بھاگو ،بھاگو ، فوج آرہی ہے ۔صراف کدل میں لوگ چیختے چلاتے اپنے گھروں کی طرف بھاگ رہے تھے ۔آستانے کے قریب ایک انسانی جسم کے بکھرے ٹکڑوں کو دیکھ کر وہ پہلے ہی حواس باختہ تھے ۔ العمر مجاہدین کے چیف کمانڈر مشتاق احمد زرگر نے تحسین بلا نامی ایک شخص کو مخبری کے الزام میں اس کے جسم پر بارود باندھنے کے بعد اسے قریب ہی واقع فورسز بنکر کی طرف دوڑنے کے لئے کہا اور جب وہ دوڑنے لگا تو ایک گولی اس کے جسم پر داغ دی جس سے ایک دھماکہ ہوا اور جسم کے ٹکڑے بکھر گئے ۔اس کی انتڑیاں زمین پر بکھری دیکھ کر شاید ہی کسی کے ہوش ٹھکانے رہے ہوں۔صحافت کے پیشے کا تقاضا تھا کہ اس واقعے سے متعلق تمام معمولات حاصل کرکے اسے شائع کیا جائے لیکن کسی اخبار نے اپنی خبر نہیں بنائی بلکہ جو کچھ العمر کے پریس نوٹ میں بتایا گیا تھا اسے حرف بہ حرف شائع کیا ۔یہ عسکری تحریک کے ابتدائی دور کا ایک واقعہ ہے۔ ایسے بہت سارے واقعات ہوئے لیکن کسی کی رپورٹنگ نہیں ہوئی ۔رفتہ رفتہ رپورٹنگ کا سلسلہ ہی ختم ہوگیا ۔رپورٹروں کی جگہ فوٹو جرنلسٹوں نے لی ۔ان کی لی ہوئی تصویر کے ساتھ عسکری تنظیموں کی دی ہوئی تفصیل شائع ہوا کرتی تھی ۔اُن دنوں واقعے کے بارے میں پولیس کا بیان بھی دستیاب نہیں ہوتا تھا ۔اس طرح صحافت اپنی افادیت اور اپنے معنی کھورہی تھی ۔تحسین بلا کے واقعے کے بعد بھی اس طرح کے واقعات ہوئے لیکن کسی واقعے کی آزادانہ رپورٹنگ نہیں ہوئی ۔صرف ان واقعات کی رپورٹنگ کسی حد تک ہوتی تھی جن میں فورسز ملوث ہوتے تھے ۔کریک ڈائونوں کے دوران جو زیادتیاں ہوتی تھیں اور فورسز کی فائرنگ سے شہریوں کی ہلاکتوں کے جو واقعات ہوتے تھے، ان کی تفصیل اخبارات معلوم کرکے خبر بناتے تھے لیکن اس کے ساتھ علیحدگی پسند اور عسکریت پسند تنظیموں کی دی ہوئی تفصیل بھی شائع کی جاتی تھی ۔بعد میں فورسز نے واقعات کو توڑ نے اور مروڑنے کیلئے مختلف ذرائع استعمال کئے ۔اقبال مارکیٹ سوپور کی آتشزنی اور فائرنگ اور کنن پوش پورہ واقعہ کی جو تفصیل مقامی اخبارات میں شائع ہوئی، اس کا ایک اور ہی رخ نیشنل اخبارات میں شائع ہوا ۔صحافیوں کی ایک ٹیم کشمیر لائی گئی جس نے فوج پر لگے تمام الزامات کو بے بنیاد قرار دیا۔چنانچہ آ ج تک کنن پوشہ پورہ کا سچ تضادات کی گرد میں پوشیدہ ہے ۔ اسکے بعد ملکی اور بین الاقوامی سطح پر مقامی اخبارات کی رپورٹنگ تضاد کا شکار ہوگئی اور واقعات کی حقیقت ان تضادات کے درمیان کھوگئی ۔ان ہی حالات کے درمیان جب اخوان المسلمون کے بیانات اخبارات کے دفتروں میں پہنچے تو یہ فیصلہ کرنا بھی مشکل تھا کہ انہیں شائع کیا جائے یا نہیں ۔