افتخاراحمدقادری
ماہ ربیع النور شریف اسلامی سال کا تیسرا مہینہ ہے- اس ماہِ مبارک کی وجہ تسمیہ یہ ہے کی جب ابتداء میں اس ماہِ مبارک کا نام رکھا گیا تو اس وقت موسم ربیع کی ابتداء تھی۔ماہ ربیع النور شریف خیرات و برکات اور سعادتوں کا منبع ہے کیوں کہ اس ماہِ مبارک کی بارہویں تاریخ کو اللہ رب العزت نے اپنے فضل و کرم سے رحمۃ العالمین احمد مجتبیٰ محمد مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو پیدا فرما کر اپنی نعمتوں کی بارش برسائی۔ ماہ ربیع النور شریف کی آٹھویں تاریخ کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ منورہ تشریف لے گئے تھے اور اس ماہ کی دسویں تاریخ کو حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ام المومنین حضرت سیدتنا خدیجتہ الکبریٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہا سے نکاح فرمایا- (عجائب المخلوقات، صفحہ: 45)
ربیع النور شریف کی بارہویں تاریخ کو یعنی ولادتِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے دن خوش و مسرت کا اظہار کرنا، مساکین کو کھانا کھلانا، میلاد شریف کا جلوس نکالنا، جلسے منعقد کرنا اور کثرت سے درود شریف پڑھنا بہت ثواب کا کام ہے۔ اللہ رب العزت تمام سال اس کو امن وامان مرحمت فرمائے گا اور اس کے تمام جائز مقاصد پورے فرمائے گا- ( ماثبت من السنہ، صفحہ: 59) مسلمانوں کو چاہیے کہ اس ماہِ مبارک کی بارہویں تاریخ کو بالخصوص اور باقی سال بالعموم میلاد شریف کی مجالس منعقد کیا کریں۔یہ محافلِ پاک ذریعہ ہدایت اور حصولِ برکت ہوگیں۔
حضرت عبد الواحد بن اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایک شخص مصر میں محفل میلاد منعقد کیا کرتا تھا اور اس کے پڑوس میں ایک یہودی رہتا تھا، اس کی بیوی نے کہا: کہ ہمارے پڑوس میں مسلمان کی حالت ہے جو ماہ ربیع النور میں بہت مال خرچ کرتا ہے؟ اس کے خاوند نے اسے بتایا کہ اس کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس مہینے میں پیدا ہوئے ہیں لہٰذا! وہ اس کی خوشی میں اور اپنے نبی کی ولادت کی تکریم کے واسطے یہ اہتمام کرتا ہے۔ اس کی بیوی نے کہا: کہ مسلمانوں میں یہ ایک بہت اچھا طریقہ ہے۔یہ کہہ کر وہ عورت سو گئی، تو اس نے خواب میں ایک خوبصورت شخصیت کو دیکھا جن کے چہرے سے ہیئت و جلال اور انوار نمایاں ہیں اور وہ ان کے پڑوسی مسلمان کے گھر تشریف لے گئے ہیں اور ان کے ارد گرد ان کے صحابہ کی ایک جماعت ہے جو ان کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں- عورت نے ایک شخص سے دریافت کیا یہ کون بزرگ ہیں؟ اس نے کہا کہ یہ اللہ رب العزت کے رسول احمد مجتبیٰ محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہیں جو اس گھر میں تشریف لائے ہیں تاکہ اہل خانہ کو اپنے سلام اور زیارت سے مشرف فرمائیں، کیونکہ یہ آپ کے میلاد شریف کی خوشی مناتے ہیں۔عورت نے کہا کہ اگر میں آپ سے کچھ کلام کروں تو کیا وہ مجھ سے کلام فرمائیں گے؟ اس نے کہاں ہاں ضرور! پس عورت نے آپ کے پاس حاضر ہوکر عرض کی یا محمد! (صلی اللہ علیہ وسلم) آپ نے لبیک فرمایا! عورت نے کہا کہ آپ مجھ جیسی کو جواب سے نوازتے ہیں۔ حالانکہ میں آپ کے دین پر نہیں ہوں بلکہ میں آپ کے دشمنوں یعنی یہود سے ہوں۔ آپ نے فرمایا قسم ہے اس ذات کی جس نے مجھے سچا نبی بنا کر بھیجا ہے، میں نے تیری آواز پر جواب نہ دیا یہاں تک کہ میں نے جان لیا کہ اللہ رب العزت نے تجھ کو ہدایت نصیب فرمادی ہے۔ عورت نے کہا بیشک آپ سچے نبی ہیں اور صاحبِ خلق عظیم ہیں ۔جس نے آپ کی مخالفت کی اور آپ کی قدر نہ پہچانی وہ ہلاک اور ذلیل ہوا، میں شہادت دیتی ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں۔ یہ کہہ کر اس عورت نے اپنے دل میں یہ نیت کر لی کہ جب صبح ہوگی تو وہ تمام چیزیں جو میری ملکیت میں ہیں صدقہ و خیرات کر دوں گی اور اللہ رب العزت کے رسول کا میلاد شریف کروں گی- کیونکہ اللہ رب العزت نے ان کی برکت سے مجھے اسلام کی نعمت عطا فرمائی ہے۔ جب صبح ہوئی تو اس نے اپنے خاوند کو دیکھا کہ اس نے کھانے کا اہتمام کیا ہوا ہے اور بڑی مصروفیت میں ہے۔ عورت حیران رہ گئی اور کہا کہ میں تم کو عالی ہمت دیکھ رہی ہوں۔ خاوند نے کہا! یہ سب کچھ اس لیے ہے
