مولانا نعمان نعیم
محرم الحرام اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہے یعنی محرم الحرام سے ہجری سال کا آغاز اور ذی الحجہ پر ہجری سال کا اختتام ہوتا ہے۔ نیز محرم الحرام ان چار مہینوں میں سے ایک ہے جنہیں اللہ تعالیٰ نے حرمت والے مہینے قرار دیے ہیں۔ اس ماہ کو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کا مہینہ قرار دیا ہے۔ یوں تو سارے ہی دن اور مہینے اللہ تعالیٰ کے ہیں، لیکن اللہ تعالیٰ کی طرف نسبت کرنے سے اس کی فضیلت ظاہر ہوتی ہے۔ ماہِ محرم کی ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ اس مہینے کا روزہ رمضان المبارک کے بعد سب سے افضل ہے۔
حضرت علی ؓ سے روایت ہے کہ میں حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے پاس بیٹھا ہوا تھا، ایک صاحب نے آکر پوچھا ،یا رسول اللہ ؐ! رمضان کے مہینے کے بعد کس مہینے کے روزے رکھنے کا آپ مجھے حکم دیتے ہیں تو حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : اگر رمضان کے مہینے کے بعد تمہیں روزہ رکھنا ہو تو محرم کا روزہ رکھو ،اس لئے کہ یہ اللہ کا مہینہ ہے۔ اس میں ایک دن ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے ایک قوم کی توبہ قبول کی اور دوسرے لوگوں کی توبہ بھی قبول فرمائیں گے۔ (ترمذی) جس قوم کی توبہ قبول ہوئی، وہ قوم بنی اسرائیل ہے، جیساکہ اس کی وضاحت حدیث میں ہے کہ عاشورہ کے دن اللہ تعالیٰ نے حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور اس کے لشکر سے نجات دی تھی۔
یہ ایک تاریخی حقیقت ہے کہ انسانی تاریخ کے آغاز اور خود آسمان و زمین کی تخلیق سے قبل اللہ تعالیٰ کے طے کردہ نظام کے مطابق ایک سال میں بارہ مہینے ہی ہوا کرتے تھے اوران بارہ مہینوں میں چار مہینے ایسے ہیں کہ اسلام کی آمد سے قبل عہد جاہلیت کے عرب کفار مکہ بھی ان کی حرمت اور احترام کے قائل تھے۔ چناں چہ وہ اپنی جاری جنگوں کو بھی ان مہینوں میں موقوف کردیا کرتے تھے۔ قرآن پاک نے اس کی طرف ’’منھا اربعۃ حرم‘‘کے الفاظ سے اشارہ فرمایا ہے۔
ان چار مقدس مہینوں کے اندر محرم الحرام کا مہینہ شامل ہے او رحسن اتفاق سے اسلامی سال کا پہلا مہینہ ہی محرم الحرام کہلاتا ہے۔تاریخ انسانی کا مطالعہ کرتے ہوئے یہ بات بھی اُبھر کر سامنے آتی ہے کہ اسلام سے قبل اس مہینے کے اندر بہت سارے اہم واقعات پیش آتے رہے ہیں۔ تاریخ کی کتابوں نے اس مہینے میں پائے جانے والے جن واقعات کو محفوظ کیا ہے، ان میں سے چند درج ذیل ہیں:
٭ اس مہینے میں ﷲتعالیٰ نے حضرت آدم علیہ السلام کی توبہ قبول فرمائی۔ ٭ حضرت نوح علیہ السلام کی کشتی طوفان نوح کے بعد جودی نامی پہاڑ کے قریب آکر ٹھہری ۔ ٭ حضرت یوسف علیہ السلام کو اس مہینے میں قید سے نجات حاصل ہوئی۔ ٭ حضرت ایوب علیہ السلام کو طویل بیماری کے بعد شفا نصیب ہوئی۔ ٭ حضرت یونس علیہ السلام کو مچھلی کے پیٹ سے نجات ملی۔ ٭ حضرت موسیٰ علیہ السلام اور بنی اسرائیل کو فرعون اور آل فرعون سے اس طرح نجات ملی کہ ﷲتعالیٰ نے فرعون سمیت اس کی فوجوں کو بحیرہ قلزم میں غرق کردیا ۔ ٭ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو زندہ آسمان پر اُٹھا لیا گیا وغیرہ وغیرہ۔ مندرجہ بالا تمام واقعات کا تعلق دین اسلام کی آمد سے قبل سےہے اور تاریخی کتابوں سے بھی یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ یہ تمام واقعات محرم الحرام کی دسویں تاریخ جسے عاشوراء یا عاشورۂ محرم کے نام سے بھی یاد کیا جاتا ہے، کو پیش آئے تھے۔
اسلام کی آمد کے بعد بھی بعض اہم واقعات محرم الحرام کی دسویں تاریخ کو پیش آئے، جن میں سے بعض مندرجہ ذیل ہیں:٭ حضرت عائشہؓ فرماتی ہیں کہ اسی روز (یعنی دس محرم الحرام کو) اہلِ مکہ، خانۂ کعبہ پر غلاف چڑھایا کرتے تھے۔(بخاری ومسلم)٭ جب کہ اس مہینے کے آغاز میں خلیفہ دوم ،مرادِ رسولؐ،سیدنا عمر فاروقؓ پر قاتلانہ حملہ تو 28 ذی الحجہ کو ہوا ، لیکن شہادت یکم محرم الحرام کو ہوئی ۔٭ دس محرم الحرام کی تاریخ وہ ہے جس میں نواسۂ رسول ؐ،جگر گوشۂ بتولؓ،سیدنا حضرت حسینؓ شہادت کے مرتبے پر فائزہوئے۔ قیامت کا وقوع بھی دس محرم الحرام اور جمعہ کے دن ہوگا۔
عاشوراء محرم، محرم الحرام کی دسویں تاریخ کا نام ہے اور محرم الحرام کے پورے مہینے میں جو تقدیس آئی ہے، وہ اس تاریخ اور دن کی وجہ سے ہے اور اسے مقدس جانتے ہوئے گزشتہ آسمانی مذاہب سے تعلق رکھنے والی قومیں بطور شکرانہ اس کا روزہ رکھتی رہی ہیں۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت سے پہلے شریعتِ اسلامیہ میں بھی بطور فرض عاشورہ کا روزہ رکھا جاتا رہا ہے۔ رمضان المبارک کے روزوں کی فرضیت کے بعد عاشورہ کے روزے کی فرضیت تو منسوخ ہوگئی، لیکن عاشورہ کے دن کی تقدیس برقرار ہے۔
چناںچہ یہ فرمادیا گیا کہ اب جس کا دل چاہے، اس دن کاروزہ رکھے اور جس کا دل چاہے، اسے ترک کردے۔ مدینہ منورہ میں ہجرت کے بعد نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سامنے یہ بات لائی گئی کہ مدینہ منورہ کے یہودی عاشورہ محرم کا روزہ رکھا کرتے تھے، جب ان یہودیوں سے اس روزے کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے یہ بات بتائی کہ ہمیں فرعون سے نجات اسی دن حاصل ہوئی تھی۔ ﷲتعالیٰ کی دی ہوئی اس نعمت کے شکرانے کے طور پر ہم اس دن کا روزہ رکھا کرتے ہیں۔
دین اسلام چونکہ ایک مستقل مذہب ہے اور اس دین نے اپنے سے پہلے کے الہامی مذاہب کی چند باتوں کو بھی اپنے اندر سموتے ہوئے ان مذاہب کو منسوخ کردیا ہے۔ ان کے ماننے والوں کی مخالفت کا حکم دیا ہے، تاکہ اُن مذاہب سے یہ مذہب ممیز و ممتاز ہوجائے، لہٰذا حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ بات ارشاد فرمائی کہ آئندہ سال دس محرم الحرام کے روزے کے ساتھ میں نو محرم الحرام کا روزہ بھی اگر اس دنیا میں رہا تو ضرور رکھوں گا۔(صحیح مسلم جلد اوّل صفحہ 359)
