ڈاکٹر عبدالباسط نائک
عصر حاضر میں خواتین کی ترقی و بااختیاری نہایت اہمیت اختیار کر گئی ہے۔ عالمی سطح پرحکومتیں وپالیسی ساز ادارے سماج میں صنفی مساوات کو فروغ دینے اور عورتوں کے خلاف ہونے والے جرائم و بڑھتے مسائل کو ختم کرنے کی جانب سنجیدہ کو ششیں کر نے لگے ہیں۔اس حقیقت کو سب ہی قبول کرنے لگے ہیں کہ سماجی تبدیلی اور خواتین کے مسائل کا حل تعلیم میں ہی مضمر ہے۔ لہٰذاء اس حوالے سے ہندوستان میں بھی تعلیم نسواں کی اہمیت اور افادیت میں جہاں اضافہ ہورہا ہے وہیں خواتین کی بااختیاری اورسماج میں صنفی مساوات کے فروغ کے لیے جدید مضمون ’’ مطالعاتِ نسواں (Women’s Studies) میں اعلیٰ تعلیم اور تحقیق کے رجحان میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو نے لگا ہے۔شعبہ یا سنٹر برائے مطالعاتِ نسواں یا تعلیمِ نسواں کے نام سے ملک کی مختلف یو نی ورسٹیوں میں کورس پڑھایا جا رہا ہے۔ صنفی عدم مساوات کو ختم کرنے اور سماج میں خواتین کے مقام ومرتبہ کو بہتر بنانے میں یہ کورس بڑی حد تک حد معاون ثابت ہورہا ہے۔ بلکہ کہا جاسکتا ہے کہ یونی ورسٹیز میں اس شعبہ کا قیام آج کی ضرورت بن چکا ہے۔ملک کی اکثر یونیورسٹیوں میں ’’ مطالعات ِ نسواں ‘‘ کا کورس سنٹر یا ڈپارٹمنٹ کے تحت انڈر گریجویٹ اور پوسٹ گریجویٹ کورسز کے علاوہ پی ایچ ڈی میں بھی دستیاب ہے۔ ان یونیورسٹیوں سے فارغ التحصیل طلبہ ملک کے بہت سے اہم تعلیمی و دیگراداروں میں روزگار سے وابستہ ہوئے ہیں ۔قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ ہندوستان کی تمام یو نی ورسٹیز میں یہ کورس انگلش میڈیم کے تحت دستیاب ہے جبکہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی‘ حیدرآباد میں یہ کورس شعبہ تعلیمِ نسواں کے تحت اردو ذریعہ تعلیم میں فراہم کیا جارہاہے۔شعبہ تعلیمِ نسواں سنہ 2004 میں قائم کیا گیا ۔جس کے تحت ’’ مطالعاتِ نسواں ‘‘ میں ایم اے اور پی ایچ ڈی کی تعلیم دی جاتی ہے۔ جبکہ حقیقت یہ ہے کہ اردو میں مضمون مطالعاتِ نسواں کے کورس دستیابی حیدرآباد کے علاوہ دیگر مقامات پر بھی نا گزیر ہے۔ خاص طور پر جموں وکشمیر جہاں اردو لکھنے پڑھنے والوں کی خاصی تعداد موجود ہے اور جہاں خواتین کی تعلیم کا فروغ، ان کی ترقی اور بااختیاری کے متعلق کافی احساس پایا جاتا ہے۔ ایسے علاقے میں شعبہ تعلیم نسواں کا قیام بے حد اہمیت رکھتا ہے۔ اس سلسلے میں مانو کے وائس چانسلر سے اپیل کی جاتی ہے کہ وہ اس جانب توجہ دیں اور کشمیر کے سٹیلائٹ کیمپس میں دیگر مضامین کے شعبوں کے ساتھ ساتھ شعبہ تعلیمِ نسواں بھی قائم کریں۔
جموں و کشمیر میں خواندگی کی شرح حالیہ برسوں میں بڑھ کر 77.30 فیصد ہو گئی ہے لیکن خواتین کی خواندگی کی شرح صرف 68 فیصد ہے جو کہ 70.30 فیصد کی کل ہند سطح سے بھی کم ہے۔جموں و کشمیر میں اگرچہ تعلیم کے معاملے میں صنفی مساوات پر بہت زور دیا جا رہا ہے، لیکن خواتین کی تعلیم وترقی پر آج بھی سماجی وصنفی تصورات اور امتیازی سلوک حاوی ہے۔ خواتین کی تعلیم تک رسائی میں مرد اسا س معاشرہ کی پیدا کردہ بے شمار رکاوٹیں حائل ہیں۔