انکور ڈوگرہ
نیشنل ہائی وے اتھارٹی آف انڈیا کی جانب سے کام کرنے والی متعلقہ کمپنیوں کی ناقص منصوبہ بندی اور نااہلی سے عملدرآمد کے باعث بار بار لینڈ سلائیڈنگ سے ہونے والے نقصان کو پورا کرنے میں ٹیکس دہندگان کے لاکھوں روپے ضائع ہو چکے ہیں۔جموں و کشمیر میں نوکر شاہی گہری نیند میںہے اور پہاڑی ماحول میں ہونے والی ان تباہ کن تبدیلیوں سے لاتعلق ہیں۔ لوگ بنیادی ڈھانچے کی ترقی کے خلاف نہیں ہیں لیکن لوگوں کی جانوں کی قیمت پر ترقی کوئی ترقی نہیں ہے۔
جموں و کشمیر کا ضلع رام بن مکمل طور پر پہاڑی ہے، جس میں سے زیادہ تر دریائے چناب اور اس کی معاون ندیوں کے ذریعے مستقل کٹاؤ کے نتیجہ میں وجود میں آیا ہے ۔ پہاڑی ماحول حساس ماحولیاتی نظاموں اور انتہائی موسمی واقعات اور قدرتی آفات کے بڑھتے ہوئے واقعات کی خصوصیت رکھتے ہیں۔ پہاڑی ماحول کی سب سے نمایاں خصوصیات میں سے ایک ان کی ڈھلانی ٹوپوگرافی ہے۔ پہاڑ اکثر آس پاس کے نشیبی علاقوں سے اچانک اٹھتے ہیں، ڈرامائی مناظر بناتے ہیں اور تفریحی سرگرمیوں کے مواقع فراہم کرتے ہیں۔ تاہم، ہمالیہ کے پہاڑوں کی کھڑی ڈھلوانیں اور نازک حالت خاص طور پر ضلع رام بن میں انسانی رہائش، معاش، ترقی، اور خستہ حال سڑکوں سے روزانہ گزرنے والے لوگوں کے لئے کئی چیلنجز کا سامناساتھ لاتے ہیں۔ اس میں زیادہ کٹاؤ، لینڈ سلائیڈنگ، اور بنیادی ڈھانچے کی تعمیر میں دشواری شامل ہے۔
پچھلی دہائی میںجموں وکشمیر کے ہمالیائی سلسلے میں سڑک کی تعمیر کی شکل میں اقتصادی توسیع نے پہاڑی ماحول پر نمایاں اثر ڈالا ہے۔رام بن ضلع میں نیشنل ہائی وے 44 فور لین پروجیکٹ کی تعمیر بڑے پیمانے پر آفات اور حادثات کی وجہ بن گئی ہے۔ علم اور منصوبہ بندی کے فقدان کی وجہ سے قومی شاہرا ہ چار لین پروجیکٹ غیر مستحکم ڈھلوانوں پر تعمیر کیا گیا ہے جس کے نتیجے میں بار بار لینڈ سلائیڈنگ ہوتی ہے جس نے ناشری ٹنل اور بانہال ٹاؤن کے درمیان کئی مقامات پرخطرات کو دوگنا کردیا ہے۔
یقینی طور پر نیشنل اتھارٹی آف انڈیا (NHAI) کی جانب سے تذویراتی طور اہم چار لین سڑک کی تعمیر کے عمل میں فوری اور غیر پائیدار طریقوں کے نتیجے میں، خاص طور پر، پچھلے 5 سال میں کئی مقامات پر خطرناک لینڈ سلائیڈنگ، پتھر گرنے اور زمین کے دھنسنے کے واقعات رونما ہوئے ہیں۔ ایسے پہاڑی ماحول میں رہنا اور گزرنا لوگوں کے لئے خوفناک ہو گیا ہے کیونکہ روزمرہ کی بنیاد پر متعدد خطرات شامل ہیں۔یہ خطہ قومی شاہراہ کے ساتھ خاص طور پر کیفے ٹیریا موڑ، رام بن ٹاؤن کے قریب ڈھلوانوں کی غیر سائنسی کٹائی کی وجہ سے نازک ہو گیا ہے اور ایک عام نتیجہ کے طور پر بار بار لینڈ سلائیڈنگ اورقومی شاہراہ کی بندش اور پتھروں کے گرنے سے جان اور املاک کو خطرہ لاحق ہے۔
مزید برآں اس پورے علاقے میں نیشنل اتھارٹی آف انڈیاکے ذریعے قومی شاہراہ۔44 فور لین کی غیر سائنسی اور غیر منصوبہ بند تعمیر نے ضلع رام بن اور سابقہ جموں و کشمیر میں رہنے والے لوگوں کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔ دفاعی عملے، ٹرک اور کمرشل ڈرائیوروں اور اس خطے سے گزرنے والے قومی اور بین الاقوامی سیاحوں کیلئے یہ اور بھی مشکل ہو گیا ہے۔
حفاظتی اقدامات کی عدم موجودگی میں بار بار ہونے والے حادثات کئی دیہاتوں کی تباہی کا باعث بنی ہے جس میں ایک واقعہ بھی شامل ہے جس کا ذکر میرے مضمون’’The Plight of Dalwas‘‘(گریٹرکشمیر،10 اگست 2020) میں کیا گیا ہے، جس میں 400 کنال زرعی اراضی اور تقریباً 40 مکانات تباہ ہو گئے۔
