مسئلہ کشمیر پر مذاکرات کا کوئی متبادل نہیں: محبوبہ

سید امجد شاہ
جموں//سابق وزیر اعلیٰ اور پی ڈی پی کی صدر محبوبہ مفتی نے جمعہ کو کہا کہ کشمیر کے مسائل کے حوالے سے بات چیت کا کوئی متبادل نہیں ہے۔محبوبہ مفتی نے سری نگر روانہ ہونے سے پہلے جموں میں صحافیوں سے بات کرتے ہوئے کہا’’بھارت کے سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپائی کی طرف سے جموں و کشمیر کے سابق وزیر اعلیٰ مرحوم مفتی محمد سعید کے ساتھ دیے گئے روڈ میپ کی بنیاد پر بات چیت ہی آگے بڑھنے کا واحد راستہ ہے (بالواسطہ طور پر کشمیر کا حوالہ دیتے ہوئے) کیونکہ اس کا کوئی متبادل نہیں ہے۔ چاہے وہ اسے پسند کریں یا نہ کریں‘‘۔محبوبہ مفتی نے کہا کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے بھی سابق وزیر اعظم اٹل بہاری واجپئی جی کی تعریف کی۔ان کا کہناتھا’’ایک میوزیم میں انہوں نے (حکومت نے) لکھا ہے کہ واجپائی جی نے جموں و کشمیر میں امن عمل شروع کیا تھا۔ یہ نہیں لکھا جانا چاہئے تھا کہ اگر وہ جموں و کشمیر کے امن عمل کے حوالے سے واجپائی کی سب سے بڑی کامیابی کو تسلیم کرتے ہیں بجائے اس کے کہ وہ خود کیا کر رہے ہیں “۔انہوں نے رد عمل ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ مذاکرات کے علاوہ کوئی چارہ نہیں ہے۔ اپنے دعووں کی تائید کے لیے انہوںنے کہا کہ کشمیر اقوام متحدہ سے پہلے بھی ایک مسئلہ تھا اور پاکستان کے ساتھ لاہور اور شملہ معاہدوں کا بھی حوالہ دیا۔انہوں نے کہا کہ جب تک ہم عوام کا اعتماد حاصل نہیں کر لیتے، اس وقت تک پڑوسی ملک (پاکستان) (کشمیر کے مسائل پر) بات کرتا رہے گا اور انہوں نے ایک بار پھر ان مذاکرات کے انعقاد پر زور دیا جو کرگل جنگ اور پارلیمنٹ پر حملے کے باوجود منعقد ہوئے تھے۔انہوں نے مزید کہا کہ بات چیت کبھی نہیں رکی۔سنجوان میں حال ہی میں خودکش حملہ اور سدھرا روڈ پر دھماکہ خیز مواد کی برآمدگی کے بارے میں پوچھے جانے پر محبوبہ مفتی نے کہا کہ ’’اگر جموں میں عسکریت پسندی سے متعلق ایسے واقعات ہوتے ہیں تو سیکورٹی فورسز کیا کر رہی ہیں۔ کیا وہ 100-150 عسکریت پسندوں کو سنبھالنے کے قابل نہیں ہیں؟ پھر ہم کیا کر رہے ہیں؟”۔ان کا کہناتھا”یہاں ہمارے لوگوں کو آرمڈ فورسز اسپیشل پاور ایکٹ کی وجہ سے مسائل کا سامنا ہے۔ آپ کسی کو بھی حراست میں لے سکتے ہیں جسے آپ جانتے ہیں کہ شوپیاں اور ایچ ایم ٹی اور دیگر مقامات کے بارے میں کیا ہوا ہے” ۔ ان کا مزید کہنا تھا کہ اگر ہم نے فورسز کوکافی اختیارات دیئے ہیں۔سیکورٹی فورسز کے ساتھ مل کر حالات سے نمٹنے کے بعدبھی سنجوان جیسے واقعات اور پی آر آئی مارے جاتے ہیں، پھر دیکھنا چاہیے کہ ہمارے اندر کمزوری ہے یا نہیں۔ہو سکتا ہے کہ ہم 150/200 عسکریت پسندوں سے نمٹنے میں ناکام ہو رہے ہوں۔ ہمیں اپنے اندر بھی جھانکنا چاہیے”۔انہوں نے مزید کہا کہ آپ جموں و کشمیر کے تمام لوگوں کو سزا نہیں دے سکتے کیونکہ کچھ لوگوں (عسکریت پسندوں) نے ہتھیار اٹھائے ہیں۔ پی ایم نے اپنے حالیہ خطاب میں گراس روٹ ڈیموکریسی وغیرہ کا حوالہ دیا تاہم عوام کو پکڑا جا رہا ہے۔