اس کے بعد ہم باضابطہ ڈٹ کی چوٹی پر پہنچے۔ نہایت ہی سر سبز اور شاداب زمینی سلسلہ ہے۔ بالکل شہرہ آفاق گلمرگ جیسا۔ اب گلمرک اس حوالے سے زیادہ وسیع و عریض ہے کہ وہاں پر یہاں کے جیسے زمینی سلسلے زیادہ ہیں ۔ آس پاس جنگلات کا وسیع و عریض رقبہ، پہاڑوں کی چوٹیاں، ڈھلوانوںکے ہرے بھرے سلسلے، صاف و ستھرا ماحول ا اور فطرت کی اپنی کاری گری اس جگہ کی خصوصیات میں سے ہیں ۔ سب سے اہم خصوصیت جو اس جگہ کو ہے وہ یہ ہے کہ یہاں سے بلا مبالغہ پورے ضلع کپواڑہ کا نظارہ دکھائی دیتا ہے، جو کہ نہایت ہی دلفریب اور دلکش ہے۔
ہماری بھوک انتہا کو پہنچ چکی تھی۔ اس لیے ہم نے سب سے پہلے آگ جلائی اور ایک چولہا تیار کیا۔ برادر مدثر احمدTravel and Hospitality کے شعبے سے سند یافتہ ہیں۔ اس لیے کھانا تیارکرنے کی ذمہ داری اپنے آپ ان پر عائد ہو گئی۔ انہوں نے نہایت ہی ماہرانہ طریقے سے کھانا تیار کیا۔ کھانے میں ہم نے سب سے پہلے باربی کیوز کھائیں۔ اس کے بعد ہم نے باقی کھانا بھی تیار کیا۔ اس دلکش پارٹی میں ہم نے دو چرواہوں اور ان کے دو بچوں کو بھی ساتھ کیا۔ ان میں ایک بچہ ایک بڑے ٹھیلے میں اپنی دکان ساتھ لیتاہوا تھا ، جس میں وہ بسکٹ، پانی اور باقی چیزیںبیچتاہے۔ جہاں کہیں وہ کسی سیلانی کو آتے دیکھتا ہے، وہیں اپنی دکان ڈالتا ہے۔
ہم نے اس دوران آرام بھی کرلیا۔ شام سے ذرا پہلے ہم نے کرکٹ کھیلی۔ شام ہوتے ہی ہم نے بشیر صاحب کے ڈھوک کی طرف راہ لی۔ انہوں نے ہمارا نہایت ہی پرتپاک اندازمیں استقبال کیا۔ انہوں نے ہمارے لیے بستر لگا دیا تھا ۔ ہم بھی تھکے ہوئے تھے۔ اس لیے بستر میں لیٹ گئے۔ ہم نے کھانے کا جو سامان ساتھ لایا تھا، اس کو ہم نے خود ہی اُن کے چولہے پر تیار کیا۔یوں ہم نے رات کا کھانا بشیر صاحب اور ان کی پوری فیملی کے ساتھ ہی کھایا۔ اس میں جو مزہ آیا، اس کو بیان کرنا بہت مشکل ہے۔ کھانا کھانے کے بعد انہوں نے ہمیں کشمیری کاڑا(یعنی دودھ کے بغیر نمکین چائے) پیش کیا۔ کاڑا نوش کرنے سے جیسے ہمارا کھانا اچھے سے ہضم ہوگیا اور ہماری تھکان بھی دور ہو گئی۔ اسی دوران ہم نے اُن سے ڈَٹ کے بارے میں بہت ساری جانکاری حاصل کرلی ۔
ڈَٹ کے بالکل سامنے ایک اور پہاڑی ہے جو کہ ہائی سیکورٹی زون ہے، جہاں سے کسی عام شہری کو چلنے کی اجازت نہیں ہے۔ اس پہاڑی کے دامن سے ایک سڑک بھی بنائی گئی ہے۔ یہ سڑک سادھنا ٹاپ سے شروع ہوتی ہے اور فرکیاں ٹاپ کی گلی سے ملتی ہے۔ سادھنا اور فرکیاں ٹاپ کی یہ دو نوں جگہیں پہلے ہی مشہور و معروف ہیں۔ یہ دونوںجگہیں بھی تو ہیں ہائی اسکورٹی زون لیکن ہیں بہت ہی دلفریب اور دلکش۔ ہم نے یہ محسوس کیا کہ فرکیاں ٹاپ اور سادھنا ٹاپ کے مابین اس سڑک پر چلنا اور وہاں سے قدرت کے دلکش نظاروں کا لطف اٹھانا کسی جنت کی سیر کرنے سے کم نہیں ہوگا۔ ڈَٹ کے سامنے جو پہاڑی ہے ، اس پر کئی ساری چوٹیاں ہیں، جن کے نام لڑیاں ٹاپ، روتا گلی، نیتھین، اوستاد، ہودہاکر، دامری، گوتھر، رام راجیہ، وغیرہ ہیں۔ ان ناموں سے منسلک کئی ساری کہانیاںہیںجو کہ زیادہ تر افسانوی ہیں۔ لیکن رام رجیہ کے متعلق کہا گیا کہ یہاں پہاڑ میں جیسے ایک بہت بڑا محل خانہ ہے۔ وہاں ابھی بھی کمرے، مورتیاں، اور اسی طرح کی دیگر چیزیں موجود ہیں۔ اس محل خانے کی تاریخ وغیرہ کے بارے میں جو کچھ بھی لوگ جانتے ہیں، اس کو لیکن سو فیصدی قابل بھروسہ نہیںمانا جا سکتا ۔ سننے میں یہ بھی آیا کہ مذکورہ محل خانے میں لوہا گرنے کی آواز بھی آتی ہے۔
