اسدمرزا
فرانس کے صدر ایمانوئل میکرون(Emmanuel Macron) نے گزشتہ ۲۴؍اپریل کو فرانس کے صدارتی انتخابات کے دوسرے مرحلے میں اپنی حریف دائیں بازو کی قوم پرست رہنما میرین لی پین (Marie Le Pen) کو شکست دی اورجاک شراک کے بعد دوسرے ایسے صدربنے جو دو بار صدارتی عہدے کے لیے منتخب ہوسکے۔ حالیہ انتخابات میں میکرون نے 58.54فیصد ووٹ حاصل کیے جو کہ ان کی حریف لی پین سے صرف 3فیصد زیادہ تھے، جبکہ پچھلی مرتبہ یعنی 2017کے صدارتی انتخابات میں میکرون نے لی پین کو 16.4فیصد ووٹوں سے شکست دی تھی۔ صدارتی انتخابات میں بائیں بازو کے رہنما Jean- Luc Melenchon دونوں مرحلوں میں تیسرے نمبر پر رہے۔ نتائج سے جو سب سے زیادہ تشویشناک بات سامنے آتی ہے وہ ہے فرانس میں گزشتہ پانچ سال کے دوران دائیں بازو کی قوم پرست جماعتوں کی مقبولیت میں اضافہ۔ اپنی انتخابی مہم کے دوران لی پین نے کہا تھا کہ اگر وہ صدر بنتی ہیں تو وہ فرانس میں مسلمان عورتوں کے نقاب پہننے پر مکمل پابندی عائد کردیں گی۔ اس کے علاوہ ان انتخابات میں تقریباً 28.2% رائے دہندگان نے اپنے حقِ رائے دہی کا استعمال نہیں کیا۔ 1969 کے بعد سے انتخابات میں ووٹ نہ ڈالنے کی یہ سب سے زیادہ شرح تھی۔ان میں سے زیادہ تر لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ ان انتخابات میں میکرون یا لی پین دونوں میں سے کسی کو بھی ووٹ نہیں دینا چاہتے۔ یہ پورے فرانس میں، خاص طور پر اس کی نوجوان آبادی میں جذبات کی بازگشت ہے۔ وہ میکرون کو ان دوبُرائیوں میں سے کم سمجھتے ہیں، جس کی وجہ ان کی گزشتہ پانچ سالوں میں پالیسیاں رہی ہیں۔ مزید برآں میکرون کو ایک بین الاقوامی سیاستدان کے طور پر دیکھنے اور یورپی یونین کی قیادت کرنے کی زیادہ کوششیں بھی کامیاب ہوئیں۔کیوں کہ اب برطانیہ کے یوروپی یونین سے باہر آنے کے بعد فرانس کو یوروپی یونین کے قائد کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ حالیہ روس ۔یوکرین جنگ میں بھی میکرون ہی وہ واحد مغربی رہنما ہیں جن کی روسی صدر بلادین میر پوتن سے براہِ راست بات چیت ہوتی ہے۔ تو اس طرح روس کے ساتھ مغربی دنیا کے نمائندے کے طور پر اور یوروپی یونین کے نمبر ایک ملک کے طور پر فرانس اور میکرون کو دیکھا جارہا ہے اور شاید اسی وجہ سے ان کی جیت کے بعد برسلز سے لے کر واشنگٹن تک سیاسی قائدین نےراحت کی سانس لی ہے۔4 ؍اپریل کی رات کو اپنی جیت کی تقریر میں، میکرون نے کہا کہ اس ملک میں بہت سے لوگوں نے انہیں اس لیے ووٹ نہیں دیا کہ وہ ان کے نظریات کی حمایت کرتے ہیں بلکہ اس وجہ سے انھیں ووٹ دیا کہ وہ انتہائی دائیں بازو کی جماعتوں کو اقتدار سے دور رکھنا چاہتے ہیں۔
