حمیرا علیم
جب ان لوگوں نے ایسے سجدہ کیا تو پہاڑ ہلنے لگا۔موسی علیہ السلام نے دعا کی۔’’ یا اللہ! اگر تو چاہتا تو اس سے پہلے ہی انہیں اور مجھے ہلاک کر دیتا ۔ہم میں سے کچھ بیوقوفوں کے عمل کی وجہ سے ہم سب کو ہلاک نہ فرما۔ہمیں معاف فرما دے۔‘‘سو پہاڑ ہلنا بند ہو گیا اور اللہ تعالیٰ نے انکی معافی قبول فرما لی۔مگر گناہگاروں کو حکم دیا کہ وہ ایک دوسرے کو قتل کر دیںتاکہ دوبارہ وہ فساد نہ پھیلا سکیں اور سب اللہ ہی کی عبادت کریں ۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو ایک اور آزمائش دی۔جب یہ مچھلی کے شکار پہ جاتے تو پورا ہفتہ تھوڑی سی مچھلی پاتے۔مگر جس دن انکی عبادت کا دن (ہفتہ) ہوتا اس دن خوب مچھلیاں آتی۔سو انہوں نے عبادت چھوڑ کے مچھلیاں پکڑنی شروع کر دیں ۔اللہ تعالیٰ نے انکو کہا کہ وہ چھ دن مچھلیاں شکار کر سکتے ہیں مگر ہفتے والے دن نہیں ۔ انہوں نے سمندر کے کنارے بڑے بڑے گڑھے بنا دیے۔جن میں ہفتے والے دن لہروں کے ساتھ مچھلیاں ان میں بھر جاتیں اور یہ اتوار کو نکال لیتے۔اللہ تعالیٰ نے انکو اتنی سہولیات اور آسانیاں دیں مگر یہ سدھرتے ہی نہ تھے سو اللہ تعالیٰ نے انہیں بندر بنا دیا۔جتنے لوگ سبت کے دن مچھلی پکڑتے ان سب کی شکلیں بندر کی طرح ہو گئیں اور وہ تین دن کے اندر اندر مر گئے۔آجکل بھی تبت کے علاقے میں Hog virus کی وجہ سے سخت بخار کے بعد انسان کی شکل مسخ ہو جاتی ہے اور وہ مر جاتا ہے۔ایک دن موسیٰ ؑکو ہ طور پر اللہ تعالیٰ سے ہم کلام تھے کہ انکے دل میں اللہ تعالیٰ کو دیکھنے کی خواہش جاگی۔انہوں نے اللہ تعالیٰ سے درخواست کی کہ “میں آپ کو دیکھنا چاہتا ہوں “۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ” کوئی انسانی آنکھ مجھے دیکھنے کی تاب نہیں رکھتی ۔چلو میں اپنی تجلی دکھاتا ہوں ،اگر تم نے سہہ لی تو میں تمہیں دکھائی بھی دونگا۔” جب اللہ نے اپنی تجلی دکھائی تو کوہ طور جل کر رہ گیااور موسیٰ ؑ ؑبھی ڈر گئے اور رب سے معافی مانگی۔
ایک دن موسیٰ ؑبنی اسرائیل سے خطاب کر رہے تھے تو ایک شخص نے سوال کیا ” سب سے زیادہ علم والا شخص کون ہے؟” انکے ذہن میں آیا کہ میں نبی ہوں، کیا دنیا میں مجھ سے بڑھکر بھی کوئی علم والا ہو گا ،سو انہوں نے کہا” میں “۔اللہ تعالیٰ نے انکو حکم دیا کہ ایک مچھلی پکا کر ساتھ رکھ لیں اور سمندر کے کنارے کنارے چلتے جائیں ،جہاں یہ مچھلی زندہ ہوکو کر سمندر میں کود جائے، وہیں آپکی ملاقات ایک صاحب علم سے ہو گی۔ موسیٰ ؑ اپنے سفر پر روانہ ہونے لگے تو انکے شاگرد یوشع بن نون (جو موسیٰ ؑ کے بعد نبی بنے تھے) نے ان سے درخواست کی کہ انہیں بھی ساتھ لے جائیں ۔وہ دونوں چل پڑے ایک مقام پر جہاں دو سمندر مل رہے تھے انکو تھکن محسوس ہوئی تو وہ سستانے کے لیے بیٹھ گئے۔موسیٰ ؑ کی آنکھ لگ گئ۔