ماہِ رمضان المبارک اور نزولِ قرآن کریم

خورشید عالم داؤد قاسمی
رمضان المبارک کو مہینوں کا سردار کہا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس پورے مہینہ کا روزہ مسلمانوں پر فرض کیا ہے۔ اس مہینہ کی اہمیت کو یوں سمجھا جاسکتا ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم رجب سے ہی رمضان المبارک میں پہنچنے کی دعا شروع کردیتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے: ’’اے اللہ! ہمارے لیےرجب وشعبان کے مہینوں میں برکت عطا فرمائے اور ہمیں رمضان کے مہینہ تک پہنچائے‘‘۔(شعب الایمان: 3534) رمضان کےتعلق سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ارشاد فرماتے ہیں۔’’میری اُمت رمضان کے حوالے پانچ ایسی چیزوں سے نوازی گئی ہے کہ مجھ سے پہلے کسی نبی کو وہ چیزیں نہیں دی گئیں۔ ۱۔ جب رمضان کی پہلی رات آتی ہے، اللہ تعالیٰ اس امت کی طرف دیکھتے ہیں اور اللہ تعالی جن کی طرف دیکھ لیتے ہیں، اُن کو کبھی بھی عذاب نہیں دیتے۔۲۔ افطار کے وقت روزہ داروں کے منھ کی خوشبو، اللہ تعالی ٰکو مشک کی خوشبو سے بھی زیادہ پسندیدہ ہے۔۳۔ فرشتے ان کے لیے دن ورات استغفار کرتے ہیں۔۴۔ اللہ عز وجل اپنی جنت کو حکم کرتے ہوئے فرماتے ہیں۔’’ میرے بندوں کے لیے تزئین کرلو اورتیار ہوجاؤ‘‘۔۵۔جب رمضان کی آخری رات ہوتی ہے، تو اللہ تعالیٰ ان سب کو معاف فرمادیتے ہیں۔ (شعب الایمان: 3331)

قرآن کریم اسی ماہ مبارک میں نازل ہوا۔ فرمان خداوندی ہے۔’’رمضان کا مہینہ وہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گيا‘‘ (سورۃ بقرہ)۔ قرآن کریم ماہ رمضان کی ایک خاص رات میں نازل ہوا۔ اس مبارک رات کو، ہم ’’لیلۃ القدر‘‘ یا شب قدر کہتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔’’بے شک ہم نے اس ’قرآن ‘کو شبِ قدر میں نازل کیا‘‘ (سورۃ القدر)۔ قرآن کریم کا ماہ رمضان میں، لیلۃ القدر میں نازل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ’’لوح محفوظ‘‘ سے آسمان اول پر، ’’بیت العزت‘‘ میں بیک وقت شب قدر میں اُتارا۔ پھراللہ تعالیٰ نے بیت العزت سے ضرورت کے مطابق 23 سال میں، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک حضرت جبریل ؑ کے معرفت بھیجا۔

مفسر عماد الدین ابوالفداء اسماعیل بن عمر بصری لکھتے ہیں۔’’ابن عباس وغیرہ ؓ فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے پورا قرآن شریف ’’لوح محفوظ‘‘ سے آسمان دنیا پر ’’بیت العزت‘‘ میں یکبارگی (شب قدر میں)  نازل فرمایا۔ پھر واقعات کے مطابق تفصیل وار 23 سال میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر (تھوڑا تھوڑا)نازل ہوا‘‘۔  (تفسیر ابن کثیر 8/441)۔مذکورہ قرآنی آیات سے ثابت ہوا کہ قرآن کریم کا رمضان میں نازل ہونا ایک حقیقت ہے۔ رمضان سے قرآن کریم کا تعلق بہت گہرا ہے۔ ہمیں رمضان کے اوقات وساعات کی قدر کرتے ہوئے، روزہ کے ساتھ ساتھ تلاوت قرآن کریم میں مصروف رہنا چاہیے۔ رمضان اور قرآن ایک دوسرے سے اس طرح مربوط ہیں کہ یہ دونوں قیامت کے دن روزہ رکھنے والوں اور تلاوت کرنے والوں کے حق میں سفارش بھی کریں گے۔ حدیث شریف میں ہے:   ’’روزہ اور قرآن قیامت کے دن روزہ رکھنے والے اور تلاوت کرنے والے کےحق میںسفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا:  اے میرے پروردگار! میں نے اس شخص کو دن میں کھانے پینے سے روک دیا تھا، لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول فرمالیں!  قرآن کریم کہے گا: اے میرے ربّ! میں نے رات میں اس کو سونے سے روک دیا تھا، لہٰذا اس کے حق میں میری سفارش قبول کرلیں! پھر ان دونوں کی سفارشیں قبول کرلی جائیں گی‘‘۔(حلیۃ الأولياء وطبقات الأصفياء 8 / 161) 

