑک کی تعمیر کے بارے میں ہی سوچتے ہیںلیکن جیسا کہ مختصراً اوپر ذکر کیا گیا ہے کہ اصل میں منظور کیا گیاپروجیکٹ صرف مار کو بھرنے اورفِلنگ کے اوپر سڑک کی تعمیر سے کہیں زیادہ تھا۔ درحقیقت یہ شہری ترقی کے لئے ایک بڑی مداخلت تھی اور اسی مناسبت سے اسے ‘نالہ مار ایریا کی ترقی کا منصوبہ کہا گیا تھا۔پرانے ناکارہ نالہ مار کو پُر کرنا پروجیکٹ کے متعدد اجزاء میں سے ایک تھا۔ پروجیکٹ کے اہم کلیدی اجزاء ذیل میں درج ہیں:
(۱) 4 کلومیٹر لمبی بڑی ٹرنک سیوریج لائن (آندھ مسجد سے گذربل تک پہلے سے کاسٹ سیمنٹ کنکریٹ کے پائپ) بشمول گلیوں اور سڑکوں میں گٹرنالیوں کے شاخ۔
(۲)نالہ مار کو فلڈ سپل چینل سے مٹی کا استعمال کرتے ہوئے بھرناتاکہ اسکی گہرائی 5 فٹ سے 15 فٹ تک بڑھ جائے۔
(۳) 64 فٹ چوڑائی کے ساتھ 3.75 کلومیٹر سڑک کی تعمیر ،جس میںدوگلیاروں والی سڑک بنے اور ہر گلیارہ22 فٹ کا ہو جبکہ بیچ میں 4فٹ کی پٹی ہو اور دونوں جانب 8،8فٹ کے فٹ پاتھ ہوں۔
(۴)دونوں طرف مین ہولز کے ساتھ برساتی پانی کی نکاسی کیلئے ڈرین کی تعمیر۔
(۵) 983 ،تین منزلہ عمارت ،جس میںدوکانوں کے ساتھ فلیٹ (سنگل، دو اور تین کمرے والے) بلاکس ہوں جواقتصادی طور پسماندہ، کم آمدن والے اور درمیانی آمدن والے گروپوں کی رہائشی ضروریات کو پورا کرتےہوں۔
(۶)1335 دکانوں کی تعمیر،جن میں کچھ کا رخ مجوزہ مار روڈ کی طرف ہو اور باقی کا رخ پیچھے کی طرف ہو۔
(۷)ان دکانوں کے آس پاس دوسوپر بازاروں کا قیام۔
(۸)دو سنیما ہال، دو پٹرول پمپ، پارکنگ ایریا، پوسٹ اینڈ ٹیلی گراف آفس، پولیس سٹیشن، کمیونٹی بلڈنگز اور دیگرسہولیات جیسے سکول، ہیلتھ سنٹر، اسّی دکانیں اور پچاس دکانیں معہ فلیٹس، جن کےلئے اراضی کی نشاندہی کی گئی تھی۔
(۹) 390 مکانات اور560کنال قیمتی اراضی حاصل کی جانی تھی جن میںکل 650خاندان شامل تھے۔دوکا نوں اور رہائشی ڈھانچوںکے لئے56فٹ چوڑی اضافی پٹی کا حصول۔
واضح طور پر دیکھا جا سکتا ہے کہ یہ ایک معقول طور پر سوچا جانے والا شہری انفراسٹرکچر کی سرنو ترقی کا منصوبہ تھا جس میں مختلف اجزاء شامل تھے اورنیچے نکاسی نظام رکھ کرر نالہ مارکی بھرائی کرنا اس منصوبے کے اہم اجزاء میں سے ایک تھا۔دلچسپ بات یہ ہے کہ ان شہری بنیادی ڈھانچہ کے کاموں کی فنڈنگ کےلئے نکاسی نظام کو چھوڑ کرHUDCO کی خدمات حاصل کی گئی تھیںجس نے پروجیکٹ کے آغاز میں 60 لاکھ روپے کی پہلی قسط بھی جاری کی تھی۔ پروجیکٹ کی فائنانسنگ کا تفصیلی جائزہ لیا گیا تھا اور تجارتی طور پر یہ ایک قابل عمل پروجیکٹ پایا گیا تھا ۔زمین کے پلاٹوں کے علاوہ تمام فلیٹس، دکانوں اور سپر بازاروں کے لئے ایک وقتی پریمیم کے ساتھ ساتھ اس میں سالانہ کرایہ بھی شمار کیا گیا تھاتاہم اس میں ان زمین پلاٹوںکو شامل نہیں کیاگیا جن کی بعد میںنیلامی کرنے کا ارادہ تھا۔
یہ تصور کیا گیا تھا کہ ری ڈیولپمنٹ پلان پر عمل درآمد سے علاقے میں معاشی سرگرمیاں بحال ہوں گی اور اس میں اضافہ ہوگا اور اس طرح علاقے میں رہنے والی آبادی کو کاروبار اور روزگار کے مواقع فراہم ہوں گے۔
(مضمون جاری ہے۔اگلی قسط انشاء اللہ اگلے ہفتہ شائع کی جائے گی۔)
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)