اگر میکرون اپنی جیت کو مستحکم کرنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے انہیں یہ یقینی بنانا ہوگا کہ آئندہ 12 اور 19 جون کو ہونے والے پارلیمانی انتخابات میں ان کی پارٹی La République en Marche (LaREM) اور اس کے اتحادیوں کو 577 نشستوں والے ایوان زیریں میں 289 ارکان کی اکثریت حاصل ہو سکے۔دوسرا، میکرون کو مہنگائی اور گیس اور بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں پر قابو پانے کی ضرورت ہے۔ ساتھ ہی کم تنخواہ والے اور چھوٹے پیمانے کے تاجروں کی معاشی فلاح و بہبود کے لیے بھی انھیں زیادہ اقدامات اور زیادہ تعاون بھی متعارف کروانا ہو گا، اس کے علاوہ پنشن اصلاحات کو لاگو کرنے کے ساتھ جو وہ اپنے پہلے مینڈیٹ میں نافذ کرنے میں ناکام رہے، ان کو زیادہ زور لگانا پڑے گا۔ جس میں ریٹائرمنٹ کی عمر کو 2031 تک بتدریج 65 سال تک بڑھانا شامل ہے۔بین الاقوامی سطح پر فرانس کو یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کو محفوظ بنانا ہو گا اور غیر سرکاری مہاجرین کو کنٹرول کرنا ہو گا۔ یوروپی یونین ممالک کے ساتھ اور خاص طور سے امریکہ کے ساتھ دفاعی تعاون کو اور زیادہ گہرا اور مثبت کرنا ہو گا، ساتھ ہی ہائی ٹیک سرمایہ کاری پر مبنی یورپی اقتصادی ’’ترقی کا ماڈل‘‘ بھی تیار کرنا ہو گا۔ فرانس کی چھ ماہ کی یورپی یونین کی صدارت کے دو مہینے ابھی باقی ہیں، جن کے درمیان اُسے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ کو ختم کرانا بھی شامل ہے اور جون میں نیٹو کا ایک اہم سربراہی اجلاس منعقد ہونا ہے جہاں وہ یوروپ کی تشکیلِ نو اور فرانس کی علمبرداری کا نیا خاکہ پیش کرسکتا ہے۔ میکرون کو فرانسیسی ووٹروں، خاص طور پر نوجوان اور دیہی ووٹروں کے ساتھ دوبارہ رابطہ قائم کرنا پڑے گا۔ تقریباً دو تہائی ووٹروں نے انہیں ووٹ نہیں دیا۔ برطانوی اخبار ’دی گارجین‘ نے اپنے اداریہ میں یہ کہا ہے کہ میکرون نے اس بات کو تسلیم کیا ہے اور انہیں ان لوگوں کے ساتھ تعلقات کی تعمیر نو کو ترجیح دینا ہوگی۔ میکرون نے مطالبات کو مزید سننے اور مشورہ لینے کا وعدہ کیا ہےجو انھیں لازمی طور پر کرنا پڑے گا۔اس کے علاوہ روایتی فرانسیسی سیاسی جماعتوں کے خاتمے نے بھی نوجوانوں کو ان جماعتوں پر عدم اعتماد کی طرف دھکیل دیا ہے، ساتھ ہی ساتھ سیاسی جماعتوں کی وراثتی نظریات کو بھی تبدیل کیا گیا ہے۔ دریں اثناء فرانس میں طلباء میکرون اور لی پین دونوں کے خلاف اپنے غصے کا اظہار کرتے نظر آئے ہیں۔ وہ میکرون کے’’مغرور‘‘ طرز حکمرانی اور ملکی پالیسیوں پر تنقید کرتے نظر آتے ہیں۔ میکرون کے سابق سکیورٹی چیف الیگزینڈر بینلا اور ’یلو ویسٹ‘ کے احتجاج کا معاملہ ان کے غصے کی دو اہم وجوہات ہیں ۔