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ رمضان المبارک کے مہینہ میں اپنا وقت زیادہ تر قرآن کریم میں تدبر وتفکر اور اس کی تلاوت وقرأت میں گزاریں۔ یہ عمل جہاں ان کو رمضان جیسے مبارک مہینہ میں ادھر ادھر کی لغو اور لایعنی باتوں سے محفوظ رکھے گا، وہیں اس عمل سے اس کی آخرت بھی سدھرے گی اور من جانب اللہ بڑااجر و ثواب بھی ملے گا۔  اللہ تعالیٰ نے ہمارے اسلاف واکابر کو اس حوالے توفیق دی اور وہ رمضان المبارک میں سارے مشاغل سے دور رہ کر، اپنے اکثر اوقات قرآن کریم کی تلاوت میں ہی صرف کرتے تھے۔

حضرت نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی یہ معمول تھا کہ آپ رمضان المبارک میں حضرت جبریلؑ کے ساتھ قرآن کریم کا دَورکیا کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن عباس ؓ رمضان میں، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سخاوت وغم خواری اورحضرت جبرئیل ؑ کے ساتھ قرآن کریم کے دور کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خیر کے معاملہ میں لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور آپؐ کی سخاوت اس وقت رمضان میں اور زیادہ بڑھ جاتی تھی، جب جبرئیل ؑ آپؐ سے ملتے۔ جبرئیل  ؑآپ صلی اللہ علیہ وسلم سے رمضان شریف کی ہر رات میں ملتے،تا آں کہ رمضان ختم ہوجاتا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم جبرئیل ؑ سے قرآن کا دور کرتے تھے۔ جب جبرئیل ؑ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے ملنے لگتے، تو آپؐ چلتی ہوا سے بھی زیادہ بھلائی پہنچانے میں سخی ہو جایا کرتے تھے‘‘۔ (صحیح بخاری: 1902) اس حدیث سے یہ بات سمجھ میں آتی ہے کہ رمضان کے مہینہ میں جہاں ہمیں قرآن کریم کی تلاوت کرنی چاہیے، وہیں ہمیں صدقات وخیرات میں سخاوت سے کام لینا چاہیے۔

حضرت امام ابو حنیفہؒ کی شخصیت عوام وخواص میں جانی پہچانی ہے۔ امام صاحب کے بارے میں علی بن زید صیدانی بیان کرتے ہیں کہ وہ رمضان میں ساٹھ قرآن ختم کرتے تھے، ایک ختم دن میں اور ایک ختم رات میں۔ (التدوين في أخبار قزوين 2 / 332)حضرت امام مالکؒ کے بارے میں ابن عبد الحکیم فرماتے ہیں: ’’جب رمضان کا مہینہ آتا تو امام مالکؒ حدیث کی تدریس اور اہل علم کی مجلسوں سے دور رہتے اورپوری دل چسپی سے قرآن کریم دیکھ کر تلاوت کرتے‘‘۔ (لطائف المعارف لابن رجب 1/ 171)

حضرت امام شافعی ؒ شروع میں طلب علم میں مشغولیت کی وجہ سے قرآن کی تلاوت کم کرتے تھے۔ پھر آخر عمر میں بہت زیادہ تلاوت کرتے تھے۔ ربیع آپ کے بارے میں فرماتے ہیں: ’’آپ ہر رات ایک قرآن ختم کرتے تھے۔ ماہ رمضان میں آپ ساٹھ قرآن ختم کرتے تھے‘‘۔ (المنتظم في تاريخ الأمم والملوك 10 / 135)