اخوان المسلمون سرکار نواز عسکریت کا تعارف تھا جس کو پہلے سے موجود عسکریت برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں تھی، اس لئے اخبارات کو مطلع کیا گیا تھا کہ وہ اس تنظیم کے بیانات شائع کرنے سے احتراز کریں ۔نئی تنظیم کی طرف سے اخبارات کو پورے صفحے کے اشتہارات بھی معاوضہ ادا کرنے کے وعدے کے ساتھ بھیجے گئے لیکن کوئی اشتہار شائع نہیں ہوا ۔پھر ایک شام پریس کالونی میں ایک گاڑی رکی۔ چند لڑکے اس سے باہر آئے اور سیدھے ندائے مشرق اور گریٹر کشمیر کے دفتروں میں ان اخباروں کے ایڈیٹروں کو اٹھانے کے لئے گھس گئے ۔ندائے مشرق کے مدیر عبدالرشید شاہ کو اٹھالیا گیا لیکن فیاض صاحب ہاتھ نہیں لگے۔ ان کی جگہ گریٹر کشمیر کے اس وقت کے معاون مدیر بشیر منظر، جو اُس وقت عقاب کے دفتر میں بیٹھے تھے، کو فون کرکے بلایا گیا اور دونوں کو مزاحمت کے باوجود گاڑی میں بھر کر لیجایا گیا ۔ دونوں کو معلوم نہیں تھا کہ انہیں کیوں اور کون اٹھا کر کہا ں لے جارہا ہے ۔پوری صحافتی برادری کے لئے یہ ایک بہت بڑا صدمہ تھا ۔دوسرے روز اخبارات کے مدیران کی میٹنگ ہوئی اور فیصلہ ہوا کہ دو صحافیوں کی جانیں بچانے کے لئے اخوان سے رابطہ قائم کیا جائے ۔رابطہ قائم کرنے کے بعد تمام مدیران کو بات کرنے کے لئے سمبل سوناواری پہنچ کر کوکہ پر ے سے ملنے کا حکم اس شرط کے ساتھ دیا گیا کہ آج کے تمام اخبارات میں اخوان المسلمون کا بیان شائع کیا جائے ۔بیان من و عن شائع کیا گیا اور مدیران حکم کی تعمیل میں سوناواری پہنچ گئے ۔مقامی صحافت جو پہلے ہی تذلیل اور توہین کے زخموں سے چور ہوکر ااپنا مقام اور اپنی معنویت کھوچکی تھی ،کیلئے یہ ایک کاری ضرب تھا ۔ قلم بندوق کی غلامی میں مبتلا ہوچکا تھا اور جب قومیں ایسی صورتحال میں مبتلا ہوتی ہیں ،بڑی تباہی اور بربادی ان کا مقدر بن جاتی ہے۔آزادی مانگنے والی جس عسکریت اور اس کے سیاسی قایدین نے جو شروعات کی تھی، وہ اب اپنی انتہاوں پر پہنچ رہی تھی اور اس کے پہلے شکار وہی تھے ۔حیرت کی بات تھی کہ جس سید علی شاہ گیلانی نے مقامی اخبارات کے ذریعے ہی اپنی سیاسی قد وقامت کو ا ُس وقت استوار کیا تھا جب شیخ محمد عبداللہ اور مین سٹریم کے لیڈروں کے مقابلے میں ان کی کوئی اہمیت نہیں تھی، اسی نے قلم کی آزادی اور خود مختاری کو بندوق کے تابع بنانے کے رحجان کی حوصلہ افزا ئی کی تھی ۔ جب عبدالغنی لون سمیت وہ لیڈران جو علیحدگی پسند سیاست کے روح رواں بن چکے تھے،سیاسی شناخت بنانے کی جدوجہد کررہے تھے تو ان کا واحد سہارا مقامی صحافت تھی ۔یہ لوگ آفتاب کے دفتر میں آئے روز خواجہ ثناء اللہ بٹ کو سلام کرنے جایا کرتے تھے اور اس کی خوشنودی کیا کرتے تھے لیکن جب طاقت ان کے ہاتھ میں آئی تو اسی ثناء اللہ بٹ کو ان کے دربار میں حاضری دینے پر مجبور کیا جاتا رہا ۔نتیجہ یہ ہوا کہ ایک اور طاقت وجود میں آنے کے بعد اس نے بھی انہی کی تقلید کرتے ہوئے صحافت کو اپنا غلام بنانے کے لئے دو صحافیوں کو اغوا کردیا ۔
