خالد ہ بیگم،سرنکوٹ
جب بھی انسان کسی مشکل یا دشواری کا شکار ہوتا ہے تو اسے دل کو بہلانے کے لئے اور اپنے دماغ کو تازہ رکھنے کے لئے کچھ تدابیر اختیار کرنی پڑتی ہے۔ جب انسان زندگی سے الجھا ہوا ہوتا ہے تو وہ اپنے آپ کوکسی ایسی جگہ لے جانا چاہتا ہے جہاں دل فرحت محسوس کرے، دماغ کو تازگی ملے اور بدن کو سکون حاصل کرسکے۔ظاہر ہے کہ پُر آشوب دور میںجہاں آج کسی بھی انسان کی زندگی ایک طرف دنیاوی مصروفیات میں اُلجھی ہوئی ہے اوروہ اِنٹرنیٹ کے سہولیات سے ہی اپنے دل و دماغ کو کسی نہ کسی طرح کاسکون فراہم کرانے کی کوشش کرتا ہے وہیں وہ قدرتی نظاروں سے بھی مست و معطر ہونے کے لئے سرگرداں رہتا ہے۔جبکہ بیشتر لوگ سر سبز و شاداب وادیوں کے دلکش و دلفریب نظاروں اور صاف و شفاف فضائوںسے فرحت حاصل کرنے کے متمنی ہوتے ہیں۔قدرتی حسن سے مالا مال سرسبز شاداب و قَدآور درختوں ،سر بفلک پہاڑوں، روح فرسا ہوائوںاور دِلکش نظاروں سے مزّین وادیاں اور پہاڑٰ ی چوٹیاں موسم گرما کی آمد کے ساتھ ہی اپنے قدرتی حُسن اور پُر کشش دلفریبی سے اپنے مداحوں کو دعوت ِتفریح کا پیغام دیتی ہیں۔ اپنے اس جموں کشمیر کی بات کی جائے توقدرت نے اسے اس معاملے میں بڑی سخاوت سے مالا مال کررکھا ہے۔ تبھی تو وادیٔ کشمیر کی خوبصورتی کےچرچے پوری دنیا میں ہوتے ہیں۔ جموں اور کشمیر کے درمیان بسنے والا خطہ پیر پنجال بھی وادی کشمیر کی طرح انتہائی خوبصورت ہے۔ موسم بہار آتے ہی یہاں کے بہت سارے طبقے اپنے مال مویشی کے ساتھ ان سر سبز و شادا ب بالائی علاقوں میں جاتے ہیں اور کئی دنوں کا پیدل سفر طے کرنے کے بعد اپنی منزل مقصود تک پہنچتے ہیں۔ ان اونچی پہاڑیوں پر رہنے والے لوگوں کو قدرتی خوبصورتی سے لطف اندوز ہونے کا خوب موقع ملتا ہے۔ٹھنڈا پانی اور تازہ ہوائیں ان لوگوں کا مقدر ہوتی ہیں۔بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ ان لوگوں کو راشن اور دیگر ضروریات زندگی ان دور دراز علاقوں تک پہنچانے میں شدید دشواریوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
اب اگر ضلع پونچھ کی بات کی جائے تو اس ضلع کا اکثر حصہ بلند و بالا پہاڑیوں پر مشتمل ہے۔ پونچھ کی تحصیل منڈی کا پورا علاقہ خوبصورتی میں اپنا ثانی نہیں رکھتا۔ بالخصوص لورن، ساوجیاں،جبی طوطی، نور پور نامی علاقے و ملحقہ مقامات اپنی دلکش خوبصور تی سے لبریز ہیں۔ان علاقوں کی فرحت بخش ہوائیںروح کو تازہ کرتی ہیں،دِل کو لُبانے کے لئے یہ علاقے خوبصورت قدرتی نظاروں سے مالا مال ہیں۔تحصیل کے علاقہ لورنؔ سے تعلق رکھنے والے ایک نوجوان طالب علم نعیم احمد تانترے کا کہنا ہے کہ پوری تحصیل منڈی خوبصورتی میں اپنی نظیر آپ ہے۔لیکن محکمہ سیاحت کا اسطرف کوئی بھی دھیان نہیں ہے ،جس کے نتیجے میں ان علاقوں کی خوبصورتی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے۔انہوں نے مزید کہا کہ ایک طرف جہاں دُنیا چاند پر اپنا آشیانےبنانے میں محو ہے وہیں دوسری طرف یہاں کےعوام کو بنیادی سہولیات سے محروم ہے۔
گاؤں بائیلہؔ کے ایک مقامی باشندہ عبداللطیف کا کہنا ہے کہ میری عمر 38 سال ہوچکی ہے اور آج تک میں نے اس علاقے کی کسی بھی طرح ترقی ہوتے ہوئے نہیں دیکھی ہے۔یہاں کے بچوں کو سڑکوں کی عدم دستیابی سے حصول تعلیم میں شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اُن کے مطابق بائیلہؔ کے بالائی علاقہ میں ایک خوبصورت سیاحتی مقام ہے، جسے جبی طوطیؔ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ وہاں ہرسال موسم گرما کے دوران لوگ گرمی سے راحت حاصل کرنے کے لئے سیر و تفریح کرنے کی غرض سے آتے ہیں۔لیکن سڑک نہ ہونے کی وجہ سے یہ علاقہ بیشتر لوگوں کی نظروں سے اوجھل ہے۔اگرچہ محکمہ سیاحت میں ہر سال سیاحتی مقامات کو فروغ دینے کے لئے کروڑوں روپے کے بجٹ کو منظوری تو دیتی ہے مگر اس کااندراج محض کاغذ تک ہی محدود رہتاہے۔ ایسا لگتا ہے کہ محکمہ سیاحت کا سارا بجٹ اور وقت صرف بجٹ بنانے میں ہی صَرف ہو جا تا ہے، یہی وجہ ہے کہ وہ زمینی سطح پر وہ اپنے منصوبوں کو موثر طریقے سے نافذ نہیں کر پا رہے ہیں۔جس کے باعث ان علاقوں کے باشندوں حالت تواتر کے ساتھ جُوں کی تُوں ہےاور پسماندگی یہاں کےعوام کا مقدر بن چکی ہے۔سرنکوٹ کی ایک طالبہ نجمہ کوثر کہتی ہیں کہ اگر یہاں کے اِن پسماند علاقوں کی طرف حکومت متوجہ ہوئی ہوتی تو یہ علاقے بھی سیاحتی مقام کے نام پر ملک کے نقشے پر ہوتے اور ملک بھر سے سیاحوں کا سیر و تفریح کے لئے یہاںآنا شروع ہوچکا ہوتا، جس سے یہاں کے نوجوانوں کو روزگار کے مواقع مل چکے ہوتے۔ اس کے برعکس آج صورت حال یہ ہےکہ نہ تو یہاں کے نوجوانوں کے مستقبل کی جانب کوئی توجہ دی جارہی ہے اور نہ ہی ان علاقوں کی ترقی کے لئے کسی کو کوئی فکر ہے۔ سرنکوٹ کے ایک نوجوان محمد معین نے بتایا ہے کہ ’’خطہ پیر پنجال کی خوبصورتی، یہاں کی آب و ہوا، سربفلک پہاڑی چوٹیاں اس بات کی طرف واضح اشارہ کرتی ہیں کہ یہ علاقے قدرتی خوبصورتی میں اپنی مثال آپ ہیں۔ یقیناً یہ علاقے انتہائی خوبصورت ہیں اور یہاں اگر کسی چیز کی کمی ہے تو وہ ہے سڑک کی عدم دستیابی اور بنیادی سہولیات کا فقدان۔ جس کی وجہ سے یہاں کی اَن حسین اور دلکش وادیوں کی خوبصورتی دنیا کی نظروں سے اوجھل ہے اور یہاں کے لوگ پسماندگی کا شکار ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ وادی کشمیر کی بہ نسبت خطہ پیرپنچال انتہائی پسماندگی کا شکار ہے اور بڑے پیمانے پرنوجوان بے روزگارہیں۔
ان تمام باتوں سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حکومت کی طرف سے ان علاقوں کی ترقی و خوشحالی کے لئے واگزار کئے جانے والے تمام تر بجٹ رقومات کا استعمال زمینی سطح پر نظر نہیں آرہاہے ۔اور یہاں کے لوگوں کی حالت جُوں کی تُوں ہے۔جبکہ کویڈ۔ 19 کی تباہ کاری کے بعدیہاںبےروز ی میں کافی بڑھوتری ہوئی ہے، جس کے نتیجہ میںروزگار کی تلاش میں لوگوں کو دوسرے علاقوں میں جانا پڑا ہے۔ ایسے میں اگر یہاں سیاحت کو فروغ دیا جائے تو نوجوانوں کو روزگار کے حصول کے لئے اپنا گھر چھوڑ کر باہر جانے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی بلکہ یہ علاقے دوسروں کے لئے بھی روزگار فراہم کرنے والے مرکز بن جائیں گے۔اس سلسلہ میں محکمہ سیاحت کے ایک ملازم تنویر احمد نے کہا کہ ’’اس بات میں کوئی دورائے نہیں ہے کہ ضلع پونچھ انتہائی خوبصورت ہے اور حکومت اس علاقے کے طرف اگر خصوصی توجہ دے تو اس علاقہ کی خوبصورتی کو بھی دنیا کی نظروں کے سامنے لایا جاسکتا ہے۔ہمارے محکمہ کی جانب سے کوشش رہتی ہے کہ ہم خوبصورت علاقہ جات کا خاکہ وقتاً فوقتاً پیش کرتے رہیں۔ دوسری جانب سرحدی علاقہ اور شہر جموں سے تقریبا ً ۰۴۲ کلومیٹر کی دور ہونے کی وجہ سے اس علاقے کو ترقی کے نقشے پر آنے میں وقت لگ سکتا ہے۔انہوں نے کہا کہ محکمہ کی ہر ممکن کوشش رہتی ہے کہ اس علاقے کو دنیا کے سامنے لایا جاسکے۔ انہوں نے کہا کہ پونچھ کے متعدد مقامات جیسے جبی طوطی وغیرہ کے علاوہ کئی علاقوں کے نام اعلیٰ حکام تک پہنچائے گئے ہیں اور ان علاقہ جات کو سیاحتی مقامات کا درجہ دلائے جانے کے لئے ہماری جدوجہد جاری ہے۔‘‘
عوام نے مرکزی حکومت و ریاستی سرکار سے اپیل کی ہے کہ خطہ پیرپنجال کی جانب خصوصی توجہ دیکر اس علاقے کی خوبصورتی کو کو دوبالا کیا جائے، یہاں کے انتہائی خوبصورت علاقہ جات کو ٹورازم محکمہ کے تحت لایا جائے تاکہ اس پسماندہ علاقے کی بھی ترقی ممکن ہوسکے۔ جس سے یہاں کے بیروزگار نوجوانوں کو روزگار مل سکے اور علاقہ خوشحالی کی طرف گامزن ہوسکے۔موسم گرما شروع ہو چکا ہے اور قدرتی حسن سے مالامال یہ علاقہ بھی سیاحوں کے استقبال کے لئے منتظر ہے۔ (چرخہ فیچرس)