سید مصطفی احمد
اس مضمون کو میں قانونی یا پھر مذہبی زاویے سے شروع کروں، فیصلہ کرنا تھوڑا سا مشکل ہے۔ قانونی زاویے سے اگر دیکھا جائے تو اٹھارہ سال سے کم عمر کے بچوں کو نابالغ مانا جاتا ہے۔ ان پر قانون کی زیادہ گرفت بھی نہیں ہوتی ہے جس کی وجہ سے وہ مختلف جرائم میں چھوٹ جاتے ہیں۔ ترقی کے اس جدید دور میں کمسن بچے بے شک عمر کے لحاظ سے نابالغ ہیں لیکن کئی معاملات میں وہ جوانوں سے بھی آگے ہیں۔وہ کونسی وجوہات ہیں جس کی وجہ سے یہ ممکن ہوسکا کہ وہ کمسن بچے لڑائی جھگڑوں میں الجھنے لگے ہیں۔
پہلا ہے سائنس اور ٹیکنالوجی یا دوسرے الفاظ میں سائنس اور ٹیکنالوجی کی ترقی کا مکروہ چہرہ۔اس ترقی کی وجہ سے ان نابالغ بچوں نے ایسی چیزیں آنکھوں سے دیکھیں اور کانوں نے سنیں ،جن کا اْن میںتصورنہیں تھایا جس کے لئے وہ ابھی کسی بھی طرح سے تیار نہیں تھے اورنہ ہیں۔ بغولیت کے طوفان سے گزرتے ہوئے ان بچوںکو طوفانوں کے ساتھ ایسا مقابلہ کرنا پڑا کہ ان کی نائو بھنور میں پھنس چکی ہے جس سے نکلنے کا کوئی بھی راستہ نظر نہیں آرہا ہے۔ انٹرنیٹ پر غنڈہ گردی کے کھلے عام رْجحان نے نابالغ بچوں کو اپناگرویدہ بنا دیا ہے۔ اپنے ہاتھوں سے اپنے آپ کو نقصان پہنچانا، اب بیشتر بچوں کا مشغلہ بن چکاہے۔ اس کے علاوہ انٹرنیٹ پر جسموں کی نمائش نے اِن چھوٹے اذہان کو بھاری بوجھ تلے دبا دیا ہے۔ قاتلوں کی تاج پوشی نے نونہالوں کو بھی اسی ڈگر پر چلنے پر آمادہ کر دیا ہے۔ ڈرگس کی ترسیل نے غریب کو راتوں رات امیر بنا دیا، یہ رجحان بھی ہمارے بچوں میں دیکھا یا پایا جاسکتا ہے جس کی وجہ سے سماج کی بنیادوں پر کاری ضرب لگ رہی ہے۔
دوسرا ہے مادیت۔Sameul Taylor Coleridge کے الفاظ میں جب زندگی کا مقصد صرف کمانا اور خرچ کرنا ہو، تب حالات کا بد سے بدتر ہونا عام سی بات بن جاتی ہے اور ایسے میں نابالغ بچوں کے لئے غنڈہ گردی اپنانا کوئی حیران کر دینے والی بات نہیں رہتی۔ بیشتر لوگ حرام کاموں کے ذریعے دھن دولت اکٹھا کرتے ہیں۔ اس کا اثر بچوں پر بھی پڑتا ہے اور وہ بھی اسی راہ کے مسافر بن جاتے ہیں۔گویا مادیت کی ہوس سب کو سیلاب کی طرح بہاکر دور پھینک دیتی ہے اور تباہی کا منظر ہر سو دیکھنے کو ملتا ہے۔
تیسرا ہے دین سے دوری۔ ہمارے یہاں دین چند رسوم تک محدود رہ گیاہے۔ کچھ خاص مواقع پر کچھ رسوم کا ادا کرنا اور مخصوص اوقات میں دعائیں پڑھنا ہمارے یہاں دین سمجھا جاتا ہے لیکن یہ دین کی ناقص تاویل ہے۔ اصل دین کا مقصد ہے کہ فرد سے لے کر پورا سماج گناہوں سے دور رہے۔ جتنا ہوسکے گناہوں سے نفرت کرے اور ان سے دور رہنے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ ہمارے یہاںبیشتر گھرانے کبھی بھی دین کے رنگ میں رنگے ہوئے نہیں دکھائی دیتے ہیں۔ گالی گلوچ، جھوٹ، جھگڑے، حسد، جادو، حق تلفی کو اپنا شعار بنایاگیا ہے۔ دن کی شروعات بھی لڑائی سے ہوتی ہے اور اختتام جنگ پر ہوتا ہے۔ ہمارے بچے جنم کے پہلے دن سے ہی تضاد کی دنیا کا مشاہدہ کرنا سیکھ جاتے ہیں۔ دین کی بات وہ اْسی زبان سے سنتے ہیں جو غیبت اور گالیاں نکالنے میں کسی کی بھی پرواہ نہیں کرتی۔ بچوں پر اس کے منفی اثرات پڑتے ہیں اور وہ بھی دین سے بیزار ہوجاتے ہیں۔ جو دین امن کا پیغام دینے آیا تھا، وہ کچھ لوگوںکی نااہلی اور جہالت کی وجہ سے تنگ نظری اور بگاڑ کا شکار ہوجاتا ہے۔ ایسے میں وقت کی ضرورت ہے کہ ہم اپنے بچوں کا خاص خیال رکھیں۔ ان کی حرکات و سکنات پر نظر رکھیں۔ اْن کے دوستوں پر بھی کڑی نظر رکھیں۔ ان کے پاس اگر موبائل فون ہیں، اْن کی بھی وقت وقت پر جانچ کریں۔اگر کوئی غلط چیز دکھائی دے تو اس بارے میںبڑے پیار سے بچوں کو سمجھایا جائے۔ گالی گلوچ اور پٹائی سے پرہیز کیا جائے۔ اس کے علاوہ اگر بچہ الگ کمرے میں تنہا سوتا ہے، تو اس پر بھی نظر رکھی جائے۔ بچے کی عادات کا غور سے جائزہ لیا جائے۔ کوچنگ سنٹروں اور سکول میں بھی بچے کی کارکردگی کی مکمل تفصیل حاصل کریں۔ آوارہ لڑکوں سے اپنے بچوں کو دور رکھیں۔ اگر کوئی بچہ غلط عادات کا شکار ہوا ہے، تو بڑے پیار سے اس کو سمجھانا چاہئے۔ احساس ذمہ داری بھی بچوں میں پیدا کرنا بہت ضروری ہوگیا ہے اور اس کے علاوہ انسانی جان کی قیمت کیا ہوتی ہے، اس کی وضاحت کرنا بھی بہت وقت کی ضرورت ہے۔ ان اقدامات سے نمایاں تبدیلیاں رونما ہوسکتی ہیں۔
پتہ۔حاجی باغ، ایچ ایم ٹی ،سرینگرکشمیر فون نمبر۔9103916455\
(نوٹ۔ اس مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)