رات دیر گئے میزبانی کرنے والوں نے ہمیں ایک اور کاڑے کے کپ سے محظوظ کیا۔ اگلی صبح ہم نیند سے بیدار ہوئے۔ ہاتھ منہ دھو کر ہم نے ناشتہ کیا۔ ناشتے میں ڈھوک والوں نے ہمیں کچھ دیسی چیزیں پیش کیں، جن کو کھانے میں ایک الگ ہی لطافت تھی ۔ اس کے بعد ہم نے مناسب سمجھا کہ ڈَٹ کے آس پاس کی جگہوں کی مزید سیر کی جائے۔ یہاں پر پیر بابا کے نام سے ایک زیارت بھی بنائی گئی ہے۔ اس زیارت کو آرمی نے کچھ سنوارا ہے۔ اس کے اندر ایک قبربھی ہے۔ اس زیارت کے اوپر1998 ؍میں ڈھانچہ تعمیر کیا گیا ہے۔ کہاجاتا ہے کہ یہاں پر کوئی پیر بابا دفن ہیں۔ زیارت کے اندر جھانکنے کے دوران ہم نے دیکھا کہ وہاں پر زیورات وغیرہ لوگوں نے چھوڑے ہیں ۔ اس زیارت کے بالکل پاس میں کچھ سال پہلے آرمی کا ایک کیمپ تھا، لیکن اب یہاں پر کوئی آرمی نہیںہے۔ ہم نے اللہ سے دعا کی کہ اگر یہاں پر واقعی میں کوئی نیک بندہ دفن ہیں تو اس کے درجات بلند فرمائیں۔
اس کے بعد ہم کھیل کود میں مزید مصروف ہوگئے۔ اسی دوران ہم نے دو نوجوانوںکو دیکھا جو کہ لفافوں وغیرہ کو جمع کرکے جلاتے ہیں۔ ہم نے سوچا کہ بھلا اس جگہ جہاں پر اتنی گندگی بھی نہیں ہے، یہ جونوان کیوں کر لفافوں کو جمع کر رہے ہیں۔ پوچھنے پر انہوں نے یہ جواب دیا کہ جب بھی وہ ڈَٹ آتے ہیں تو اس کی صفائی ضرور کرتے ہیں۔ ہم ان کے جواب سے خوش ہو گئے اور خود کو ان کے اس نیک کام میں شامل کرلیا۔ اس کے بعد ہم نے اپنے میزبان کے گھر کی طرف رخ کیا۔ وہاںپر پہلے انہوں نے لسی پیش کی۔ اس کے کچھ دیر بعد چائے اور روٹی کھانے کو دی۔ دوپہر ہوتے ہوئے ہم نے واپسی کی تیاری کی۔ چرواہوں کے ساتھ کچھ تصاویر لینے کے بعد ہم نے انہیں الوداع کہا۔
ڈَٹ کی خوب صورتی کا مزہ لینے کے علاوہ ہمارے لیے سب سے زیادہ پُر مسرت لمحے وہ تھے جو ہم نے چرواہوں کے ساتھ گذارے۔ انہوں نے ہمارے لیے اپنے پورے گھر کو وقف کیا۔ ان کی خاطر مدارت کمال کی تھی۔ ان کی ہر ایک بات میں محبت تھی، نظروں میں یگانگت، زبان میں شیرینی اور دل میں بے انتہامخلصی ۔ کمال کی بات یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے لیے یہ سب کچھ بنا کسی معاوضے کے کیا۔ ہم ان کے بے حد مشکور و ممنون رہے۔
ڈَٹ سے نیچے اترنے میں اگر چہ زیادہ وقت نہیں لگا، لیکن اترنا کوئی آسان کام بھی نہیں تھا۔ اترنے میںہمیں چار گھنٹے لگ گئے۔ کیوںکہ ہمیںکوئی جلدی نہیں تھی، اس لیے ہم آرام سے اترے۔ جگہ جگہ پر آرام کر لیتے۔ ڈَٹ کو چڑھنے اور اترنے میں اس چیز میں بھی بہت مزہ ہے کہ تھکنے کے بعد راستے میں ہی آرام کیا جائے۔ جنگلات کی ہوائیں اور درختوں کی چھائیں انسان کو نئی قوت بخشتی ہیں۔ بعد ازان انسان پھرچاک و چوبندہوکر دوڑتا ہے۔ سہ پہر کو ہم بالآخر راشن پورہ پہنچ گئے۔ اس کے بعد ہم نے گھر کی راہ لی اور شام ہوتے ہوہوتے گھر پہنچ گئے۔
ای میل۔ [email protected]