سمت بھارگو
راجوری//راجوری ضلع کے بدھل علاقہ میں عسکریت پسندی کی وجہ سے ہجرت کرنے والے کم از کم تیرہ کنبے اس وقت خدا کے رحم و کرم پر چھوڑ دئیے گئے ہیں جبکہ انتظامیہ کی جانب سے ان کیلئے ابھی تک کوئی واضح باز آبادی کاری پالیسی نہیں بنائی جاسکی ہے ۔ان تیرہ متاثرہ خاندانوں میں سے چند ایک نے آبائی زمین بیچ کر بدھل ٹاؤن میں اپنے چھوٹے چھوٹے گھر تعمیر کر لئے ہیں جب کہ بہت سے لوگ اب بھی بدھل ٹاؤن میں محکمہ زراعت کی دو خستہ حال عمارتوں میں ز ندگی بسر کررہے ہیں ۔مہاجر منشی رام نے اپنی حالت زار بیان کرتے ہوئے کہا کہ 09 اکتوبر 2005 کی بدقسمت شام کو جب سونیا گاندھی جموں و کشمیر کے کچھ حصوں کا دورہ کرنے والی تھیں، راجوری کے دھار اور گھبر گاؤں میں عسکریت پسندوں نے حملہ کیا۔انہوں نے بتایا کہ ’’وہ ان دو گاؤں میں اقلیتی برادری کے کچھ گھروں میں گھس گئے اور تمام ممبران کو قطار میں کھڑا کیا اور کئی ممبران کے گلے کاٹنے کے لئے چھری کا استعمال کیا۔انہوں نے کہا کہ اس شام کل دس شہری قتل ہوئے جن میں چھ دھارگاؤں اور چار گھبر کے مکین شامل تھے۔منشی رام نے بتایا کہ ’’ہم سب غریب دیہاتی تھے اور اپنی آبائی زمین پر سادگی کی زندگی گزار رہے تھے لیکن ہمارے خاندان کے افراد کے قتل نے ہمیں ہلا کر رکھ دیا جس کے بعد ہم سب ہجرت کر کے یہاں بدھل آگئے‘‘۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابتدائی طور پر متاثرہ خاندانوں کو کچھ مالی امداد دی گئی تھی اور حکومت کی جانب سے روزگار، بحالی، سیف ہاؤسز کا وعدہ کیا گیا تھا لیکن تمام وعدے دھرے کے دھرے رہ گئے۔ 61سالہ شانتی دیوی نے کہاکہ ’’میں نے اپنے شوہر اور بیٹے کو کھو دیا ہے اور کوئی ایک ماں اور بیوی کے جذبات کا تصور نہیں کر سکتا جو اپنے شوہر اور بیٹے کو ایک ساتھ کھو دیتی ہے اور وہ بھی آنکھوں کے سامنے جب عسکریت پسندوں نے انہیں قتل کر دیا۔۔انہوں نے کہا کہ اس وقت کے چند مہاجر خاندانوں نے گاؤں میں اپنی آبائی زمین بیچ کر بدھل ٹاؤن میں دو کمروں کے مکانات تعمیر کئے لیکن باقی خاندان اب بھی خستہ حال زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں ۔محکمہ زراعت کی ان دو عمارتوں میں بہت سے خاندان رہائش پذیر ہیں جن میں سے ہر ایک کے پاس ایک کمرہ ہے اور عمارتوں کی حالت بہت خستہ ہے اور چھتیں ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں ۔انہوں نے کہاکہ’ ہماری جدوجہد کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ اس عمارت میں پانی کی فراہمی نہیں ہے اور ہمیں پانی لانا پڑتا ہے۔ان ہلاکتوں میں اپنے حقیقی بھائی کو کھونے والے سکھ دیو سنگھ نے کہا کہ ان تمام خاندانوں کے افراد گزشتہ 17 سالوں سے ایک ناامید جدوجہد کر رہے ہیں اور ہم نے کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور اپنے حق کیلئے جدوجہد کررہے ہیں تاہم ابھی تک کوئی نتیجہ حاصل نہیں ہوا ۔انہوں نے کہاکہ ’’ہم جموں، راجوری میں دھرنوں پر بیٹھے، علاقے کے ہر ایک سیاسی لیڈر، عوامی نمائندوں، ڈپٹی کمشنروں سے ملے اور یہاں تک کہ جموں میں ریلیف کمشنر سے بھی ملے تاہم سب نے ہمیں ایک وعدہ کے ساتھ واپس بھیجا جو کہ ایک طویل وقفے کے بعد بھی پورا نہیں ہوسکا ۔ان تمام خاندانوں کے اراکین نے مانگ کرتے ہوئے کہا کہ خطہ پیر پنچال میں مذکورہ نوعیت کے مہاجرین کیلئے ایک واضح پالیسی کے ساتھ باز آبادکاری کا عمل شروع کیا جائے جبکہ اس سلسلہ میں علیحدہ سے مہاجر کالونی بنائی جائے تاکہ ا ن کی مشکلات حل ہونے کیساتھ ساتھ ان کی با ز آباد کاری ممکن ہو سکے ۔علاقے کے ایک سماجی سیاسی کارکن منظور احمد نائک جو اب ان عسکریت پسند مہاجرین کی جدوجہد کی قیادت کر رہے ہیں، نے کہا کہ جموں و کشمیر میں متواتر حکومتیں ان مہاجر خاندانوں کی بحالی کے حقیقی مطالبے کو پورا کرنے میں بری طرح ناکام رہی ہیں۔انہوں نے کہاکہ پہلے انہیں عسکریت پسندوں اور اب حکومت کی لاپرواہی کا سامنا کرنا پڑرہا ہے ۔انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر حکومت کی طرف سے انہیں بتایا گیا ہے کہ راجوری اور پونچھ میں عسکریت پسند مہاجرین کی بحالی کی کوئی خاص پالیسی نہیں ہے جو کہ اس دور افتادہ خطے کے لوگوں کے ساتھ سراسر ناانصافی اور امتیازی سلوک ہے۔ڈپٹی کمشنر راجوری وکاس کنڈل نے گریٹر کشمیر کو بتایا کہ مہاجرخاندانوں نے بدھ کے روز ضلع انتظامیہ کمپلیکس کا دورہ کیا جہاں ان کے مسائل درج تھے جبکہ ان کو ہر ممکن مدد کی یقین دہانی کروائی گئی ہے ۔