عظمیٰ مانٹیرنگ ڈیسک
نئی دہلی// سپریم کورٹ نے کہا ہے کہ دیوانی اور فوجداری مقدمات میں نچلی عدالت یا ہائی کورٹ کی طرف سے دیئے گئے حکم امتناعی کی چھ ماہ بعد خود بخود منسوخی نہیں ہو سکتی۔چیف جسٹس ڈی وائی چندرچوڑ کی سربراہی میں پانچ ججوں کی آئینی بنچ نے اپنے 2018 کے فیصلے سے اتفاق نہیں کیا جس میں کہا گیا تھا کہ ذیلی عدالتوں کے حکم امتناعی کی خودکار منسوخی ہونی چاہیے جب تک کہ ان میں خاص طور پر توسیع نہ کی جائے۔رہنما خطوط بیان کرتے ہوئے، فیصلے میں یہ بھی کہا گیا کہ آئینی عدالتیں، سپریم کورٹ اور ہائی کورٹس کو مقدمات کے نمٹانے کے لیے ٹائم لائن طے کرنے سے گریز کرنا چاہیے اور یہ صرف غیر معمولی حالات میں ہی کیا جا سکتا ہے۔بنچ نے دو الگ الگ لیکن ایک ساتھ فیصلے سنائے۔جسٹس اے ایس اوکا نے کہا، آئینی عدالتوں کو مقدمات کے فیصلے کے لیے کوئی ٹائم لائن متعین نہیں کرنی چاہیے کیونکہ بنیادی مسائل صرف متعلقہ عدالتوں کو معلوم ہوتے ہیں اور ایسے احکامات صرف غیر معمولی حالات میں ہی پاس کیے جا سکتے ہیں۔
جسٹس اوکا نے کہا، “اسٹے کی خودکار منسوخی نہیں ہو سکتی،” ۔جسٹس پنکج متل سمیت 3ججوںنے اس کیس میں الگ لیکن متفقہ فیصلہ لکھا۔سپریم کورٹ نے 13 دسمبر 2023 کو سینئر ایڈوکیٹ راکیش دویدی کو سننے کے بعد اس کیس میں اپنا فیصلہ محفوظ کر لیا تھا، جو الہ آباد ہائی کورٹ بار ایسوسی ایشن، سالیسٹر جنرل تشار مہتا اور دیگر وکلا کے لیے پیش ہوئے تھے۔سپریم کورٹ نے گزشتہ سال یکم دسمبر کو اپنے 2018 کے فیصلے پر نظر ثانی کے لیے پانچ ججوں کی بنچ کو رجوع کیا تھا۔پچھلے فیصلے میں کہا گیا تھا کہ دیوانی اور فوجداری مقدمات میں نچلی عدالت یا ہائی کورٹ کی طرف سے دی گئی روک چھ ماہ کے بعد خود بخود ختم ہو جائے گی جب تک کہ خاص طور پر توسیع نہ کی جائے۔ 2018 کے فیصلے میں، تین ججوں کی بنچ نے کہا تھا کہ عدالتوں بشمول ہائی کورٹس کی طرف سے دیے گئے اسٹے کا عبوری حکم خود بخود خالی ہو جائے گا جب تک کہ ان میں خاص طور پر توسیع نہیں کی جاتی۔نتیجتاً، چھ ماہ کے بعد کوئی مقدمہ یا کارروائی نہیں رہ سکتی۔ تاہم، سپریم کورٹ نے بعد میں واضح کیا تھا کہ اگر حکم امتناعی جاری کیا جاتا ہے تو فیصلہ لاگو نہیں ہوگا۔