حضرت سفیان ثوریؒ کے بارے میں عبد الرزاق فرماتے ہیں : ’’جب رمضان آتا تو سفیان ثوریؒ (نفلی) عبادتوں کو چھوڑ دیتے اور پوری دل چسپی کے ساتھ قرآن کریم کی تلاوت کرتے۔‘‘ (لطائف المعارف لابن رجب 1/ 171)ولید بن عبد الملک بنو امیہ کے نامود اور مشہور خلیفہ تھے۔ آپ کے بارے میں ابراہیم بن ابو عبلہ فرماتے ہیں کہ مجھ سے انہوں نے ایک دن پوچھا: ’’کتنے دن میں قرآن ختم کرتے ہو؟ میں نے جواب دیا ،اتنے اتنے دنوں میں۔ پھر وہ بولے: امیر المومنین مشغول ہونے کے باوجود تین دن میں ایک قرآن ختم کرتا ہے۔ وہ ماہ رمضان میں سترہ قرآن ختم کرتے تھے‘‘۔ (البدايۃ والنہايۃ 9 / 182)امام محمد بن اسماعیل بن ابراہیم بخاری ؒ کے رمضان کا معمول بیان کرتے ہوئے ابن حجر عسقلانی فرماتے ہیں: جب ماہ رمضان کی پہلی رات آتی تو امام بخاری اپنے ساتھیوں کو جمع کرتے۔ آپ ان کی امامت کرتے اور ہر رکعت میں بیس آیتوں کی تلاوت کرتے۔ یہی آپ کا معمول رہتا، تا آں کہ آپ قرآن مکمل کرتےاور آپ سحری کے وقت تک نصف سے ثلث قرآن کے درمیان تک پڑھتے۔ چنانچہ ہر تیسری رات کو سحری کے وقت ایک قرآن ختم کرتے۔ آپ دن میں ہر روز ایک قرآن ختم کرتے۔ (فتح الباری 1/ 481)امام بغوی زہیر محمد بن قمیر کے بارے میں فرماتے ہیں: امام احمد بن حنبل کے بعد، اُن (زہیر محمد بن قمیر) سے بہتر کسی شخص کو نہیں دیکھا۔ وہ رمضان میں نوے قرآن کریم ختم کرتے تھے۔ (العبر في خبر من غبر 1 / 369)

حضرت مولانا محمد منظور صاحب نعمانی  ؒ(1905 – 1998) حضرت علامہ محمد انور شاہ کشمیری ؒ (1875 – 1933) کا رمضان میں قرآن کریم میں تدبر وتفکر کے حوالے سے رقم طراز ہیں:  “علم کی گہرائی اور دقت نظر کا کچھ اندازہ اس سے بھی کیا جاسکتا ہےکہ حضرت نے اپنا یہ حال خود ایک دفعہ بیان فرمایا کہ ‘میں رمضان مبارک میں، قرآن مجید شروع کرتا ہوں اور تدبّر وتفکّر کے ساتھ اس کو پورا کرنا چاہتا ہوں، لیکن کبھی پورا نہیں ہوتا۔ جب دیکھتا ہوں کہ آج رمضان المبارک ختم ہونے والا ہے تو پھر اپنے خاص طرز کو چھوڑ کر، جو کچھ باقی ہوتا ہے، اس دن ختم کرکے دور پورا کرلیتا ہوں‘‘۔ یہ عاجز (حضرت نعمانی) عرض کرتا ہے کہ رمضان المبارک میں کبھی حضرت کے قریب رہنے کا اتفاق تو نہیں ہوا، لیکن یہ معلوم ہے کہ آپ ’’انزل فیہ القرآن‘‘ والے اس مبارک مہینہ میں، زیادہ وقت قرآن مجید ہی کی تلاوت اور تدبر وتفکر پر صرف فرماتے تھے۔ اس کے باوجود قرآن کریم ختم نہیں کرپاتے تھے‘‘۔ (عبد الرحمن کوندو، الانور، ص: 307)

مذکورہ بالا اقتباسات سے ہم آسانی سے سمجھ سکتے ہیں کہ ہمارے اسلاف واکابر اس حقیقت سے واقف تھے کہ قرآن کی تلاوت اللہ پاک کو بہت پسند ہے۔ قرآن کریم کی تلاوت اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کے حصول کا ذریعہ ہے۔ہمیں بھی قرآن کریم کی تلاوت کو شب وروز کا معمول بنانا چاہیے۔ خاص کر رمضان المبارک کے مہینے میں۔ اگر ایک شخص ساری نفلی عبادتوں کو چھوڑ دے، صرف تلاوت قرآن کریم میں مشغول ر ہے تو اللہ پاک اس کی ساری مرادیں پوری فرمائیں گے۔ تلاوت قرآن میں مشغولیت کی وجہ سے دعا بھی نہیں مانگ سکا تو اللہ تعالیٰ اس شخص کو وہ چیزیں بھی عطا فرمائیں گے، جو مانگنے سے رہ گئی ہیں۔ 

رمضان کے مبارک مہینہ میں، اکابر واسلاف اور علماء وصلحا کا قرآن کریم میں تدبر وتفکر اور قرات وتلاوت کا جو نقشہ اوپر پیش کیا ہے، وہ قرآن کریم کے ساتھ ان کی دل چسپی، شغف اور محبت وعقیدت کا بین ثبوت ہے۔ ہمیں بھی خود کو قرآن کریم کے حوالے سے کچھ اُسی طرح کی جد وجہد اور سعی کوشش کرنی چاہیے۔ جب ہم خود کو اس پاک ذات کے کلام کے ساتھ مشغول رکھیں گے، اس کے ساتھ محبت کا اظہار کریں گے، تو وہ پاک ذات بھی ہمیں پسند کرے گی اور ہماری دنیا وآخرت سنور جائے گی۔

[email protected]