بشیر منظر اور عبدالرشید شاہ کئی روز تک کوکہ پرے کے پاس یرغمال رہے ۔ایک روز کوکہ پرے نے بشیر منظر سے کہا کہ کل صبح تم دونوں کو مار دیا جائے گا، اس لئے یہ تمہاری آخری رات ہے ۔ مارنا تو مجھے رشید کو ہی تھا لیکن اب تم اس کے ساتھ ہو اور میں تمہیں چھوڑ نہیں سکتا اس لئے اپنا خون مجھے معاف کرنا ۔عبدالرشید کو ہی وہ کیوں مارنا چاہتے تھے، اس کی ایک الگ کہانی ہے ۔بہر حال اس نے بشیر منظر سے کہا کہ تمہاری کوئی آخری خواہش ہو تو بتائو میں پوری کروں گا اور آج کھانے میں کونسا سالن کھانا پسند کرو گے یہ بھی بتائو ۔بشیر صاحب نے کہا کہ جب آپ نے کہا کہ صبح تمہیں مرنا ہے تو میری ساری خواہشیں اسی وقت مرگئیں ۔میں ایسی کس خواہش کا ذکر کروں جسے میں خود پورا ہوتے نہیں دیکھ سکوں۔ہا ں اگر آج مچھلی کھلا سکو تو میں اپناخون آپ کو معاف کرنے کے لئے خود کو آمادہ کرنے کی کوشش کروں گا ۔اُس شام مچھلی کی کئی اقسام کھانے کے ساتھ پیش کی گئیں ۔ پھراس کے بعد بشیر صاحب نے رشید صاحب کو بتایا کہ صبح ہمیں گولی ماردی جائے گی ۔اس کے بعد اس نے ریڈیو یا ٹیپ ریکارڈ آن کیا اور لتا منگیشکر کے گانے سننے لگا ۔رشید صاحب برداشت نہ کرسکے اور اسے ڈانٹ دیا کہ موت سامنے کھڑی ہوگئی ہے اور تم گانے سن رہے ہو ۔ بشیر منظر نے کہا جب مرنا ہے تو روتے ہوئے کیوں مریں ،ہنستے ہوئے مرجائیں تو سکون حاصل ہوگا ۔صبح ہوئی تو انہیں مارنے کا فیصلہ بدل دیا گیا کیونکہ تمام مقامی اخبارات نے نمایا ں طور پر اخوان کا بیان شائع کیا تھا اور مدیران سونہ واری کی طرف روانہ ہوچکے تھے ۔مدیران سے بات چیت ہوئی ۔ کوکہ پرے اور ان کے کمانڈروں نے یہ دلیل پیش کی کہ ہم بھی ایک عسکری قوت ہے اور تم نے دیکھ لیا کہ ہم کچھ بھی کرنے کی قوت اور طاقت رکھتے ہیں، جب اخبارات میں دوسری تنظیموں کے بیانات شائع ہوا کرتے ہیں تو ہمارے کیوں نہیں ۔ہم تمہارے دو ساتھیوں کو چھوڑ دیں گے لیکن اگر اس کے بعد ہمارے ساتھ کوئی امتیاز روا رکھا گیا تو اس کی بہت بڑی قیمت چکانی ہوگی ۔اس مجلس میں اُس وقت کے ہفت روزہ چٹان کے قلمکار ظفر اقبال منہاس نے بہت شاندار تقریر کی جس میں انہوں نے قلم کی اہمیت اور صحافت کی عظمت کو بیان کیا لیکن وہاں کون تھا جو دانائی کی ان باتوں کو سمجھ سکتا ۔