معصوم مرادآبادی
راجیہ سبھا کی 57 نشستوں کے حالیہ انتخابات کے دوران یہ سوال کئی سطحوں پر اُٹھایا گیا ہے کہ آئندہ ماہ سے پارلیمنٹ میں حکمران پارٹی کا ایک بھی مسلم نمائندہ نہیںہوگا ۔ جولائی میں بی جے پی کے جن ممبران کی مدت کار ختم ہورہی ہے ،ان میں پارٹی کے وہ تین ’ مسلم ‘ ممبران بھی شامل ہیں جو آٹے میں نمک کا درجہ رکھتے تھے۔ یہ ہیں اقلیتی امور کے مرکزی وزیر مختار عباس نقوی ، سابق مرکزی وزیر ایم جے اکبر اورسید ظفر الاسلام ۔ ان تینوں میں سے کسی کو بھی بی جے پی نے راجیہ سبھا کے حالیہ چناؤ میںٹکٹ نہیں دیا۔ اس سے اس بحث نے طول پکڑا کہ حکمران پارٹی نے پارلیمنٹ میں مسلم نمائندگی کے نام پربرائے نام ہی سہی جن مسلمانوں کو رکھا ہوا تھا ، اب ان کا بھی پتہّ صاف ہوگیا ہے۔ یہ بحث اس حد تک آگے بڑھی کہ ترنمول کانگریس کی تیزطرار ممبرپارلیمنٹ مہوا مویترا نے اس موضوع پر انگریزی روزنامہ ’’انڈین ایکسپریس‘‘ میں ایک مضمون بھی لکھ ڈالا۔ مضمون کا عنوان ہے’ ’نظرنہ آنے والے شہری‘‘۔ انہوں نے یہ سوال اٹھایا ہے کہ آئندہ ماہ نہ صرف یہ کہ بی جے پی کا کوئی مسلم ایم پی پارلیمنٹ میں نہیں ہوگا بلکہ ملک کی تیس صوبائی اسمبلیوں میں بھی ان کا کوئی ممبر نہیں ہوگا۔
جو لوگ موجودہ حکمران پارٹی کی سیاست کو سمجھتے ہیں ، ان کے لیے یہ صورتحال اُچھوتی نہیں ہے ۔ یہ بات سبھی جانتے ہیں کہ اِس کی سیاست میں مسلمان’ اجنبی ‘ کی حیثیت رکھتے ہیں۔وہ نہ تو پارلیمنٹ کے چناؤ میں کسی مسلمان کو اپنا امیدوار بناتی ہے اور نہ ہی اسمبلی میں کسی مسلمان کو کھڑاکرتی ہے۔ اُس کی دلیل ہے کہ وہ میرٹ کی بنیاد پر ٹکٹ تقسیم کرتی ہے اور اُن ہی امیدواروں کو ٹکٹ دیتی ہے جو جیتنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔بی جے پی کا یہ بھی کہنا ہے کہ وہ کسی کی منہ بھرائی نہیں کرتی۔ایک دلیل یہ بھی ہے کہ مسلمان چونکہ اُن کی پارٹی کے’ ’مسلم امیدواروں‘ ‘ کو بھی ووٹ نہیں دیتے،اس لیے انہیں ٹکٹ دینا کوئی معنی نہیں رکھتا۔ایسا کیوں ہوتا ہے ، اس کو سمجھنا مشکل نہیں ہے ۔ کیونکہ بی جے پی کی سیاست ہندوؤں کے گرد گھومتی ہے اور وہ انہیں خوش کرنے کے لیے ہی سب کچھ کرتی ہے۔ حالیہ دنوں میں مدھیہ پردیش ، دہلی اور اترپردیش میں مسلمانوں کے مکانوں پر بلڈوزرچلاکر انہیں زمین دوز کرنے کی جو قطعی غیرقانونی ، غیردستوری اور غیرانسانی کارروائیاں انجام دی گئی ہیں ، انہیں دُرست قرار دینے کی ایک ہی وجہ ہے کہ اس سے حکمران جماعت کی وہ ہندتوا ذہنیت مطمئن ہوتی ہے جس کی پرورش اُس نے بڑی محنت سے کی ہے۔ اگرآپ بی جے پی سرکارکے کارناموں پر نظر ڈالیں تو اس نے گزشتہ آٹھ سال میں ہروہ کام کیا ہے جس کی ضرب مسلمانوں پر پڑی ہے اور جس سےانتہاپسند ہندو عناصر کو خوشی حاصل ہوئی ہے۔اگر آپ ہندتوا کی سیاست پر یقین رکھنے والے کسی بھی شخص سے گفتگو کریں تو وہ اس بات سے بہت خوش نظر آئے گا کہ کچھ ہوا ہو یا نہ ہوا ہو،موجودہ مرکزی سرکار نے’ ’ اُن ‘‘کا ناطقہ ضرور بند کردیاہے۔ملک میں مہنگائی ، بے روزگاری ، غربت اور لاقانونیت جیسے سنگین مسائل کو نظرانداز کرنے کی وجہ دراصل مسلمانوں کو ’’سبق ‘‘ سکھائے جانے کی طمانیت ہی ہے۔اس صورتحال پر مجھے عرفان صدیقی کا یہ شعر اکثر یادآتا ہے۔؎
عجب حریف تھا میرے ہی ساتھ ڈوب گیا
مرے سفینے کو غرقاب دیکھنے کے لیے
حکمران پارٹی اور اُس کی حکومتوں کے کاموں پر سرسری نظرڈالنے سے ہی اندازہ ہوجاتا ہے کہ اس کا بنیادی مقصد ہندتوا عناصر کی خوشنودی حاصل کرنا ہے ، خواہ اس کے لیے اسے قانون و دستور کو بھی پس پشت کیوں نہ ڈالنا پڑے۔ مسلمانوں کی معمولی غلطیوں کے لیے انہیں جو بڑی اور اذیت ناک سزائیں کسی قانونی عمل کے بغیر دی جارہی ہیں ، اُن کے پس پشت دراصل مسلمانوں کو سبق سکھانے کا جذبہ ہی کار فرما ہے۔ظاہر ہے یہ سراسر انتقامی سیاست ہے جس کے تحت ملک کی سب سے بڑی اقلیت کو دیوار سے لگایا جارہا ہے۔اس سراسر ناانصافی اور ظلم کو جمہوریت کے چاروںستونوں کی حمایت ہی حاصل نہیں ہے بلکہ یہ اس میں برابر کے شریک ہیں۔ سب سے مکروہ کردار جمہوریت کے چوتھے ستون میڈیا کا ہے، جس نے بے غیرتی اور بدمعاشی کے سارے ریکارڈ توڑ دیئے ہیں۔
گستاخ رسول نوپور شرما کے معاملہ کو ہی لے لیجئے ۔ یہ معاملہ پوری طرح گودی میڈیا کا پیدا کردہ ہے۔ ایک نیوزچینل پر ہی نوپورشرما نے دریدہ دہنی کا مظاہرہ کیا تھا ، جس کے بعد پوری دنیا میں احتجاج کیا گیا ۔اقوام متحدہ کے علاوہ امریکہ ، چین اور کئی مسلم ملکوں میں آواز بلند کی گئی۔ کئی عرب ملکوں میں ہندوستانی سفیروں کو طلب کرکے اس کے خلاف احتجاج درج کرایاگیا ، لیکن ملک کی سرکار نے ابھی تک نوپور شرما کے خلاف کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی ہے۔ شدید احتجاج کے بعد نوپور شرما کو پارٹی سے صرف اس وقت تک کے لیے معطل کیا گیا ہے جب تک معاملے کی تحقیقات نہیں ہوجاتی۔ خیال کیا جاتا ہے کہ تحقیقات کے نام پر خانہ پرُی کرکے اسے پارٹی میں واپس لے لیا جائے گا۔نوپور شرماکے خلاف جو ایف آئی آردرج ہوئی ہے ، اس میں بھی اس کی گرفتاری کا کوئی امکان نہیں ہے کیونکہ ایسا کرکے حکمران جماعت اپنے اس کیڈر کو ناراض نہیں کرنا چاہتی ، جو نوپور شرما کے گستاخانہ عمل سے بہت خوش ہے اور پارٹی میں اس کی کھلی حمایت کررہا ہے۔ جبکہ ایسے ہی ایک معاملے میں پولیس نے دہلی یونیورسٹی کے پروفیسر رتن لال کو ایف آئی آر درج ہوتے ہی جیل بھیج دیا تھا۔