چوں کہ مولانا آزاد نیشنل اردو یونیورسٹی کے قیام کے مقاصد میںایک اہم مقصد خواتین کی تعلیم پر توجہ مرکوز کرنا ہے یہی وجہ ہے کہ یو نی ورسٹی نے خواتین کو بااختیار بنانے کے لیے علاقہ بڈگام( جموں و کشمیر) میں پہلا ویمنس آرٹس و سائنس کالج قائم کیا ہے۔ لہٰذا اس بات کی اشد ضرورت ہے کہ اسی کالج میں شعبہ تسلیم نسواں بھی قائم کیا جائے اور طلبہ کومضمون ’’ مطالعات نسواں‘‘ میں اعلیٰ تعلیم حاصل کر نے کا موقع فراہم کیا جائے بالخصوص خواتین کو بااختیار بنانے کا کام کیا جائے۔ بڈگام میں واقع سیٹلائٹ کیمپس میں اردو، انگریزی، اسلاملک سٹیڈیز اور معاشیات میں پوسٹ گریجویشن اور پی ایچ ڈی، کالج آف ٹیچر ایجوکیشن میں بی ایڈ و ایم ایڈ اور فاصلاتی تعلیم کے تحت مختلف کورسز دستیاب ہیں۔اسی طرح یہ ضروری ہو جاتا ہے کہ یونیورسٹی کے اس سیٹلائٹ کیمپس میں شعبہ تعلیم نسواں کا بھی ہو ۔ چونکہ مطالعات نسواں کورس ہمہ شعبہ جاتی کورس (Multi disciplinary Course) ہے جس میں کسی بھی مضمون سے کامیاب گریجویٹس داخلہ لے سکتے ہیں اسی لیے اس شعبہ کے قیام سے نہ صرف لڑکوں کو اعلیٰ تعلیم حاصل کر نے کا موقع ملے گا بلکہ زیادہ سے زیادہ لڑکیوں کو تعلیم کے حصول اور خود کو با اختیار بنانے کا موقع ملے گا۔
جیسا کہ ہم سب اس امر سے بخوبی واقف ہوئے ہیں کہ کشمیر یونیورسٹی میں سنٹر فار ویمنس اسٹڈیز 2003 سے قائم ہے اوراس سنٹر کے قیام کا مقاصد میں خواتین کی با اختیاری، ان کے اعتماد میں اضافہ، خواتین کی معاشی، سماجی جدوجہد میں ان کی حمایت، ان کو سیاسی اور فکری طور پر بااختیار بنانا اور خواتین میں بیداری پیدا کرنا، ان کے حقوق اور صحت سے متعلق مسائل کو اجاگر کرنا شامل ہے۔ اس سنٹر کے تحت مختلف تحقیقی و شعور بیداری پروگرامز منعقد ہو تے رہے ہیںلیکن جب یونیورسٹی حکام کو یہ ضرورت محسوس ہو ئی کہ مضمون مطالعاتِ نسواں میں ایم اے کا کورس شروع کیا جائے تو انہوں نے سال 2018 سنٹر کے تحت ایم اے کا کورس بھی شروع کیا۔اس شعبے سے آج تک تقریبا پچاس سے زیادہ طلبہ فارغ التحصیل ہوئے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر طالبات کو مختلف این جی اوز نے ملازمت پر رکھا ہے اور ابھی بھی اس شعبے میں پوسٹ گریجویشن کے دو بیچوں کا پہلا اور تیسرا سمسٹر جاری و ساری ہے۔ ہر برس اس کورس میں داخلے کے خواہشمند سینکڑوں طلبہ ہو تے ہیں لیکن محدود نشستوں کی بناء پر تمام کو داخلہ نہیں مل پاتا۔کشمیر یونیورسٹی کے اس شعبے میں داخلے کے لیے ہر سال تقریباً 300 سے زیادہ فارم آتے ہیں لیکن ان کے پاس صرف 25 سیٹیں ہونے کی وجہ طالب علموں کو داخلہ نہیں مل پاتا ہے۔ اس کے علاوہ یہ شعبہ کسی اور جگہ کشمیر میں کام نہیں کر رہا ہے۔اس پس منظر میں مولانا آزاد نیشنل اردو یونی ورسٹی کے جموں وکشمیر سٹیلائٹ کیمپس میں ’’ مطالعات نسواں‘‘ کورس کی شروعات نہایت ضروری معلوم ہوتی ہے۔ اسی لیے یونی ورسٹی کے حکام کو اس جانب توجہ دینے اور جلد از جلد کورس کی شروعات کرنے کی ضرورت ہے۔
[email protected]>