محبوبہ نے کہا”کیا آپ جانتے ہیں کہ پنچاتی نمائندوں کو حفاظتی حصار میں کیسے رکھا جاتا ہے؟ انہیں مبینہ طور پر اپنے گھر جانے کی اجازت نہیں ہے۔ وہ سیکورٹی زونز سے باہر نہیں آ سکتے۔ انہیں عید کے تہوار پر بھی باہر جانے کی اجازت نہیں ہے‘‘۔ایک سوال کے جواب میںانہوں نے کہا ’’وہ جموں و کشمیر کے وجود کو ختم کرنا چاہتے ہیں جو کہ آرٹیکل 370 کو غیر آئینی طریقے سے منسوخ کرنے کے بعد بھی ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے۔ اس لیے وہ جموں و کشمیر کو تمام پہلوؤں سے کمزور کرنے کی کوشش کر رہے ہیں‘‘۔ان کا کہناتھاکہ دن بہ دن مرکز کے مذموم ڈیزائن ان پر بالکل واضح ہو گئے۔ اس صورتحال میں ان کی (کشمیر میں مقیم سیاسی جماعتیں) PAGD کے تحت حملے کا مقابلہ کرنے کے ایک بڑے مقصد کے لیے اکٹھے ہو رہی ہیں اور انتخابات اس کا حصہ ہیں۔انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں دیگر ریاستوں کے مقابلے میں زمینی قوانین کو کمزور بنا دیا گیا ہے اور سٹیمپ ڈیوٹی کو 50 فیصد تک کم کر دیا گیا ہے۔ کیوں؟ کیونکہ وہ جموں و کشمیر کی زمین بیچنا چاہتے ہیں تاکہ (مقامی) لوگوں پر ایک وقت آئے کہ انہیں مستقبل میں زمین نہیں ملے گی۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف وہ ملک میں نوکریاں نہیں دے پا رہے ہیں اور دوسری طرف جموں و کشمیر میں باہر کے لوگوں کو نوکریاں دی جارہی ہیں۔ اسی طرح ایمز، قدرتی وسائل یعنی ریت بجری، پی ایچ ای، پی ڈی ڈی اور کچھ مرکزی سپانسرڈ سکیموں کے ٹھیکے مبینہ طور پر باہر کے لوگوں کو دیئے گئے ہیں۔انہوں نے کہا کہ پی ڈی پی کو بجلی کے منصوبوں کا مطالبہ کرنے پر تنقید کا نشانہ بنایا گیا لیکن اگر بجلی کے منصوبے جموں و کشمیر کے پاس ہوتے تو ہمیں جموں اور کشمیر میں بجلی کے بحران کا سامنا نہ کرنا پڑتا۔انہوں نے مزید کہا کہ جموں و کشمیر میں بجلی کے حوالے سے استحکام ہوگا جسے صنعتی شعبے میں استعمال کرنے کے ساتھ ساتھ ملک کی دیگر ریاستوں کو بھی فراہم کیا جا سکتا تھا۔ محبوبہ مفتی نے کہا کہ ہندوستان کی بنیاد سیکولرازم پر ہے جو کہ کرناٹک کی طرح بی جے پی کی جانب سے سیکولرازم کو توڑنے کی کوششوں کے باوجود ملک کے عوام کے ڈی این اے میں ہے۔ انہوں نے کہا کہ سری نگر کی جامع مسجد کو شب قدر اورجمعتہ الوداع کی نماز کے لیے نمازیوں کے لیے نہیں کھولا گیا تھا۔انہوں نے کہا کہ بدقسمتی سے وہ لوگوں کو فرقہ وارانہ بنیادوں پر الگ کر رہے ہیں اور انہیں مذہب کے نام پر مسلح کر رہے ہیں جیسا کہ پڑوسی ملک میں کیا جا رہا ہے۔ان کا کہناتھا’’حکومت نوکریاں نہیں دے سکتی اس لیے وہ لاؤڈ سپیکر، حجاب، داڑھی وغیرہ متنازعہ مسائل کے بارے میں بات کرتی ہیں جو کہ بدقسمتی کی بات ہے۔ااگر ہم (پاکستان) کی لائن پر چلتے رہے تو اقلیتوں کو نشانہ بنا کر ہمارے آگے مشکل وقت آئے گا‘‘۔ انہوں نے مزید کہا “اقلیتی گھروں کو بلڈوز کیا جا رہا ہے اور یہ معاشرے کو تقسیم کرنے اور سنسنی پھیلانے کی کوششوں کا ایک سلسلہ لگتا ہے کیونکہ وہ لوگوں اور روزگار کے بنیادی مسائل کو حل کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔ اس لیے مسائل کو فرقہ وارانہ بنایا جا رہا ہے‘‘۔