کہ تونے رات کو اسلام قبول کیا ہے۔عورت نے کہا! تمہیں اس کی کس طرح خبر ہوگئی؟ خاوند نے کہا! کہ میں بھی تیرے بعد حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کے دست اقدس پر مشرف با اسلام ہو گیا تھا۔ اللہ رب العزت ان پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے اور ان کا شرف و کرامت اور زیادہ کرے۔ جس طرح آپ نے ہمیں اللہ رب العزت کی معرفت سے آگاہ کیا اور اس کی طرف بلایا اور روز محشر ہماری شفاعت فرمائیں گے۔( تذکرہ الواعظین، صفحہ: 200)
ابو لہب جو مشہور کافر تھا اور حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا رشتہ میں چچا تھا- جب رحمہ اللعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت ہوئی تو ابولہب کی لونڈی ثویبہ نے آپ کی ولادتِ باسعادت کی خوش خبری اپنے مالک ابولہب کو سنائی تو ابولہب نے حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کی خوشی میں اپنی لونڈی کو آزاد کر دیا۔ جب ابولہب مرگیا تو کسی نے خواب میں دیکھا اور اس کا حال دریافت کیا تو اس نے کہا کہ کفر کی وجہ سے دوزخ کی آگ میں گرفتار ہوں مگر اتنی بات ہے کہ ہر پیر کی رات عذاب میں تخفیف ہو جاتی ہے اور جن انگلیوں سے میں نے اشارہ کر کے اپنی لونڈی کو آزاد کیا تھا ان کے درمیان پانی آتا ہے جسے میں چوستا ہوں۔ ابن جوزی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ جب ابولہب کافر جس کی مذمّت میں سورہ لہب نازل ہوئی، اسے یہ انعام ملا- تو بتاؤ! اس مسلمان کو کیا صلہ ملے گا جو اپنے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ باسعادت کی خوشی منائے، اس کی جزا اللہ رب العزت سے یہی ہوگی کہ اللہ رب العزت اپنے فضل عمیم سے اسے جنات نعیم میں داخل فرمائے گا۔ (ماثبت من السنہ، صفحہ: 60)
قارئین! سب سے پہلے جاننا چاہیے کہ میلاد کی حقیقت کیا ہے؟ میلاد، مولود، مولد یہ تینوں لفظ متقارب المعنی ہیں۔ میلاد کی حقیقت صرف یہ ہے کہ مسلمان ایک جگہ جمع ہوں اور ایک عالم دین ان کے سامنے حضورِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادتِ مبارک اور آپ کے معجزات، آپ کے اخلاقِ کریمہ صحیح روایت کے ساتھ بیان کرے اور آخر میں بارگاہِ رسات میں درود و سلام باادب کھڑے ہو کر پیش کریں، اگر توفیق ہو تو شیرینی پر فاتحہ دلاکر فقرا و مساکین کو کھلائیں، احباب میں تقسیم کریں پھر دعا مانگ کر اپنے اپنے گھروں کو چلے جائیں۔ یہ تمام امور جو ذکر کئے گئے ہیں قرآن وسنت اور علمائے امت کے اقوال سے ثابت ہیں صرف اللہ رب العزت کی ہدایت کی ضرورت ہے۔ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد شریف خود اللہ رب العزت نے بیان کیا ہے۔سورہ توبہ، پارہ نمبر دس، میں اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے- ترجمہ’’ بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے۔ تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے ہیں اور مسلمانوں پر کرم کرنے والے مہربان ہیں ‘‘۔اس آیت ِ مبارکہ میں پہلے اللہ رب العزت نے فرمایا: مسلمانوں تمہارے پاس عظمت والے رسول تشریف لائے، یہاں تو اپنے حبیب پاک صاحب ِ لولاک صلی اللہ علیہ وسلم کی ولادت شریفہ بیان فرمائی، پھر فرمایا: کہ وہ رسول تم میں سے ہیں۔ اس میں اپنے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کا نسب شریف بیان فرمایا، پھر فرمایا: تمہاری بھلائی کے بہت چاہنے والے اور مسلمانوں پر کرم فرمانے والے مہربان ہیں۔ یہاں اپنے محبوبِ پاک صلی اللہ علیہ وسلم کی نعت بیان فرمائی ہے اور میلاد پاک مروجہ میں یہی تین باتیں بیان کی جاتی ہیں۔ پس ثابت ہوا کہ سرکارِ ابد قرار حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا میلاد شریف بیان کرنا سنت ِ الٰہیہ ہے۔ اللہ رب العزت قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: بیشک اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں پر احسان فرمایا کہ ان میں اپنا رسول بھیج دیا- ( سورہ آل عمران) غور کرو کہ اللہ رب العزت نے اپنے حبیب صلی اللہ علیہ وسلم کی آمد کا ذکر کس شان سے کیا اور اسی کا نام میلاد ہے۔
رابطہ۔کریم گنج،پورن پور،پیلی بھیت،یوپی
ای میل۔[email protected]
(مضمون میں ظاہر کی گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طورکشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)