یاسر بشیر
شب قدر کے دو معنی ہے ایک یہ ہے کہ یہ وہ رات ہے جس میں تقدیر لکھی جاتی ہے۔دوسرا معنی ہے کہ یہ بڑی عظمت والی رات ہے۔پہلے معنی کی تائید سورہ دخان میں بھی ہوئی ہے۔پہلے معنی کو کچھ مفسرین نصف شعبان کی رات کو کہتے ہیں اور کچھ مفسرین کہتے ہیں کہ نصف شعبان کی رات کو تقدیر لکھ دی جاتی ہے اور اس رات میں وہ لکھی ہوئی تقدیر فرشتوں کے سپرد کی جاتی ہے۔
شب قدر میں قرآن مجید نازل کیا گیا ہے۔اس رات میں قرآن مجید نازل ہونے کے دو معنی ہوسکتے ہیں۔ایک یہ کہ نزول قرآن کی ابتدا اسی رات میں ہوئی اور دوسرا مطلب ہے کہ اس رات میں پورا قرآن لوح محفوظ سے اتارا گیا۔ یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔حضرت سیدنا ابن عباسؓ کا بیان ہے کہ رسول اکرمؐ کی بارگاہ میں ایک مجاہد جلیل کا تذکرہ ہوا(کچھ محدثین کہتے ہیں یہ اللہ کے ایک نبی تھے)ان کا نام شمعون تھا۔جس نے اللہ کےراستے میں ہزار مہینے تک مسلسل جہاد کیا تھاتو، رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو اس پر تعجب ہوا۔آپؐ نے اپنی امت کے لئے بھی اس خیر کثیر کی تمنا فرمائی اور خدائے کریم کی بارگاہ میں عرض کیا کہ یا اللہ تو نے میری اُمت کو بہت مختصر عمر عطا کی ہےاور اس کے اعمال بھی دوسری اُمتوں کے بہ نسبت کم فرمائے ہیں۔تو ایسا نہ ہو کہ یہ امت اپنی عمر کو تاہ کے باعث اس تعادت عظمیٰ سے محروم رہ جائے،جس کے حصول و اکتساب کے لئے عمر دراز کی حاجت ہوا کرتی ہے۔اسی دعا کے صدقے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اور آپؐ کی امت کو اس یگانہ بے ہمتا نے ایک ایسی جلیل القدر نعمت سے سرفراز فرمایا ،جس کی اگلی امتوں میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔حضرت ابن عباس فرماتے ہیں:اللہ تعالیٰ نے آپؐ کو شب قدر عطا فرمائی جو ہزار مہینے کی عبادت اور اس جہاد سے افضل ہے جو اسرائیلی مجاہد نے خدا کے راستے میں کیا تھا۔تو یہ عظیم رات اس امت کے خصائص سے ہے۔
شب قدر کا تعین نہ کہیںقرآن مجید میں ہے اور نہ ہی نبی اکرمؐ نے اس کا تعین فرمایا۔اس کے تعین نہ ہونے میں بھی ایک حکمت ہے۔اس کے متعلق چالیس مختلف اقوال آئی ہیں۔مگر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوں میں اس بابرکت رات کو تلاش کرنے کی تلقین فرمائی ہے۔صحیح بخاری میں حضرت عائشہ صدیقہ ؓ کی روایت ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا”شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ میں تلاش کرو”۔اور صحیح مسلم میں حضرت ابن عمرؓ کی روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا’’شب قدر کو رمضان کے عشرہ اخیر کی طاق راتوں میں طلب کرو‘‘۔
لیلتہ القدر کے تاریخ کے بارے میں صحابہؓ کو خواب بھی دکھائیے گئےہیں۔حضرت عبداللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ’’نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے کئی صحابہ کو خواب دیکھایا گیا ہے کہ لیلتہ القدر رمضان کی آخری سات تاریخوں میں ہے۔جب یہ بات رسول اللہؐ کی خدمت میں عرض کی گئی تو آپؐ نے فرمایا:میں دیکھ رہا ہوں کہ تم لوگوں کے خواب رمضان کے آخری سات دنوں کے بارے میں متفق ہوگئے ہیں۔پس اب جو شخص لیلتہ القدر کی تلاش کرے تو وہ رمضان کی آخری سات تاریخوں میں تلاش کرے۔(متفق علیة) اس حدیث کی تشریح میں مولانا سید مودودی ؒ کہتے ہیں کہ ’’یہاں یہ بات سمجھ لینی چاہئے کی جو متعدد احادیث ایک دوسرے سے مختلف آئی ہیں، ان کے اختلاف کی ایک وجہ یہ بھی ہوسکتی ہے کہ کوئی حدیث زمانی اعتبار سے پہلے کی ہو اور کوئی بعد کی‘‘۔(تفہیم الاحادیث جلد چہارم)
