غازی پرے
دنیا میں ایک ایسا رشتہ ہے ۔جس کا کوئی نعم البدل نہیں ہے۔ماں کہنے کو تو تین الفاظ کا مجموعہ ہے لیکن حقیقت میں پوری کائنات ان کے اندر سمیٹے ہوئے ہیں ۔ماں خدا کی محبت کا دنیا میں ایک روپ ہے۔ ماں کے عظیم رشتے کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے ماں کے چہرے کی طرف حسرت و محبت بھری نگاہوں سے دیکھنے کو عبادت بنایا ہوا ہے۔قران کریم سے لیکر احادیث مبارکہ تک جگہ جگہ ماں کے متعلق اور باپ سے متعلق فرمان ملتے ہیں ۔ان کی خدمت کو عین عبادت کہا گیا ہے ۔لیکن غفلت انسان کی سب سے بڑی بیماری ہے۔رسول رحمت صلی اللہ و علیہ وصلم نے فرمایا ہے کہ ماں کے قدموں تلے جنت ہے۔
موسیٰ علیہ سلام کی والدہ محترمہ فوت ہوئی تو ایک دن اللہ تعالی کے ساتھ ملاقات کے لئے جارہے تھےکہ راستے میں انہیں ٹھوکر لگی۔ ابھی گرنے ہی کو تھے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ندا آئی ، اے موسیٰ سنبھل کر چلیے ،اب تمہارے ساتھ ماں کی دعائیں نہ رہی۔الغرض ہر مقدس کتاب میں ماں کی عظمت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔
ماں کی محبت و الفت و شفقت شاید ہی دنیا کے اندر کسی اور چیز میں ملے ،ایسا ممکن نہیں ۔یہ ماں ہی ہے، جس میں یہ capabilityموجود ہوتی ہےکہ وہ اپنی اولاد کو جوانی کی دہلیز پر پہنچنے کے بعد بھی اپنے اولاد کو بچہ ہی سمجھتی ہے۔وہ کبھی اپنے بزرگ ہوئے اولاد کو بھی بچہ ہی تصور کرتی ہےاور اس سے بچوں کی طرح ہی پیار و محبت کرتی ہے۔
اپنے اولاد کے ہر غم و خوشی کو اپنا غم اور خوشی تصور کرتی ہے۔یہ ناخن اور گوشت کا رشتہ ہوتا ہے، اگر ناخن کو کریدنے کی کوشش کی جائے تو گوشت کو درد ہوگا۔
دنیا میں شاید ہی کوئی رشتہ ماں جیسا ہوگا۔یہ صرف ماں اور باپ کا رشتہ ہوتا ہے جس میں شفقت و الفت کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے ۔یہ شفقت صرف ماں کی آغوش میں ملتی ہے ۔جب کہ اللہ تعالی کا ارشاد ہے کہ ستر مائوں سے زیادہ شفقت اپنے بندے سے ہے۔یہاں بھی ماں کا ہی حوالہ دیا گیا ہےاور یہ حقیقت بھی ہے کہ اللہ تعالی کروڑوں لوگوں کو صبح بھوکا اُٹھاتا ہے لیکن شام کو کسی کوبھی بھوکا نہیں سُلاتا۔
ماں کی محبت اولاد کے اندر بھی کوٹ کوٹ کر بھری ہوتی ہے ۔اس میں بھی کوئی شک و شبہ نہیں ۔لیکن یہ پائیدار رشتہ تب ناپائیدار ثابت ہوتا ہے جب ماں یہ دنیا چھوڑ کر چلی جاتی ہے اور اولاد سر پکڑ کر رونے اور گڑگڑانے پر مجبور ہوتا ہے ۔یوں ماں اولاد کو چھوڑ کر اپنے خالق حقیقی سے جاملتی ہے ۔اولاد کے لئے یہ غم انتہاہی پریشان کن اور نہایت تکلف دہ ثابت ہوتا ہے ۔دنیا میں شاید ہی اس سے بڑا کوئی غم ہوسکتا ہے۔
اولاد ماں کے انتقال پر سمجھتا ہے کہ ہربات مجھ سے کہا کرتی تھی ۔ہر مشورہ مجھ سے کرتی تھی۔لیکن جب دنیا چھوڑنا تھا ۔ مجھے آگاہ کیوں نہیں کیا ۔لیکن حقیقت میں یہ سب اللہ تعالیٰ کے دست قدرت میں ہی ہوتا ہے ۔لیکن اللہ تعالیٰ کی محبت کا اس وقت پتا چلتا ہے کہ جب مہربان ماں کی وفات ہوتی ہے ۔ تو اللہ تعالیٰ ہی اولاد کو تھام لیتا ہے اور انہیں صبر و استقامت عطا فرماتا ہےاور یوں یہ دنیا آگے بڑھتی چلی جارہی ہے۔
راقم کی والدہ محترمہ گزشتہ ماہ رمضان مبارک میں انتقال کرچکی ہے ۔ان کے احسانات و شفقت کا کوئی شمار نہیں ۔آج انکی کمی و محرومی سے دلبرداشتہ ہوں ۔ دنیا اُجڑی سی دکھائی دے رہی ہے۔ ان کی یاد میں یہ مضمون ارسال کررہا ہوں ، اس شعر کے ساتھ ؎
آسمان تیری لحد پر شبنم آفشانی کرے
سبزہ نورستہ اس گھر کی نگہبانی کرے
(لاسی پورہ کھاگ ۔رابطہ 8491866634)