جب اُٹھ کر تھوڑا آگے بڑھے تو بھوک محسوس ہونے پر یوشع ؑ سے کہا۔کہ مچھلی نکالیں تاکہ کھا سکیں ۔اس پر یوشع ؑنے کہا ” مجھے شیطان نے بھلا دیا ۔جہاں ہم سستانے کے لیے بیٹھے تھے، وہاں ایک عجیب بات ہوئی، مچھلی توشہ دان سے نکلی اور سمندر میں کود گئ”۔موسیٰ ؑ نے کہا” یہی ہماری مطلوبہ جگہ تھی۔سووہ دونوں واپس گئے تو کنارے پر ایک شخص کو پایا۔ موسیٰ ؑ نے ان کو سلام کیا۔اس پر خضر ؑ نے پوچھا ” کیا آپ کے ملک میں ایسے ہی سلام کیا جاتا ہے؟”آپ ؑنے کہا” میں موسیٰ ہوں ۔” خضر ؑنے پوچھا ” کیا آپ بنی اسرائیل کے موسیٰ ہیں؟ ” آپ نے اثبات میں جواب دیا اور کہا” میں آپ کے پاس آیا ہوں تاکہ آپ مجھےوہ علم سکھا سکیں جو آپکے پاس ہے۔”
خضرؑ نے کہا” اپ میرے ساتھ رہ کر صبر نہیں کر سکیں گے۔اور جس چیز کا آپکو علم نہیں اس پر اپ صبر کر بھی کیسے سکتے ہیں ۔” موسیٰ ؑ نے کہا” انشاءاللہ آپ مجھے صابر پائیں گے اور
میں آپکے کسی بھی حکم کی نافرمانی نہیں کرونگا۔” اس پر خضرؑ نے کہا ” اگر اپ میرے ساتھ جانا چاہتے ہیں تو مجھ سے کسی بھی چیز کے بارے میں سوال مت کیجیے گا۔جب تک کہ میں خود آپ کو کچھ نہ بتاؤں ۔”موسیٰ ؑ نے یوشع کو واپس بھیج دیااور خود خضرؑ کے ساتھ چل پڑے۔جب ایک کشتی میں سوار ہوئےتو خضر ؑ نے اس کے پیندے میں ایک سوراخ کر دیا۔موسیٰ ؑنے دیکھا تو بولے۔” یہ آپ نے کیا کیا اس طرح تو کشتی میں سوار لوگ غرق ہو جائیں گے ۔”
اس پر خضر ؑ بولے” کیا میں نے کہا نہ تھا تو یقیناً میرے ساتھ صبر کی استطاعت نہیں رکھے گا۔”یہ سن کر موسیٰ ؑ بولے” میری بھول چوک پر مجھ سے مواخذہ نہ کیجیےاور میرے معاملہ میں مجھے مشکل میں نہ ڈالیے ۔”پھر وہ دونوں چلتے چلتے ایک لڑکے سے ملےتو خضرؑ نے اسے قتل کر دیا۔موسیٰ ؑچونکہ ایک رسول تھے جو لوگوں کو نیکی کا حکم دیتے اور برائی سے روکتے تھے سو کہنے لگے” آپ نے ایک لڑکے کو بغیر کسی وجہ کے مار دیا۔یہ تو بڑی بُری بات ہے۔”۔اس پر خضر ؑ نے کہا ” میں نے آپ سے کہا نہ تھا کہ آپ میرے ساتھ صبر نہیں کر سکیں گے۔” موسیٰ ؑنے کہا “اب اگر میں آپ سے کوئی سوال کروں تو آپ بیشک مجھے ساتھ نہ رکھیے گا۔”
پھر وہ چلتے ہوئے ایک گاؤں میں پہنچے۔ ان دونوں نے گاؤں والوں سے کھانا مانگا مگر انہوں نے انکار کر دیا۔ وہ ایک گری ہوئی دیوار کے پاس سے گزرے تو خضرؑ نے اسے ٹھیک کر دیا۔موسیٰ ؑ نے کہا” اس گاؤں کے رہنے والوں نے ہمیں کھانا دینے سے انکار کیااور آپ نے مفت میں انکی دیوار بنا دی۔ اگر آپ اسے بنانے کی اُجرت لے لیتے تو ہم کھانا کھا لیتے۔”خضر ؑ نے کہا” بس اب آپ کے اور میرے درمیان جدائی ہے۔مگر جانے سے پہلے میں آپکو ان چیزوں کی حقیقت بتا دیتا ہوں جن پر آپ صبر نہ کر سکے۔”
