حسین محتشم
پونچھ//پونچھ راجوری اضلاع کو سرینگرکشمیر سے ملانے والی مغل روڈ پر پوشانہ کے مقام پر قائم چیک پوسٹ اس شاہراہ پر سفر کرنے والے مسافروں کیلئے سوہان ِ روح بن چکا ہے۔چیک پوسٹ پر مسافروں کو شناختی کارڈ کے سکین کے ساتھ ساتھ بائیو میٹرک کروانا پڑتا ہے، جہاں پوچھ گچھ کی وجہ سے گاڑیوں کی لمبی قطاریں لگ جاتی ہیں اور گاڑیوں کی لمبی لمبی قطاروں میں کھڑا رہ کر مسافروں کو چیکنگ کروانے کے لیے اپنی باری کا انتظار کرنا پڑتا ہے۔ بتا دیں کہ مغل روڈ کی لمبائی بفلیاز تا شوپیاں 84کلومیٹر ہے۔ اس سڑک پر شوپیاں، ہیرپور، ڈوبجیاں، زازنر، عالیا آباد، پیر کی گلی، چھتا پانی، پوشانہ، چندی مڑھ، بیحرام گلہ اور بفلیاز اہم مقامات ہیں۔پیر کی گلی اس سڑک کا سب سے اونچا مقام ہے۔
اس کو پیر پنجال پاس بھی کہا جاتا ہے۔ یہ جگہ اتنی پرکشش ہے کہ آنے جانے والے مسافر یہاں ضرور رکتے ہیں اور زیارت کے لنگر کے ستوؤں کے ساتھ نمکین قہوے کی چسکیاں اور سیلفیاں اور تصاویر کھینچتے نظر آتے ہیں۔ پونچھ کےاکثر مریض 120کلومیٹر دور شیر کشمیر انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز صورہ جانا مناسب سمجھتے ہیں جن کو پوشانہ چیک پوسٹ پر کئی طرح کی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ لوگوں کے مطابق تاریخی مغل شاہراہ کے راستہ سے جانے والے مسافر اور بالخصوص وہ مریض جو اپنا علاج کروانے کی غرض سے سرینگر کا رخ کرتے ہیں پوشانہ چیک پوسٹ پر ان کے شناختی کارڈ چیک کرنے اور اندراج کرتے وقت گھنٹوں تک لاین میں کھڑارہنا پڑتا ہے۔مسافروں کے مطابق اگرچہ پولیس کی جانب سے تھوڑا تعاون بھی مل جاتا ہے مگر وہاں پر تعینات فوجی اہلکار مسافروں کوہراساں کرتے ہیں۔مسافروں نے اپنی شدید برہمی ظاہر کرتے ہوئے لیفٹیننٹ گورنر مرکزی زیر انتظام جموں و کشمیر اور ضلع ترقیاتی کمشنر پونچھ یاسین محمد چوہدری سے اس میں ذاتی مداخلت کرنے کی خصوصی اپیل کی ہے تاکہ اس شاہراہ سے سفر کرنے والے مسافروں کو راحت مل سکے۔مسافروں کا کہنا ہے کہ اس شاہراہ پر پوشانہ میں جیسا رویہ ان کے ساتھ اختیار کیا جاتا ہے اس طرح کا رویہ بیرون ملک جاتے ہوئے بھی کہیں نہیں ہوتا ہو گا۔انہوں نے حکام سے اپیل کی ہے کہ وہ پوشانہ چیک پوسٹ پر تعینات پولیس اور فوج کے اہلکاروں کو ہدایت کریں کہ وہ مسافروں کے ساتھ نرم روی سے کام لیتے ہوئے ان کے وقت کا خاص خیال رکھیں۔