ڈاکٹر محمد ناظم علی
مولانا ابوالکلام آزاد جن کا اصلی نام محی الدین احمد تھا، 1888ء میں مکہ معظمہ میں پیدا ہوئے ۔ ان کے والد مولانا خیر الدین نے جب کہ آزاد کی عمر 5 پانچ برس کی ہوئی تھی ، کلکتہ کا رخ کیا۔ عربی و فارسی میں ابتدائی تعلیم حاصل کی۔ ابتداء میں مولانا نے صحافتی زندگی سے اپنے آپ کو وابستہ کیا۔ اچھا صحافی اچھا سیاست داں بھی بن سکتا ہے۔ صحافی اپنے قلم سے حکومتوں کا تختہ الٹ سکتا ہے اور اس کا تحفظ بھی کر سکتا ہے۔ دنیا کی سیاسی تاریخ میں ایسے بھی سیاست داں بنے ہیں جو صحافت میں اپنا مقام و رنگ جما سکے۔ عصری دور میں صحافت چوتھی مملکت کہلاتی ہے اور حکومت کی تیسری آنکھ ہے کسی بھی ملک کی صحافت اس ملک کی تہذیب، تمدن اور ثقافت و سیاست کی محافظ ہوتی ہے۔ صحافت اپنے عصر کا آئینہ ہوتی ہے۔ اس میں عصری قدریں پوشیدہ و پنہاں ہوتی ہیں۔ صحافت میں سیاست، حکومت اور مملکت کی ترجمانی ہوتی ہے اور ان حالات و کوائف کو حقائق کے ساتھ اُجاگر کیا جاتا ہے جو حکومت و مملکت میں سرزد ہوتے ہیں۔ چنانچہ مولانا آزاد ابتداء میں اخبار و جرائد المصباح، وکیل، دارالسلطنت وغیرہ اخبارات سے وابستہ تھے۔ انھوں نے ان اخبارات کی ادارت کے فرائض انجام دیئے، اس کے بعد الہلال والبلاغ اخبارات اپنے طور پر نکالنا شروع کیا۔ ان پرچوں کے ذریعہ ملک وملت کی بے پایاں خدمت انجام دی۔ مسلمانوں میں دینی جذبہ اور حریت کا جوش پیدا کرنے میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی۔ بلکہ مولانا نے ان اخبارات کے صفحات کو مذہب، حریت، مشترکہ تہذیب اور قومی اتحاد کے سپرد کر دیا۔ ان میں ان ہی موضوعات پر طبع آزمائی ہوتی رہی۔ انھوں نے ہندوستان کو آزادی سے ہمکنار کرنے کے لئے اپنا سب کچھ قربان کر دیا۔ تن من دھن کے علاوہ ہند کی ذہنی آبیاری بھی کی۔ صحافت سے وابستگی ہی کی وجہ سے مولانا میں بتدریج سیاسی پختگی آئی۔ انھوں نے بعض مسلم ممالک کا دورہ کیا۔ وہاں کے سیاسی حالات اور نشیب و فراز کاباریک بینی سے جائزہ لیا۔ والد کی علالت کی خبر سن کر اپنے دورہ کو مختصر کر کے لوٹ آئے اور ہندوستان کی جدو جہد آزادی میں اپنا بے لوث و حرکیاتی کردار ادا کیا۔ مولانا چاہتے تو عالمی سطح پرمحاذ قائم کر سکتے تھے لیکن انھوں نے گاندھی جی اور نہرو و دیگر قائدین و عمائدین سے مل کر ہندوستان کو آزادی سے ہمکنار کیا۔ آزادی کے حصول کے لئے مولانا پہلے ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والوں میں سیاسی و آپسی اتحاد چاہتے تھے۔ اتحاد کے بغیر ہم کوئی چیز حاصل نہیں کر سکتے ۔ ان کا قول تھا کہ اگر فرشتہ آکر یہ کہہ دے کہ اب سوراج ملنے والا ہے تو میں نہیں لوں گا بلکہ سوراج کے بدلے مجھے اتحاد چاہئے ۔ یقینا اتحاد کے بغیر سیاسی آزادی خواب کی باتیں ہیں۔ یہ مولانا کا ہی حصہ و کردار ہے کہ انھوں نے اس دور کے مختلف سیاسی مسالک کے حامل افراد میں اتحاد پیدا کیا۔ لوگ کئی معاملات میں یکجا ہو سکتے ہیں لیکن مذہب اور سیاست کے مسلک میں یکجا نہیں ہوتے، یہ مولانا کی سب سے بڑی کامیابی ہے کہ انھوں نے مسلم لیگ، جمعیت علماء کے قائدین کو کانگریس کا ہمنوا بنایا اور خلافت تحریک کے ماننے والے بھی جدوجہد آزادی میں شامل ہو گئے ۔ اس دور میں ایک خام خیال یہ بھی تھا کہ جد و جہد آزادی میں ہمارےپڑوسی مدد کریں گے، جاپان و چین سے اُمیدیں لگائے بیٹھے تھے۔ وہی قو میں آزادی کا سورج دیکھ سکتی ہیں جو خود سے کاوش و کوشش کرے، کسی پر بھروسہ واُمید لگائے رکھنا کار دارد ہے۔ مولانا نے اس دور کی جتنی تحریکات تھیں ان کا ساتھ دیا۔ گاندھی جی کے شانہ بہ شانہ، دوش به دوش انھوں نے اپنا بے لوث کردار ادا کیا۔ وہ گاندھی اور نہرو کے ساتھ مل کر ملک کی تقدیر سنوارنے میں لگ گئے ۔ مسلمانوں کو اس ملک کا اٹوٹ حصہ سمجھتے تھے۔ ان کو احساس تھا کہ مسلمانوں کا مقام و منصب کیسا ہو۔ مسلمانوں کا فطری منصب ہی سیاست، قیادت، نیابت، حکومت اور تسخیر کائنات تھا، وہ اپنے خطبہ میں اس کا اظہار کرتے تھے۔ اسلام کی شان و شوکت اور کھوئی ہوئی ساکھ کو قائم و دائم رکھنا چاہتے تھے۔ ان کی تحریروں و تقاریر سے یہ خوبی جھلکتی تھی کہ مسلمان ہندوستان کا جزو کل ہوتے ہوئے اسلام کی بقاء کا کام کریں۔ ان تمام کاوشوں کے لئے وہ کردار کو اہمیت دیتے ہیں۔ عمل و اعمال صالحہ کی تلقین کرتے ہیں۔ مولانا میں سب کچھ تھا اور بہت سی صفات و خوبیاں گنوائی گئیں ۔ مولانا جید عالم، سیاسی مفکر، ادیب، صحافی، انشا پرداز، قومی یکجہتی کے علم بردار، سیاسی مدبر، سیاست دان ، ذہین وفطین، ذہانت و ذکاوت، عالم خطیب، سیاسی راہ نما، عبقری شخصیت وغیرہ لیکن اتنی خوبیوں کے مالک اور سیاسی پختگی رکھنے باوجود انھوں نے تقسیم کے عمل کو کیوں نہیں روکا۔ شائد ایسا عمل اجتماعیت ہی سے رک سکتا ہے کےتن تنہا کیا ہوگا۔ ان کے علاوہ جب حالات ایسے نا گفتہ تھے۔ عالمی سطح پر بھی مسلمانوں پر ظلم ہو رہا تھا، مسلم حکومتوں کو معزول کر دیا جارہا تھا تو کیوں مولانا اپنے تئیں عالمی سطح پر محاذ قائم نہ کر سکے۔ مولانا چاہتے تو عالمی قائد بن کر اُبھرتے وہ درجہ کیوں نہ مل سکا۔ ان کے کارنامے عالمی سطح پر مقبول ہونے چاہئے ۔ مولانا ہندوستان کی سیاست پر لگ بھگ 50 سال تک چھائے رہے اور ہندوستان کی سیاسی خدمت انجام دیتے رہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ مولا نا صرف ہندوستان کےلئے پیدا ہوئے ہیں اور انھوں نے ہند کی تعمیر ومستقبل کے لئے اپنے آپ کو وقف کر دیا۔ ہندوستان کی خاطر مسلم لیگ اور خلافت تحریک کی آواز کو اتحاد کے نام پر گم کر دیا۔ انھوں نے صرف ہند کی خاطر عالمی سطح پر نگاہ ڈالی اور نہ کوئی محاذ بنایا۔ گاندھی جی کی تحریکات کو فروغ واستحکام بخشا۔ حالاں کہ کئی ایسے لیڈر ہیں جن کے ملکی کارناموں کے عوض عالمی سطح پر شہرت ملی ۔ انور سادات، ناصر ، ٹیٹو، عدی امین، یاسر عرفات، صدام حسین ، اندرا گاندھی، بھٹو وغیرہ۔ مولانا کے کارنامے بھی عالمی سطح پر مقبول و مشہور ہوئے۔ وہ پہلے ہندوستانی قائد ہیں جنھوں نے عالمی سطح پر ہندوستان کے وجود کو منوایا۔ ہندوستانی اتحاد و تہذیب اور ثقافت کے فروغ میں رات دن بے چین رہتے تھے۔ مولانا مسلمانوں کے لئے تحفظات کے مخالف تھے اور لفظ اقلیت سے ناراض تھے۔ ایسی تفریق قوم کو احساس کمتری میں مبتلا کر سکتی ہے۔ اس لئے وہ قوم کو اکثریت واقلیت کے تناظر میں نہیں دیکھتے تھے بلکہ ایک قوم متحدہ قومیت کے تناظر میں قوم کو محسوس کرتے تھے۔ مولانا کے سیاسی افکار و نظریات جدید ہندوستان کے لئے ممدد و معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ بشرطیکہ پوری قوم ان کے افکار و خیالات سے استفادہ کرے۔ ان کے اصول نئی نسل کے لئے مشعل راہ ہیں ۔ نئی نسل ان کی راہ پر چل کر ہندوستان کو مضبوط بناسکتی ہے۔ فرقہ وارانہ ہم آہنگی ، قومی اختلاف و ارتباط اور رواداری، امن و شانتی ، قومی اتحاد، مشترکہ تہذیب ، سیاسی اتحادان کو اپنا کر ملک مولانا کے خواب تھے اور اس خواب کی تعبیر کو شرمندہ کرنا ہو تو مولانا کے افکار کو اپنا لیں۔ یہی حقیقی خراج عقیدت بھی ہے۔ آخر کار اس دھرتی کے لال Son of the Soil نے ہندوستان کا دم بھرتے ہوئے 1958ء کو داعی اجل کو لبیک کہا۔ یوم آزادی و یوم جمہوریہ کے موقع پر ہمیں مولانا کوگاندھی جی کے ساتھ یاد کرنا چاہئے ، یہ قومی فریضہ ہے۔