جموں//مذاکرات کو ہر تنازعہ کے حل کا واحد متبادل قرار دیتے ہوئے تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ کے اتوار کو کہا کہ تشدد سے عالمی امن کا قیام نا ممکن ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ’’ہم نے بیسویں صدی میں بہت تشدد دیکھا، یہاں تک کہ نیوکلیائی ہتھیار بھی استعمال ہوئے، سوال یہ نہیں ہے کہ آپ تشدد آمیز راستے اپنانے میں کتنے حق بجانب ہیں سوال یہ ہے کہ آخر کار اس کے نتائج کیا ہوں گے؟‘‘۔ جموں سنٹرل یونیورسٹی کے اولین کانوئوکیشن سے خطاب کے دوران نوبل انعام یافتہ 14ویں لامہ نے 21ویں صدی کو امن اور افہام و تفہیم کیلئے وقف کئے جانے کی ضرورت پر زور دیتے ہوئے کہا کہ ’ اختلافات کا ہونا قدرتی امر ہے لیکن اگر ان اختلافات کو بزور بازو ختم کرنے کی کوشش کی جاتی ہے تو یہ مزید طاقتور ہو کر ابھرتے ہیں۔‘‘فوجی کاررائیوں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مختلف جنگوں اور آپریشنوں میں دشمن کے ہزاروں سپاہیوں کو موت کے گھاٹ اتارنے کے بعد تسلی ہو جانی چاہئے تھی، ان کارروائیوں میں صرف سپاہی ہی نہیں مرتا ہے بلکہ اس کے اہل خانہ بھی اسی دن مرجاتے ہیں۔ ’’پر امن دنیا کے قیام کیلئے ہمیں طاقتور بننا ہوگا، حالات کتنے بھی پیچیدہ کیوں نہ ہوں، انہیں بات چیت کے ذریعہ حل کیا جانا چاہئے، دوسروں کے خیالات کا بھی احترام کیا جائے ،یہی ایک واحد متبادل ہے‘۔جموں کشمیر کا خصوصی ذکر کرتے ہوئے دلائی لامہ نے کہا کہ سیکولرازم کے معنی ہی یہی ہیں کہ تمام مذاہب کا احترام کیا جائے، جموں کشمیر میں بودھوں، ہندؤں ، مسلمانوں اور عیسائیوں میں ہم آہنگی اور بھائی چارہ پایا جاتا ہے ، یہ ریاست ہندوستان کی ہم آہنگی کی عمدہ مثال پیش کرتی ہے‘‘۔انہوں نے کہا کہ ہندوستان کی صدیوں پرانی روحانی روایات رہی ہیں کہ یہاں نہ صرف مختلف عقائد رکھنے والوں کا احترام کیا جاتا ہے بلکہ منکرین کو بھی احترام دیا جاتا ہے ۔دلائی لامہ نے کہا کہ قبل از مہاتما بدھ ہی ہندوستان میں مختلف مذاہب کے ماننے والے عدم تشدد اور سیکولرازم کے اصولوں پر عمل پیرا تھے، آج بھی ہندوستان پوری دنیا میں اس لحاظ سے ایک منفرد مقام رکھتا ہے ۔جدید نظام تعلیم کی تنقید کرتے ہوئے انہوں نے اسے ایسے خطوط پر استوار کرنے کی ضرورت پر زور دیا جس سے نوجوان نسل میں عدم تشدد اور رواداری کا جذبہ ابھرے۔ لامہ نے کہا کہ موجود ہ نازک دور میں نوجوان نسل کو راہ راست پر چلانے کے لئے ہمیں ہزاروں سال پرانی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ہوگا، یوگ اور آیور وید اس میں معائون ثابت ہو سکتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ امریکی اور یورپی سکالروں نے بھی اس بات کو تسلیم کیا ہے کہ قدیم ہندوستانی اقدار آج کے دور میں بھی وہی مقام رکھتی ہیں جو ماضی میں تھا اس لئے جدید فرسودہ تعلیمی نظام کو بدلنے میں ہندوستان اپنے عظیم ورثہ سے استفادہ کر کے ایک اہم کردار ادا کرسکتا ہے ۔