کچھ روایات میں آیا ہے کہ اس رات کا علم نبی اکرم صل اللہ علیہ وسلم کو دیا گیا تھا اور پھر وہ اُن سے واپس لیا گیا ہے۔حضرت عبادہ بن صامتؓ سے روایت ہے کہ’’ایک مرتبہ نبی کریم ؐ مسجد نبوی سے(یا اپنے خانہ مبارک)سے نکلے تاکہ ہمیں لیلتہ القدر کی خبر دیں۔اتنے میں دو مسلمان آپس میں جھگڑنے لگے،اس پر آپؐ نے ہم سے فرمایا کہ’’ میں تو تمہیں لیلتہ القدر کی خبر دینے نکلا تھا مگر فلاں اور فلاں آپس میں جھگڑ پڑے اور اس دوران میں اُٹھالی گئی(اس کا علم مجھ سے رفع کر لیا گیا)شاید تمہاری بھلائی اسی میں تھی۔لہٰذا اب تم اسے اکیسویں یا تیئیسویں یا پچیسویں رات کو تلاش کرو۔‘‘
ایک روایت میں یہ بھی آیا ہے کہ لیلتہ القدر رمضان کی ستائیسویں شب کو ہوتی ہے۔حضرت زِرِّ بن حُبشؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’میں نے ایک مرتبہ حضرت ابی بن کعبؓ سے پوچھا کہ آپ کے بھائی حضرت ابن مسعودؓ تو کہتے ہیں کہ جو شخص سال بھر(راتوں کو)قیام کرے گا، وہ لیلتہ القدر کو پالے گا(آپ کا کیا خیال ہے؟یعنی انہوں نے تو رمضان تک کا ذکر چھوڑ دیا ہے کجا کہ وہ رمضان کے آخری عشرے کا ذکر کرتے)۔حضرت ابی بن کعبؓ نے جواب دیا۔عبداللہ بن مسعودؓ پر اللہ کی رحمت ہو ،ان کی مراد اصل یہ تھی کہ لوگ ایک خاص تاریخ یا خاص زمانے پر بھروسہ نہ کرلیں(اور سال بھر کی راتوں کی عبادت سے غافل نہ ہوجائیں)ورنہ انہیں معلوم تو تھا کہ لیلتہ القدر رمضان میں ہے،اور انہیں یہ بھی معلوم تھا کہ وہ رمضان کی آخری دس تاریخوں میں ہے،اور یہ بھی کہ وہ رمضان کی ستائیسویں تاریخ ہے۔پس میں نے پوچھا کہ اے ابو منذر (حضرت ابی بن کعب کی کنیت)آپ یہ بات کس بناء پر کہہ رہے ہیں؟انہوں نے جواب دیا:ایک علامت یا نشانی کی بنا پر کہہ رہا ہوں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں بتائی تھی اور وہ نشانی یہ ہے کہ اس روز جو سورج نکلے گا تو اس میں شعاع نہیں ہوگی۔‘‘(مسلم)
مگر حضور اکرم ؐ کا معمول تھا کہ اس رات کو رمضان کے اخیر عشرہ کی طاق راتوںط میں تلاش فرماتے ۔اور اسی لئے اس پورے عشرہ اعتکاف بھی فرماتے تھے۔ اس رات کی بہت ہی فضیلت آئی ہے۔اس رات کی فضیلت میں قرآن کی میں ایک مکمل سورت موجود ہے۔یہ رات ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔(القرآن)
حدیث شریف کا مفہوم ہے کہ نبی اکرمؐ نے فرمایا ’’جس شخص نے ایمان کے ساتھ ثواب کی نیت سےشب قدر میں قیام کیا(اللہ کی عبادت کی) اس کے پچھلے گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔(بخاری و مسلم) اس حدیث کی تشریح میں حافظ صلاح الدین یوسف لکھتے ہیں کہ ’’قیام کا مطلب ہے اس رات کو اپنی طاقت کے مطابق جاگ کر اللہ کی عبادت کی،نوافل پڑھے،توبہ و استغفار اور دعا مناجات کی۔بالخصوص عشاء اور فجر کی نماز باجماعت ادا کی،تو اُمید ہے کہ اس سے انسان کو اس کی فضیلت حاصل ہوجائیے گی‘‘۔
اس رات کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہمیں ایک دعا سکھائی” اللھم انک عفو تحب العفو فاعف عنی” ۔اس رات کو یہ دعا کثرت سے کرنی چاہئے۔
اللہ سے دعا ہے کہ ہمیں اس تک پہنچا اور ہمیں اس کی برکت و فضیلت سے ہمکنار فرمائیں۔آمین
(ایسو شانگس اسلام آباد رابطہ۔ 9149897428)