کرناٹک ہائی کورٹ کی جانب سے تعلیمی اداروں میں حجاب کے استعمال پر پابندی کے فیصلہ کے بعد پورے ملک میں یہ بحث چھڑگئی ہے کہ آیا ملک کے انصافی اداروں کو دستور نے یہ حق دیا ہے کہ و ہ شہریوںکی مذہبی آزادی کے ساتھ ان کی شخصی آزادی کا حق بھی ختم کرسکتےہیں؟ کرناٹک کی تین رکنی بنچ نے منگل (15؍ مارچ ) کو اس ضمن میں جو فیصلہ صادر کیا ے، اُس سے یہی تا ثر اُبھرتا ہے کہ اب انصاف کے ادارے ، مذہبی رول ادا کرنے میں دلچسپی دکھارہے ہیں۔ کون کیا پہنے اور کون کیا کھائے، اب اس کا تصفیہ بھی یہی ادارے کریں گے۔ لباس انسان کی مرضی سے پہنا جاتا ہے، اس میں کسی کا اعتراض یا مداخلت عدم تحمل کی ایک بدترین مثال ہے۔ کرناٹک میں اسکولوں اور کالجوں میں یونیفارم کا جو مسئلہ گزشتہ دسمبر میں اُٹھا تھا، اب وہ ایک ’’حجاب فوبیا‘‘کی شکل اختیار کرچکا ہے۔ اس میں ریاست کی عدلیہ نے بھی لچکدار رویہ اختیار نہ کر تے ہوئے اسے ایک سنگین موڑ دے دیا۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے فاضل جج صا حبان نے حجاب کو اسلام کا لازمی جز ماننے سے انکار کر تے ہوئے تعلیمی اداروں میں حجاب کے استعمال پر پابندی لگادی۔ یہ سوال قابل غور ہے کہ جب آئین کی دفعہ 21یہ کہتی ہے کہ کسی بھی فرد کو اس کی انفرادی آزادی سے محروم نہیں کیا جا سکتا ہے اور دستور کی دفعہ 25ہر شہری کو مذہبی آزادی کا حق عطا کرتی ہے۔ ان دستوری تیقنات کی بنیاد پر ہی کوئی فرد اپنی مرضی کا لباس استعمال کرتا ہے تو اس سے کس کو کیا نقصان پہنچ سکتا ہے؟ اسی طرح ہندوستانی دستور اظہارِ خیال اور اپنے کلچر کے تحفظ کی ضمانت دیتا ہے۔ کرناٹک ہائی کورٹ کا حا لیہ فیصلہ ان تمام دستوری ضمانتوں کی نفی کرتا ہے۔ اس فیصلے کے بڑے گہرے اثرات ملک کے سماجی ڈھانچے پر پڑیں گے۔ ایک طرف وزیراعظم بیٹی بچاؤ ، بیٹی پڑھاؤ کا نعرہ دیتے ہیں اور دوسری طرف ان کی پارٹی کی حکومت اپنے ایک حکمنامہ کے ذریعہ تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی عائد کرتی ہے۔ اس کے خلاف جب طالبات عدالت سے رجوع ہوتی ہیں تو عدالت بھی حکومت کے اقدام کو جائز قرار دیتے ہوئے اس کے حق میں فیصلہ دیتی ہے۔ کرناٹک کے اس متنازعہ فیصلہ کو سپریم کورٹ میں چیلنج کر دیا گیا ہے۔ اب سپریم کورٹ کیا فیصلہ دے گی یہ تو آنے والاوقت ہی بتائے گا۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے آ خر کس بنیاد پر یہ رولنگ دے دی کہ حجاب، اسلام کا لازمی جز نہیں ہے۔ قرآن مجید میں سورہ نور اور سورہ احزاب کے علاوہ دیگر مقامات پر پردے کے تعلق سے بہت اہم ہدایات دی گئیں ہیں۔ اس کے باجود جج صاحبان کایہ کہنا کہ حجاب ، اسلام میں ضروری نہیں ہے۔ ان کی اسلام سے متعلق معلومات کی کمی کو ظاہر کرتا ہے۔ ہونا تو یہ چاہئے کہ کسی بھی مذہبی کیس کی سماعت کر تے ہوئے عدالتیں اس مذہب سے وابستہ مذہبی پیشواؤں کی بھی رائے طلب کریں اور اُسی کے مطابق اپنے فیصلے جاری کریں۔ لیکن اب تک یہ دیکھا جا رہا ہے کہ جب کبھی مسلمانوں کے شرعی مسائل عدالتوں میں زیر بحث آ تے ہیں،تو من مانے فیصلے دئے جاتے ہیں۔ اس سے ایک انتشار اور بدامنی کا ماحول پیدا ہوجاتا ہے۔ شاہ بانو مقدمہ سے لے کر اب تک کے فیصلوں پر اگر ایک نظر ڈالی جائے تو یہی حقیقت سامنے آ تی ہے کہ جب کبھی مسلمان عدلیہ کی طرف اُمید بھری نگائیں ا ٹھائے رکھتے ہیں، انہیں مایوسی کے سوا کچھ ہاتھ نہیں لگتا۔ ملک کی آزادی کے بعدسے اب تک مقامی عدالتوں سے لے کر ملک کی اعلیٰ ترین انصافی اداروںکے بعض فیصلوں سے مسلمانوں کو شدید کوفت ہوئی۔
کرناٹک کی حکومت کے اس اقدام کے پسِ پردہ تمام عوامل کا بڑی باریک بینی سے ریاست کی ہائی کورٹ کو جائزہ لینا چاہئے تھا۔ بومئی حکومت نے یہ حکمنامہ جس منصوبے کے تحت جاری کیا۔ اُس کایہی مقصد اخذ کیا جاتا ہےکہ صرف اور صرف مسلم لڑکیوں کو تعلیم سے روکنا ہے۔ ان کے لئے تعلیم کے دروازوں کو بند کردینا شایدیہاں کے حکومت کی خواہش ہے۔ لاکھوں مسلم لڑکیاں ملک کے مختلف اعلیٰ تعلیمی اداروں میںبرسوں سے حجاب میں رہ کر تعلیم حاصل کر رہی ہیں۔ خود کرناٹک میں ہزاروں کی تعداد میں مسلم طالبات باحجاب رہ کر زیورِ تعلیم سے آ راستہ ہو رہی ہیں۔ ابھی کچھ دن پہلے کرناٹک سے تعلق رکھنے والے ضلع رائچور کی ایک طالبہ نے انجینئرنگ میں 16میڈل حاصل کرتے ہوئے قوم اور ملت کانام روشن کیا ہے۔ کرناٹک میں حجاب کے مسئلہ کو چھیڑ نے کا مقصد ،کیامسلم لڑکیوں کو تعلیم سے دور کرتے ہوئے مسلم معاشرہ کو مزید پسماندہ کرنا ہے؟ آخر حجاب کے خلاف یہ شور و غوغا اچانک کیوں اُٹھا؟ ریاستی حکومت نئے تعلیمی سال کا انتظار کرکے آئندہ اس بارے میں کوئی پالیسی بنا سکتی تھی۔ لیکن عین تعلیمی سال کے دوران یہ جو ہیجان پیدا کیا گیا، کیااس سے حکومت اپنے کئی دیگر عزائم کو پورا کرنا چاہتی ہے؟ یوپی اسمبلی الیکشن سے پہلے یہ ہنگامہ شروع ہوا۔ اس کا کچھ نہ کچھ اثر یوپی الیکشن پر پڑا۔ بی جے پی کو وہاں جو زبردست کا میابی ملی اس میں کرناٹک کے حجاب تنازعہ کا بھی حصہ شامل رہا ہے۔ اب کرناٹک میں 2023 میں الیکشن ہونے والے ہیں، اس لئے اور زیادہ اس مسئلہ کو گرمایا جائے گا۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے نےاس قضیہ کو مزید پیچیدہ بنا دیا۔ جب ایک رکنی بنچ نے اس کی سماعت سہ رکنی بنچ کو منتقل کردی اور جب اس بڑی بنچ نے حکومت کے آرڈر پر کوئی حکم التواء دینے سے انکار کر دیا تو تب ہی اندازہ ہو گیا تھا کہ عدالت کیا فیصلہ دینے والی ہے۔ جب ہائی کورٹ نے طالبات کو اپنے عبوری حکم نامہ کے ذریعہ کوئی راحت نہیں دی، اُس وقت سے ہی جاری کئے گئے فیصلے کا عندیہ ملا تھا۔ لیکن دُنیا امید پر قائم ہے اور بیچارے مسلمانوں کے پاس انصاف کا انتظار کرنے پر بھروسہ کرنے کے سوا کچھ بچا نہیںتھا۔ انتظار کے یہ لمحات اضطراب میں بدل گئے اور بالآخر۱۵؍مارچ کو دیئے گئے عدالتی ٖفیصلے نےاُن کی ساری اُمیدوں پر پانی پھیر دیا۔ کرناٹک ہائی کورٹ نے طالبات کی تمام اپیلیں مسترد کردیں۔ اب یہ مسئلہ کرناٹک سے نکل کر سارے ملک کے مسلمانوں کا مسئلہ بن گیا ہے۔ اگر اس فیصلے کے خلاف سپریم کورٹ میں ٹھوس دلائل کے ساتھ بحث نہ کی جائے تو ملک کے سارے تعلیمی اداروں میں حجاب پر پابندی لگ سکتی ہے۔ اس سے اُمت کی ساری بیٹیوں کی تعلیم متاثر ہوسکتی ہے۔ حجاب پر پابندی لگانے میں حکومتیں کا میاب ہوجا تی ہیں تو اس سے مسلم لڑکیوں کا مستقبل داؤ پر لگ سکتاہے۔ کرناٹک کی حکومت نے اسی مقصد کو سامنے رکھ کر ایک ایسے مسئلہ کو چھیڑا ہے جس کا مطالبہ کسی نے نہیں کیا تھا۔ مسلم لڑکیاں حجاب لگا کر اسکول اور کالج جا تی ہیں تو اس سے کس کو کیا خطرہ پیدا ہورہا تھا۔ آیا یہ کوئی نظم و ضبط پیدا کرنے والا مسئلہ تھایاکسی دوسرے مذہب کے ماننے والوں کے لئے اس سے کوئی مسائل پیدا ہورہے تھے۔ غور طلب بات ہے کہ انصاف کے ان اداروں کو یہ اختیار کس نے دیا ہے کہ وہ کسی مذہب میں کیا چیز لازمی ہے اور کیا نہیں ہے، اس کو طے کریں۔کرناٹک ہائی کورٹ نے ایک بِلا وجہ کی بحث چھیڑ دی ہے۔ کرناٹک کی طالبات عدالت سے یہ گزارش لے کر رجوع ہوئیں تھیں کہ انہیں اپنے مذہبی طریقہ پر چلتے ہوئے تعلیم حاصل کرنے کا موقع دیا جائے۔ وہاں یہ سوال نہیں کیا گیا تھا کہ عدالت حجاب کی شرعی حیثیت کو واضح کرے۔ کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلے کے بعد طالبات نے اعلان کردیا کہ و ہ اس فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ سے رجوع ہوں گی۔ ایک طالبہ نے سپریم کورٹ میں اپیل بھی داخل کردی۔ طالبات نے یہ بھی ادعا کیا کہ وہ بغیر حجاب کے اسکول اور کالج کو نہیں جائیں گی۔ کرناٹک کی تمام مذہبی، ملّی، سماجی اور فلاحی تنظیموں نے کرناٹک ہائی کورٹ کے فیصلہ پر ناراضگی جتاتے ہوئے پوری ریاست میں جمعرات (17 ؍ مارچ) کو ایک روزہ بند منانے کا اعلان بھی کردیا۔ ظاہر ہے کہ مسلمان اس فیصلے کو ہر گز قبول نہیں کریں گے۔ عدالتی کاروائی کے علاوہ عوام غم و غصہ کا بھی اظہار بھی کررہا ہے۔ بعض حلقوں کا ماننا ہے کہ حجاب کے مسئلہ کو مقامی سطح پر افہام و تفہیم کے ذریعہ مسلمان حل کرلیتے تو یہ دھماکو صورت حال پیدا نہ ہوتی۔ یہ بات بھی کہی جا رہی ہے کہ شرعی مسئلہ میں عدالت کا دروازہ کھٹکھٹانے سے پہلے مسئلہ کے تمام پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کرکے قدم اُٹھانا چاہئے۔ ورنہ عدالت مختلف تعبیروں کے ذریعہ مسئلہ کو اُلجھا دیتی ہے۔ اب حجاب پر پابندی کے معاملے میں عدالت نے قرآنی آیات کی من مانی تشریح کر تے ہوئے یہ باور کرادیا کہ حجاب ، اسلام کا جز نہیں ہے۔ حجاب کے کیس کو جس انداز میں عدالت میں پیش کیا گیا، اُسے دوسرے رخ سے پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ ملک کے دستور نے شہریوں کو جو آزادیاں دیں ہیں، اُسی کی روشنی میں اپنے حق کا مطالبہ کیا جاتا تو عدالت کو یہ کہنے کا موقع ہی نہیں ملتا کہ حجاب، اسلام میں لازمی نہیں ہے۔ جس دستور کا حلف لے کر جج صاحبان عدالت کی کرسیوں پر فائزہیں، اُسی کا حوالہ دیا جاتا تو فیصلہ کچھ اور آتا۔ لیکن بہر حال کسی کی نیت یا خلوص پر شک کرنے کی گنجائش نہیں ہے لیکن مسلمانوں کو موجودہ سنگین حالات میں مومنانہ فراست سے کام لینے کی ضرورت ہے۔ جہاں حکمت اور بردباری وقت کا تقاضاہو، وہاں جذباتی اور غیر سنجیدہ اقدامات اچھے کام کو بگاڑ دیتے ہیں۔ سابق کی تجربات اس کی گواہی دیتے ہیں۔ بابری مسجد کا مسئلہ ایک مقامی مسئلہ تھا، لیکن برسوں گزرجانے کے بعد مسلم قیادت کو ہوش آیا اور پھر جوش کے عالم میں اُسے ایک بین الاقوامی مسئلہ بنادیا گیا ۔ لاکھوں مسلمانوں کی شہادت ہوئی ، اربوں روپیوں کی املاک تباہ وبرباد ہوئی اور آخر میں نتیجہ کیا نکلا، وہ سب کو معلوم ہے۔ اس وقت ملک کے انصافی اداروں کے جو تیور ہیں، اُس کو مدّنظر رکھتے ہوئے ہر معاملہ کے لئے عدالت سے رجوع ہونا مناسب نہیں ہے۔ اب اس فیصلے کے بعد یہ شوشہ چھوڑا جائے گا کہ کھلی جگہ پر نماز نہیں پڑھی جاسکتی۔ پھر داڑھی ٹوپی، شیروانی اور پائجامہ پر بھی سوال اٹھائے جائیں گے۔ قانون اور آئین سے مکمل آ گہی کے بغیر عدالتوں سے رجوع ہونا ایک بڑی مصیبت کو دعوت دینا ہے۔ اس لئے کسی قضیہ کو بات چیت کے ذریعہ ہی مقا می سطح پر حل کرلینا ہی بہتر ہے۔ ناگزیر حالات میں ہی پوری اُمت متحد ہوکر عدالت سے رجوع ہوتو انصاف کی اُمید کی جاسکتی ہے۔حجاب کے مسئلہ کو بھی مقامی سطح پر حل کرلیا جاتا تو یہ مسئلہ اتنا طول نہ پکڑتا اور اب سپریم کورٹ تک مسئلہ چلے جانے سے فوری طوراس کا حل بھی ممکن نہیں ہے۔ سپریم کورٹ نے بھی اس کیس کی جلد سماعت کی اپیل کو مسترد کردیا ہے۔ اب یہ مہینوں نہیں بلکہ سالوں کا مسئلہ بن چکا ہے۔ خدانخواستہ بابری مسجد اور تین طلاق کے معاملے میں جوفیصلے آ ئے، اگر اسی نوعیت کا فیصلہ حجاب کے مسئلہ پر آ ئے تو سوچئے کہ مسلم طالبات کے لئے حصولِ علم کتنا مشکل ہوجائے گا۔ موجودہ حکومت چاہے مرکز کی ہو یا ریاست کی،شاید وہ یہی چاہتی ہیں کہ مسلمانوں کو زندگی کے ہر شعبہ میں پسماندہ کرکے رکھ دیا جائے۔ اسی لئے یہ سب کچھ ہورہا ہے۔ مسلمان نوشتہ ِ دیوار پڑھتے ہوئے اس کاجواب فہم و فراست اوردانشمندی کے ساتھ دیں ۔ کہیں ایسا نہ ہوکہ مسلمان دشمن کے بچھائے ہوئے جال میں پھنس کر اس کے لئے نرم چارہ بن جائیں اور وہ اپنی چالاکیوں پر جشن مناتا پھرے۔