چنانچہ اس ارشاد مبارک کی روشنی میں فقہائے کرام یہ مسئلہ بتاتے ہیں کہ صرف دس محرم الحرام کا روزہ نہ رکھا جائے، بلکہ اس کے ساتھ ایک اور روزہ بھی ملالیا جائے یعنی محرم الحرام کی نو اور دس تاریخ کا روزہ رکھے یا دس اور گیارہ تاریخ کا روزہ رکھے۔نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اس روزے کے حوالے سے ارشاد فرمایا : ’’جو شخص عاشورہ کا روزہ رکھے، مجھے ﷲتعالیٰ کی ذات سے امید واثق ہے کہ اس کے پچھلے ایک سال کے گناہ معاف کردیے جائیں گے۔‘‘(صحیح مسلم جلد۱ ۔صفحہ۳۶۷)
فقہائے کرام نے گناہوں کی معافی کے حوالے سے یہ وضاحت فرمائی ہے کہ ان سے مراد ﷲ تعالیٰ کی چھوٹی چھوٹی نافرمانیاں ہیں، بڑے بڑے گناہ تو خود قرآن و حدیث کی تصریح کے مطابق بغیر توبہ کے معاف نہیں ہوتے۔ جہاں تک ﷲ کے بندوں کے حقوق غصب کرنے کا تعلق ہے ،وہ صاحب حق کے معاف کیے بغیر معاف نہیں ہوتے، بعض روایات میں اس دن کے حوالے سے یہ بات ملتی ہے کہ ’’اگر کوئی شخص اپنے اہل خانہ پر عام دنوں کے مقابلے میں بہتر کھانے (اپنی استطاعت کے مطابق) کا انتظام کرے تو ﷲتعالیٰ پورا ایک سال اس کے رزق میں برکت عطا فرمائے گا۔‘‘ (مشکوٰۃ)
مندرجہ بالا دو باتیں اس اعتبار سے اہمیت کی حامل ہیں کہ ان کا ذکر اور عمل قرون اُولیٰ میں بھی ثابت ہے۔ اس مہینے کے حوالے سے تاریخ اسلام کے دو اہم ترین واقعے یہ ہیں: یکم محرم الحرام کو امیرالمؤمنین، خلیفہ راشد سیدنا عمر بن خطاب ؓکی شہادت کا واقعہ پیش آیا۔ سیدنا عمر بن خطاب ؓ تاریخ اسلام کی وہ مایہ ناز شخصیت ہیں کہ جن کے اسلام قبول کرنے کے لیے اور اسلام کو تقویت پہنچانے کے لیے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بطور خاص ﷲتعالیٰ سے دعا فرمائی۔(ترمذی )
تاریخ اسلام کا دوسرا اہم ترین واقعہ 10محرم الحرام کوسیدنا حضرت حسین ابن علی ؓ کی شہادت کا ہے۔ یہ ایک ایسا اندوہناک سانحہ ہے کہ رہتی دنیا تک اس کی کسک (ٹِیس) ہر مومن کے دل میں ہر اُس موقع پر اُٹھتی رہے گی، جب جب یہ واقعہ اس کے ذہن میں تازہ ہوتا رہے گا۔ تاریخی روایات کے مطابق سیدنا حسین بن علی ؓ 4ھ میں شعبان کی 5تاریخ کو پیدا ہوئے۔ رسول ﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شہد چٹایا، اُن کے منہ کو اپنی بابرکت زبان سے تَر فرمایا، دعائیں دیں اور حسین نام رکھا۔
آپ نے کم و بیش (روایات کے مختلف ہونے کی وجہ سے ) حیات نبوی کے کئی سال دیکھے۔ یہ اُن کی صحابیت کی ایک مضبوط دلیل اور علامت ہے۔ آپ کا جسم پاک رسول ﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے جسداطہر کے مشابہ تھا۔ آپ اپنے بھائی کے ساتھ بچپن میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے سینہ مبارک پر سوار ہوکر کھیلا کرتے تھے اور ان سے محبت کا اظہار فرماتے ہوئے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : یہ دونوں (حسنؓ و حسینؓ) دنیا میں میرے پھول ہیں۔ (طبرانی فی المعجم) نیز رسول ﷲصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ ارشاد مبارک حدیث کی کتابوں میں جگمگاتا ہوا ہمیں ملتا ہے اور حسنؓ و حُسینؓ جوانانِ جنت کے سردار ہیں۔ کتبِ حدیث میں شہیدِ کربلا،حضرت امام حسینؓ کے بے شمار فضائل و مناقب بیان کیے گئے ہیں۔