بشارت راتھر
بڑھال//نائب وزیر اعلیٰ سریندر چودھری نے ہفتے کے روز کہاکہ راجوری کے بڈھال گائوں میں پر اسرار اموات کی پولیس نے بڑے پیمانے پر تحقیقات شروع کی ہے۔انہوں نے کہاکہ وزیر اعلیٰ عمر عبداللہ روزانہ اس معاملے پر آگاہی حاصل کر رہے ہیں۔ نائب وزیر اعلیٰ نے نامہ نگاروں سے بات چیت کے دوران کہاکہ جب پر اسرار اموات کا سلسلہ شروع ہوا تو انتظامیہ نے فوری طورپر ڈاکٹروں کی ٹیم کو روانہ کیا۔انہوں کا مزید کہنا ہے کہ سرکار نے متاثرین کو معاوضہ بھی فراہم کیا جبکہ وزیراعلیٰ کے ریلیف فنڈسے بھی معاوضہ متاثرین تک پہنچایا جائے گا۔انہوں نے مزید بتایا کہ بڈھال گائوں میں جو جڑی بوٹیاں پائی جاتی ہیں ان کے بھی نمونے حاصل کئے جارہے ہیں۔سریندر چودھری نے کہاکہ ہر زاویہ سے تحقیقات ہو رہی ہے تاکہ یہ پتہ لگایا جاسکے کہ 16افراد کی کیسے اور کن حالات میں موت واقع ہوئی۔انہوں نے کہاکہ اگر یہ قدرتی اموات ہے تو اس میں سرکار کچھ نہیں کرسکتی لیکن اگر کسی نے شرارت کی ہے تو انہیں بخشا نہیں جائے گا۔نائب وزیر اعلیٰ نے کہاکہ امیدا کرتے ہیں کہ پولیس کی تحقیقاتی رپورٹ جلد منظر عام پر آئے گی۔ادھراننت ناگ راجوری پارلیمانی حلقہ سے ممبر پارلیمنٹ میاں الطاف احمد نے ہفتہ کو راجوری کے دور افتادہ گائوں کا دورہ کیا۔میاں الطاف احمد نے متاثرہ خاندانوں سے ملاقات کی، تعزیت کا اظہار کیا اور ہلاکتوں کی وجوہات کا تعین کرنے کے لیے جاری تحقیقات پر اعتماد کا اظہار کیا۔انہوں نے اہل خانہ کو یقین دلایا کہ وہ اس معاملے کو متعلقہ حکام کے ساتھ اٹھائیں گے اور انصاف کی فراہمی کو یقینی بنائیں گے۔انہوں نے کہامجھے یقین ہے کہ ہماری تحقیقاتی ایجنسیاں سخت محنت کر رہی ہیں اور چیزیں واضح ہو جائیں گی لیکن میں تحقیقاتی عمل پر کوئی بیان جاری کرنا مناسب نہیں سمجھتا۔ میاں الطاف نے علاقہ مکینوں سے بھی بات چیت کی، ان کے مسائل اور شکایات سنیں۔انہوں نے انہیں یقین دلایا کہ وہ متاثرہ خاندانوں کی ہر ممکن مدد کریں گے اور اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ تحقیقات منصفانہ اور شفاف طریقے سے کی جائیں۔
لوگ خوف زدہ،ایک دوسرے سے ملنے سے گریزاں
بچوں اور مکینوں کی روز مرہ کی سرگرمیاں بھی محدود
بشارت راتھر
بڈھال// ان کے چہروں پر خوف اور غم نمایاں ہے، اس دور افتادہ پہاڑی گائوں میں لوگ گزشتہ 45 دنوں کے دوران یکے بعد دیگرے ہونے والی پراسرار اموات کے سلسلے سے حیران ہیں۔ مقامی لوگوں نے بتایا کہ انہیں موت کا خوف کبھی اتنا زیادہ نہیں تھا، حتی کہ کوویڈ کی وبا کے دوران، یا جب ملی ٹینسی اپنے عروج پر تھی۔ لوگ خوف کی لپیٹ میں ہیں اور چاہتے ہیں کہ یہ معمہ حل ہو جائے۔لوگوں نے ہسپتالوں میں داخل ہونے کے چند دنوں کے اندر ہی مرنے سے پہلے بخار، درد، متلی اور ہوش کھونے کی شکایت کی۔ اکیلی لڑکی اس رجحان کو روکنے اور دنوں تک اس حالت کو برداشت کرنے میں کامیاب رہی ہے۔ اگرچہ اس کی حالت تشویشناک ہے۔ خوف نے گائوں والوں کو اس حد تک اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے کہ وہ ایک دوسرے سے ملنے سے کترا رہے ہیں ایک دوسرے کے گھر میں پانی پینا بھی تو دور کی بات ہے۔گائوں کے بچے اپنے گھروں تک محدود ہوگئے ہیں۔ایک مقامی سماجی کارکن، ظہیر احمد گورسی نے کہا کہ گائوں کے لوگ ابھی تک غیر واضح اموات سے مطمئن نہیں ہیں،یہ پورے گائوں کے لیے آزمائش کا وقت ہے۔اسلم کے رشتہ ناظم الدین نے کہا “اس قسم کا خوف اس وقت بھی نہیں تھا جب ملی ٹینسی اپنے عروج پر تھی یا COVID-19 وبائی بیماری کے دوران۔ لوگ مرنے والوں کی قبر کھودنے کے لیے بھی آگے نہیں آ رہے ہیں‘‘۔گائوں کے چوکیدار محمد بشیر دن بھر لوگوں کی ڈھارس باندھ رہے ہیں لیکن خوف اس قدر حاوی ہے کہ کوئی گھر سے باہر نکلنے سے بھی کترا رہا ہے۔گائوں کے جو لوگ مزدوری کرنے جاتے تھے، وہ بھی گھروں تک محدود ہوگئے ہیں۔بچوں کے کھیلنے اور دیگر بچوں سے ملنے کی اجازت نہیں ہے۔ڈاکٹروں کی ٹیمیں ہر روز لوگوں کی صحت کے بارے میں پوچھ تاچھ کررہی ہیں۔لوگوں سے کہا گیا ہے کہ گائوں سے باہر کوئی بھی چیز لانے سے قبل اسکو پرکھا جائے۔