” وہ کشتی چند غریبوں کی تھی۔ایک بادشاہ آگے کھڑا ہر ایک سے کشتی چھین رہا تھا، میں نے اسے عیب دار بنا دیا کہ وہ یہ کشتی نہ لے۔رہا لڑکا تو اسکے والدین مومن تھے، ہم ڈرے کہ کہیں وہ اپنی سرکشی کی وجہ سے انہیں مشقت میں نہ ڈال دے۔سو اللہ تعالیٰ نے یہ لڑکا لیکر اس سے بہتر اولاد سے انہیں نوازا۔اور وہ دیوار دو یتیم لڑکوں کی تھی،جس کے نیچے انکا خزانہ تھا۔انکا باپ ایک صالح شخص تھا ، اللہ تعالیٰ نے چاہا کہ وہ بڑے ہو کر اس خزانے کو نکال لیںاور میں نے کچھ بھی اپنی مرضی سے نہیں کیا بلکہ اللہ کے حکم پر کیا ہے۔” اتنے میں ایک چڑیاآئی اور سمندر کے پانی میں اپنی چونچ ڈالی۔خضرؑ نے موسی ؑسے کہا: میرا اور آپکا علم اللہ کے علم کے مقابلے میں اتنا ہی ہے جتنا اس چڑیا نے اس سمندر سے پانی لیا ہے۔” اس سے پتہ چلا کہ اگر غلطی ہو جائے اور اسے مان کر معافی مانگ لی جائے تو کوئی گناہ نہیںاور اللہ تعالیٰ کے ہر کام میں مصلحت ہوتی ہے، ہمارا علم اسکا احاطہ نہیں کر سکتااور صبر کرنے پر ہمیشہ اجر ملتاہے اور کبھی بھی اپنے علم یا صلاحیت پر غرور نہیں کرنا چاہیے بلکہ عاجزی اختیار کرنی چاہیے۔
جب موسیٰ ؑواپس گئے تو ان کی قوم میں سے ایک شخص کو کسی نے قتل کر دیا تھا ۔ وہ ایک نیک شخص تھامگر کوئی بھی قاتل کے بارے میں نہ جانتا تھا۔اس شخص کا خاندان آپ کے پاس آیا کہ آپ قاتل کو ڈھونڈ کر سزا دیں۔موسیٰ ؑپر اللہ تعالیٰ نے وحی کی اور بنی اسرائیل کو ایک گائے ذبح کرنے کا حکم دیا ۔جب موسیٰ ؑنے انکو یہ حکم بتایا تو وہ مذاق اڑانے لگے کہ کیا تو ہم سے مذاق کرتا ہے، اللہ ایسا کیوں کہے گا۔”موسیٰ ؑنے جواب دیا” میں اس بات سے پناہ مانگتا ہوں کہ میں جاہلوں میں سے ہو جاؤں ۔”یعنی جھوٹ بولنا حتیٰ کہ مذاق میں بھی جاہلیت کی بات ہے ۔انہوں نے کہا”آپ ربّ سے دعا کیجیے کہ وہ ہمیں بتائے گائے کیسی ہو؟”اس قدر سست اور بد دماغ لوگ تھے کہ خود دعا بھی نہ کر سکتے تھے۔موسیٰ ؑ نے فرمایا” اللہ تعالیٰ کہتا ہے کہ وہ گائے نہ بوڑھی ہو نہ بہت جوان، ان دونوں کے درمیان کی ہو۔سو اب اس حکم کو پورا کرو۔”بجائے اس کے کہ وہ اللہ کا حکم مانتے، انہوں نے اپنی روش برقرار رکھتے ہوئے بہانے بنانے شروع کر دیئے ۔کہنے لگے” اپنے رب سے دعا کیجیے کہ وہ اسکا رنگ بھی بتا دے” ۔موسیٰ ؑ نے کہا ” اللہ تعالیٰ کہتا ہے اسکا رنگ گہرا زرد ہو جو دیکھنے میں بھلا لگے۔”کہنے لگے” اپنے رب سے دعا کیجیے کہ وہ بتائے کہ گائے کیسی ہو ہم کنفیوز ہو گئے ہیں “۔موسیٰ ؑ نے فرمایا” اللہ تعالیٰ کہتا ہے نہ وہ ہل چلاتی ہو نہ کھیتی کو پانی دیتی ہو۔اس میں کوئی دھبہ نہ ہو۔”آخر کار انہوں نے اسے ذبح کر ہی دیا ۔پھر اللہ تعالیٰ کے حکم سے اس گائے کے گوشت کا ایک ٹکڑا اُس گائے کو مارا گیا تو وہ زندہ ہو گیا۔موسیٰ ؑ نے اسکے قاتل کا نام پوچھا تو اس نے بتا دیااور اس شخص کو سزا دے دی گئ۔