حکمران جماعت کی حکمت عملی یہ ہے کہ پہلے وہ مسلمانوں کو مشتعل کرے تاکہ وہ سڑکوں پر آکر احتجاج کریں ۔ اس کے بعد پولیس مورچہ سنبھالے اور پوری بےشرمی سے مسلمانوں کو کچلنے کا کام انجام دے۔ حال ہی میں الہ آباد میں جس وقت سماجی کارکن محمدجاوید کے مکان کو زمیں دوز کیا جارہا تھا تو وہاں ایک خوفزدہ دکاندار امام الدین نے ’گارجین ‘ کے نمائندے سے جو کچھ کہا وہ صورتحال کی بھرپور عکاسی کرتا ہے ۔ امام الدین کا کہنا تھا کہ ’’ بی جے پی لیڈران پہلے ہمیں مشتعل کرتے ہیں ۔ جب ہم اس پر ردعمل ظاہر کرتے ہیںتو وہ ہمیں گرفتار کرکے ہمارے مکانوں کو منہدم کردیتے ہیں۔‘‘امام الدین کے اس درد کو مسلمان تو محسوس کرسکتے ہیں ،لیکن اس ملک کی سیکولر پارٹیاں جو مسلمانوں کے ووٹوں سے ہی اقتدار کی مسند پر بیٹھتی رہی ہیں، اس پرٹوئٹ کے علاوہ کچھ نہیں کرتیں۔ کیونکہ ان کی سیاست کو بھی حکمران جماعت نے اکثریت پرستی کی سیاست میں بدل دیا ہے۔ انھیں لگتا ہے کہ اگر وہ مسلمانوں پر ہورہے مظالم کے حق میں آواز بلند کریں گی تو انہیں ہندو ووٹ نہیں ملے گا۔حالانکہ یہ ان کی خوش فہمی ہے کہ ہندتوا عناصر انہیں ووٹ دیتے ہیں۔
اب آئیے ہم اپنے موضوع کی طرف واپس آتے ہیں ۔ لوک سبھا میں اس وقت بی جے پی کے 301ممبران ہیں جبکہ راجیہ سبھا میں اس کے ارکان کی تعدا د95ہے ۔ملک کی مختلف ریاستوں میں اس کے 1379؍ممبران اسمبلی ہیں ، لیکن ان میں ایک بھی مسلمان نہیں ہے۔ یہ ہے خود کو دنیا کی سب سے بڑی پارٹی کہنے والی بی جے پی کا اصل چہرہ۔یہ وہی پارٹی ہے جو ’سب کا ساتھ ، سب کا وکاس اور سب کا وشواس‘ کی بات بڑے زوروشور سے کرتی ہے۔اس کے برعکس ہم آپ کو برطانیہ کی مثال دیتے ہیں ، جہاں اس وقت 14؍لاکھ ہندوستانی نژاد باشندے رہتے ہیںجو وہاں کی آبادی کا ڈھائی فیصد ہیں ، لیکن وہاں کی پارلیمنٹ(ہاؤس آف کامن) میں ہندوستانی نژاد 15؍ممبران پارلیمنٹ ہیںاور اتنے ہی پاکستانی نژاد ممبران پارلیمنٹ ہیں۔ہاؤ س آف کامن میں دس ممبران نسلی اقلیتوں سے تعلق رکھتے ہیں۔ جبکہ دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہی جانے والے ہندوستان کی پارلیمنٹ میں اب حکمراں پارٹی کا کوئی ایک ممبر بھی مسلمان نہیں ہے۔
[email protected]