بعد میں اخوان المسلمون کے بھی کئی دھڑے بن گئے اور انہوں نے بھی مقامی صحافت کو ڈرانے اور دھمکانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیا ۔ڈر ،خوف اور جبر کے اس سیاہ دور میں مقامی صحافت کا اپنی جگہ موجود رہنا کسی معجزے سے کم نہیں لیکن بڑا معجزہ یہ ہے کہ اس دور میں مقامی صحافت نے ارتقائی سفر کے مدارج بھی طے کرلئے ۔سرکار نوازی ، پاکستان نوازی ، ہندوستان نوازی ، عسکری ایجنٹ ، اور دیگر بہت سارے الزامات کے ساتھ اغوا ، قتل ، دھمکیوں اور دبائو کے درمیان کشمیر کی وادی نے انگریزی صحافت میں قدم رکھا اور بہت کم مدت میں گریٹر کشمیر ملک کے بڑے میڈیا ہائوسوں کی سطح تک پہنچ گیا ۔تاریخ ، ثقافت اور سیاست پر فکر انگیز تحقیقی اور تخلیقی مضامین ، ادب ، سپورٹس اور تجارتی صفحات سے مزئن اس اخبار کی سرکولیشن لاکھوں تک پہنچ گئی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ انگریزی اخبارات کی تعداد میں روز افزوں اضافہ ہونے لگا ۔ کشمیر امیجز ، کشمیر اوبزرور، کشمیر مانیٹر ، اور دیگر کئی اخبارات شائع ہونے کے ساتھ ساتھ ہفت روزہ انگریزی اخبار کشمیر لائف بھی شائع ہونے لگا ۔اردو میں ہفت روزہ چٹان کی سرکولیشن تیس ہزار سے بھی زیادہ ہوگئی تھی ۔ آفتاب ، سرینگر ٹائمز ،عقاب ، مشرق اور دیگر کئی اردو اخبارات کی سرکولیشن میں بھی اضافہ ہوا تھا ۔ ہر اخبار معیار کے اعتبار سے ایک دوسرے سے آگے بڑھنے کی کوشش کررہا تھا۔چار صفحات کے اخبارات آٹھ ہوگئے تھے حالانکہ اقتصادی طورپر ہر اخبار کافی مشکلات کا شکار تھا اور سب سے بڑی مشکل یہ تھی کہ نیشنل کانفرنس اور پھر کانگریس و پی ڈی پی کی حکومت نے نہ صرف یہ کہ مقامی صحافت کی مشکلات کو کم کرنے کے بجائے اورزیادہ بڑھانے کے اقدامات کئے بلکہ ان حکومتوں کی کوشش یہ تھی کہ مقامی صحافت کی جگہ نیشنل اخبارات کو کشمیر لایا جائے ۔ اس سلسلے میں ایک نہیں بلکہ بہت ساری کوششیں ہوئیں۔ بے پناہ سرمایہ اور سہولیات فراہم کرنے کے باوجود ہر ایسی کوشش بیکار ثابت ہوئی ۔قومی آواز جو دہلی سے شائع ہونے والا کانگریس کا ترجمان اردو اخبار تھا کا کشمیر ایڈیشن پہلے ہی بند ہوچکا تھا اس کے بعد کشمیر میں راشٹریہ سہارا اور دیگر کئی اخبارات کے دفاتر قائم کرنے کے باوجود بھی ایڈیشن شائع کرنے کی سطح تک نہیں پہنچ سکے ۔یہ آخری کوشش تھی جو کئی سال کشمیر میں شائع ہونے کے باوجود ناکام رہا اور آخر کار بند ہوگیا ۔مین سٹریم جماعتوں کے یہی لیڈران آج مقامی صحافت پر سرکارنوازی کے الزامات عاید کررہے ہیں اور شرم بھی محسوس نہیں کررہے ہیں ۔