واقعے کے تین سال گزر جانے کے باوجود یہ متاثرین تاحال معاوضے کے منتظر ہیں۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گلوبل وارمنگ موسمیاتی تبدیلیوں، زیادہ بارشوں اور گلیشیروںکے پگھلنے سے زیادہ خطرہ لاحق ہے۔ لیکن آفات خالصتاً قدرتی واقعات کا نتیجہ نہیں ہوتیں، بلکہ اردگرد کے سماجی، سیاسی اور معاشی تناظر میں انسانی مداخلت کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں۔ مثال کے طور پر قومی شاہراہ-44 کے ساتھ ساتھ ہلاکتوں اور نقصانات میں اضافہ ہو رہا ہے، جہاں سڑک کے بنیادی ڈھانچے کو تیار کرنے کیلئے خاص طور پر پُر خطر مقامات پر غیر پائیدار طریقے استعمال کیے جاتے ہیں۔
نیشنل اتھارٹی آف انڈیاکی جانب سے سبلیٹ بنیادوں پر مصروف متعلقہ کمپنیوں کی جانب سے ناقص منصوبہ بندی اور نااہلی سے عمل درآمد کی وجہ سے بار بار لینڈ سلائیڈنگ سے ہونے والے نقصان کی تلافی میں ٹیکس دہندگان کے لاکھوں روپے ضائع ہو گئے ہیں۔ یہاں تک کہ جنوب مغربی مانسون (موسم گرما) اور مشرق کی طرف چلنے والی ہواؤں (موسم سرما) میں سرایت شدہ فرنٹل سسٹم کی وجہ سے خطے میں بارش کی اعتدال پسند شرح بھی کافی مقدار میں لینڈ سلائیڈنگ پیدا کرتی ہے، اور یہ چار لین سڑک کی تعمیر سے پہلے کے لینڈ سلائیڈز کے مقابلے میں بہت زیادہ ہے۔
تذویراتی طورقومی شاہراہ کی ڈھلوانوں پر بار بار لینڈ سلائیڈنگ کے نتیجے میں کئی دنوں تک سڑک بار بار بلاک ہوجاتی ہے، سپلائی چین میں خلل پڑتا ہے اور درماندہ ہونیوالے مسافروں کے لئے کوئی انتظامات نہیں ہوتے ہیں۔ اسکے علاوہ مصروف ترین شاہراہوں میں سے ایک شاہراہ پر ٹریفک کا بحران پیدا ہوجاتاہے۔ جب بڑی تعداد میں ٹریفک کی نقل و حرکت دوبارہ شروع ہوتی ہے تو یہ ہزاروں لوگوں کو پریشان کرتی ہے، خاص طور پر ایمبولینسوں میں مریضوں کو، کیونکہ سڑک حادثات کے زیادہ خطرہ والے علاقے میں بھی ایئر ایمبولینس کی دستیابی نہیں ہوتی ہے۔ اس کے علاوہ رام بن شہر دھول کے بادلوں میں گھرا ہوا ہے، جس سے بچے، حاملہ خواتین، بوڑھے، مسافر اور ٹرانسپورٹر بری طرح متاثر ہو رہے ہیں۔
اس موڑ پرنیشنل اتھارٹی آف انڈیاکو ایک مربوط انداز اپنانے کی ضرورت ہے جو روک تھام سے بحالی تک پورے خطرے کے چکر کا احاطہ کرتا ہو۔ رسک مینجمنٹ میں خطرہ کی نقشہ سازی اور مقامی منصوبہ بندی شامل ہے جو نقصان دہ واقعات کی واپسی کے طویل عرصے پر مبنی ہو جس کے ساتھ ساتھ خطرے کی نگرانی اور ابتدائی وارننگ کے بہتر نظام شامل ہیں۔ایل جی انتظامیہ، مقامی قانون نافذ کرنے والے ادارے، ٹریفک پولیس یا متعلقہ محکمہ ٹرانسپورٹ زمینی صورتحال کا جائزہ لے سکتے ہیں، ٹریفک کے انتظام کے اقدامات پر عمل درآمد کر سکتے ہیں اور پورے علاقے میں ٹریفک کے خطرے کو کم کرنے کیلئے مناسب اقدامات کر سکتے ہیں۔
مزید برآں، عوامی بیداری کی مہمات، ذمہ دارانہ ڈرائیونگ کے طریقے اور ٹریفک کے قواعد و ضوابط کی پابندی جیسے کمیونٹی اقدامات اس سلسلے میں قومی شاہراہ۔44 پر ٹریفک کے مجموعی بحران کو بہتر بنانے میں معاون ثابت ہو سکتے ہیں۔ تباہی اور حادثات صرف لوگوں کی موجودگی میں ہوتے ہیں اور وہ ان کے فیصلوں کا نتیجہ ہوتے ہیں جو وہ رسک کی علمیت یا لا علمیت کے ہوتے لیتے ہیں۔
(انکور گورنمنٹ ڈگری کالج رام بن میں جغرافیہ پڑھاتے ہیں)
(مضمون میں ظاہر ک گئی آراء مضمون نگار کی خالصتاً اپنی ہیں اور انہیں کسی بھی طور کشمیر عظمیٰ سے منسوب نہیں کیاجاناچاہئے۔)