ماہِ شوال المکرم کے فضائل

افتخاراحمدقادری
ماہ شوال المکرم اسلامی دسواں مہینہ ہے۔ اس کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ یہ شول بالفتح سے ماخوذ ہے، جس کا معنیٰ اونٹی کا دم اٹھانا ہے۔ اس مہینے میں بھی عرب لوگ سیر و سیاحت اور شکار کھیلنے کے لئے اپنے گھروں سے باہر چلے جاتے تھے، اس لئے اس کا نام شوال رکھا گیا۔شوال المکرم کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے، جس کو یوم الرحمتہ بھی کہتے ہیں کیونکہ اس دن الله رب العزت اپنے بندوں پر رحمت فرماتا ہے اور اسی روز الله رب العزت نے شہد کی مکھی کو شہد بنانے کا الہام کیا تھا، اسی دن الله رب العزت نے جنت پیدا فرمائی، اسی روز الله تبارک وتعالی نے درخت طوبیٰ پیدا کیا، اسی دن کو الله رب العزت نے سیدنا حضرتِ جبرئیل ؑ کو وحی کے لئے منتخب فرمایا اور اسی دن میں فرعون کے جادوگروں نے توبہ کی تھی۔ (غنیتہ الطالبین، جلد دوم، صفحہ 18)، اسی مہینے کی چوتھی تاریخ کو رحمتہ اللعالمین صلی الله تعالیٰ علیہ وسلم نجران کے نصرانیوں کے ساتھ مباہلہ کے لئے نکلے تھے، اسی ماہ کی سترہ تاریخ کو احد کی لڑائی شروع ہوئی جس میں سید الشہداء حضرت امیر حمزہؓ شہید ہوئے تھے، اور اسی ماہ کی پچیس تاریخ سے آخر ماہ تک جتنے دن ہیں، وہ قوم عاد کے لئے منحوس دن تھے، جن میں الله رب العزت نے قوم عاد کو ہلاک کیاتھا۔ ( عجائب المخلوقات، صفحہ 46)

ماہ شوال المکرم کو شہر الفطر بھی کہتے ہیں۔اس کی پہلی تاریخ کو عید الفطر ہوتی ہے ،جس میں الله رب العزت اپنے بندوں کو بخشش کا مژدہ سناتا ہے۔ حدیثِ پاک میں ہے:جب عید الفطر کا دن آتا ہے تو الله تعالیٰ اپنے بندوں سے فرشتوں پر فخر فرماتا ہے۔ پس فرماتا ہے کہ اُس مزدور کی کیا مزدوری ہے جس نے اپنا کام پورا کیا ہو، فرشتے عرض کرتے ہیں کہ اس کی جزاء یہ ہے کہ اسے پورا اجر دیا جائے۔ الله تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے۔ اے میرے فرشتو! میرے بندوں نے میرے اس فریضے کو ادا کردیا ہے، پھر وہ عید گاہ کی طرف نکلے دعا کے لئے پکارتے ہوئے اور میں ان کی دعا قبول کروں گا۔ پس فرماتا ہے۔’’اے میرے بندو! لوٹ جاؤ میں نے تمہیں بخش دیااور تمہاری بدیاں نیکیوں سے بدل دیں۔ حضورِ اقدس صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ لوگ اس حال میں واپس لوٹتے ہیں کہ ان کی بخشش ہوچکی ہوتی ہے۔ ( مشکوٰۃ شریف، صفحہ 183)ماہ شوال المکرم میں چھ دن روزے رکھنا بڑا ثواب ہے، جب مسلمان نے ماہ رمضان المبارک اورچھ دن ماہ شوال المکرم کے روزے رکھے تو اس نے گویا سارے سال کے روزے رکھے، یعنی پورے سال کے روزوں کا ثواب ملتا ہے۔

حضرتِ ابو ایوب انصاریؓ سے روایت ہے کہ حضورِ اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ’’جس آدمی نے رمضان المبارک کے روزے رکھے اور پھر ان کے ساتھ چھ روزے شوال کے ملائے تو اس نے گویا تمام عمر روزے رکھے۔‘‘ ( مشکوٰۃ شریف، صفحہ 178)یہ تمام عمر والا مسئلہ اس وقت ہے جب کہ وہ شوال المکرم کے چھ روزے تمام عمر رکھے۔ اور اگر اس نے صرف ایک ہی سال یہ روزے رکھے تو سال کے روزوں کا ثواب ملے گا، پھر یہ چھ روزے اکٹھے رکھے یا الگ الگ ہر طرح جائز ہیں مگر بہتر یہ ہے کہ ان کو متفرق طور پر رکھا جائے۔( مشکوٰۃ شریف، صفحہ 179)

[email protected]