قصہ مختصر یہ کہ بنی اسرائیل پر اللہ تعالیٰ نے سب قوموں سے بڑھکر انعامات کیے: آسمان سے کھانا ، فرعون سے نجات، بادلوں کا سایہ ، پتھر سے پانی، فلسطین کی سرزمین ہر طرح کی آسائش دی ،کئ انبیاء بھیجے مگر وہ اس قدر بد تمیز اور ضدی تھے کہ انبیا کو بھی قتل کر دیتے تھے۔سو اللہ تعالیٰ بھی انکو سزا کے طور پر عذاب دیتا رہا۔
موسیٰ ؑ اکیلے میں نہاتے تھے جبکہ سب بنی اسرائیلی ایک ہی جگہ نہاتے تھے ۔اس پر لوگوں نے کہنا شروع کر دیا کہ انہیں برص کی بیماری ہے جسے چھپانے کیلئے وہ اکیلے نہاتے ہیں ۔ایکبار وہ نہانے کیلئے گئے اور ایک پتھر پر اپنے کپڑے رکھے، جب آپ نہانے لگے تو وہ آپکے کپڑے لیکر بھاگ گیا۔موسیٰ ؑاسکے پیچھے بھاگے ۔کچھ دور جا کر وہ رُک گیا ۔موسیٰ ؑنے اسکو عصا سے ضربیں لگائیں۔اس طرح سب نے دیکھ لیا کہ آپکو کوئی بیماری نہیں ہے ۔ابو ہریرہؓ کہتے ہیں آج بھی اس پتھر پر 6 ، 7 لاٹھی کے نشانات ہیں ۔
ہارون ؑکی وفات ہو گئ۔ جب عزرائیل ؑ، موسیٰ ؑکی روح قبض کرنے کیلئے آئے تو انہوں نے سوچا کوئی شخص انکے گھر میں گھس آیا ہے ، انہوں نے تھپڑ مار کر انکی آنکھ پھوڑ دی۔عزرائیلؑ نے اللہ تعالیٰ کو بتایا تو اللہ تعالیٰ نے فرمایا “جاو ،اُن کو اپنا تعارف کرواؤ اور اُن سے کہنا کہ بیل کے جسم پر ہاتھ رکھیں ،جتنے بال انکے ہاتھ کے نیچے آئیں گے وہ اتنے ہی سال اور زندہ رہیں گے۔” عزرائیل ؑنے ایسا ہی کیا۔
موسیٰ ؑ نے پوچھا “اس کے بعد کیا ہو گا؟” اللہ تعالیٰ نے کہا کہ” پھر آپکی روح قبض کی جائے گی۔”جس پر موسیٰ ؑنے کہا کہ وہ ابھی جانا پسند کریں گے ۔مگر یہ خواہش ظاہر کی کہ انکی قبر بیت المقدس کے نزدیک ہو۔طبری کی روایت کے مطابق” ایک دن موسیٰ ، ؑ یوشع ؑ کے ساتھ سیر کر رہے تھے کہ ایک کالی آندھی آئی۔یوشع ؑنے سوچا قیامت آگئ ہے۔انہوں نے موسیٰ ؑ کا ہاتھ سختی سے پکڑ لیا مگر موسیٰ ؑآہستگی سے انکی گرفت میں سے نکل گئے اور انکی قمیض یوشع ؑکے ہاتھ میں رہ گئ۔”مگر یہ روایت اتنی مستند نہیں ہے کیونکہ موسیٰ ؑکی قبر مقام نبی موسیٰ میں یروشلم سے 20 کلو میٹر دور جودین میں موجود ہے۔سلطان ابو داہر الفاتح بیبرس نے 668 ہجری اس پر ایک عمارت تعمیر کروائی، جس پر 120 کمرے ہیں ۔
موسیٰ علیہ السلام کا قصہ اس لیے قرآن پاک میں بار بار بیان کیا گیا ہے کیونکہ ان میں اور نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم میں بہت سی مماثلتیں تھیں ۔فرعون کی طرح نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو بھی بڑے بڑے سرداروں کو دعوت اسلام دینی تھی۔آپ کی قوم بھی اپنے آباؤ اجداد کے دین کو مقدم جانتی تھی اور آپ سے نشانیاں مانگتی مگر مانتی نہ تھی۔آپکو غربت کے طعنے دیتے۔شاعر و مجنون کہتے۔ تو نبی نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کو تسلی دینے کے لیے بار بار انکی مثال دی جاتی تھی کہ وہ بھی اتنی مشکلات سے گزر کر سرخ رو ہوئے تو آپ بھی کامیاب ہونگے۔(ختم شد)
[email protected]>