صدارتی انتخابات نے فرانسیسی معاشرے کے بنیادی جذبات کو مرکزی دھارے میں لانے کا کام کیا ہے۔ اس کے نتیجے میں میرین لی پین اور ایک اور انتہائی دائیں بازو کی جماعت Reconquete کا ظہور ہوا! (Reconquer)، جسے ایرک زیمور چلاتے ہیںاور یہ جماعت جو زینوفوبیا، امیگریشن مخالف اور اسلام مخالف جذبات کی وکالت و حمایت کرتی ہے۔ مئی 2017 میں اپنی فتح کی تقریر میں، میکرون نے انتہائی دائیں بازو کی پارٹی کے عروج کو روکنے اور سیاسی انتہا پسندی سے لڑنے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن پانچ سال بعد انتہائی دائیں بازو کی پارٹی اور زیادہ مضبوط ہو گئی ہے، جس نے میکرون کو زیادہ دفاعی پوزیشن اختیار کرنے پر مجبور کر دیا۔نتائج نے ریکارڈ پر صدارتی ووٹنگ کا سب سے بڑا حصہ دائیں بازو کو بھی دیا۔ سخت بائیں بازو کے صدارتی امیدوار Jean – Luc Melenchon جو پہلے راؤنڈ کی ووٹنگ میں لی پین کے پیچھے تیسرے نمبر پر آئے تھے، انھوں نے نتائج آنے کے فوراً بعد آنے والے پارلیمانی انتخابات کو صدارتی انتخابات کا ’’تیسرا دور‘‘ قرار دیا۔ کیونکہ اگر میکرون کی جماعت (LaREM) ایوانِ زیریں میں اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہتی ہے تو پھر میکرون کو فرانس کے لیے اصلاحی، معاشرتی پالیسیاں نافذ کرنے اور عالمی سطح پر اس کو آگے لانے میں دِقت پیش آسکتی ہے۔فرانس انتہائی دائیں بازو کے خطرے کی زد میں ہے۔ لی پین کا اپنے ووٹوں میں 7.5 فیصد اضافہ اس کا واضح ثبوت ہے، اس کے علاوہ، میکرون، جنہوں نے گزشتہ دو سالوں میں انتہائی اشتعال انگیز اسلام مخالف گفتگوکی تھی اور اسلام پر متنازعہ بیانات دیئے تھے،وہ دوبارہ منتخب ہوچکے ہیں۔ اسی لیے ان سے بھی مسلمانوں کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کی اُمید کو زیادہ فوقیت نہیں دی جاسکتی۔ حالیہ عرصے میں اس موضوع پر فرانسیسی حکومت کی گفتگو اوردیگر اقدامات نے فرانسیسی قومی تشخص کے بیانیے پر اور عوامی مسائل پر اسلامو فوبیا اور زینو فوبیا کو بے بنیاد قرار دینے کی کوشش کی ہے، لیکن وہ زیادہ سود مند ثابت نہیں ہوئی ہے۔شاونزم اور نفرت نے ہمیشہ فرانسیسی ثقافت پر اپنا غلبہ قائم رکھا ہے، چاہے وہ انگریزوں کے ساتھ ہو یا اسلام پسندوں کے ساتھ۔فرانس کا موجودہ بحران اس کے سفید فام بالادستی کے عیسائی ایجنڈے پر مبنی ہے اور ایک ملک اپنی ماضی کی عظمتوں یا غلط کاموں پر قائم ہے، جب کہ حقیقت میں انہیں ان کے زیر قبضہ سابقہ نو آبادیاتی کالونیوں میں ان کی بداعمالیوں کو ختم کرنے یا توبہ کرنے کی کوشش کرنی چاہیے تھی۔ اس کے ساتھ ساتھ پوری دنیا کے مسلمانوں کو ایک طرف اخلاقی اور انسانی بنیادوں پر اسلام کے اندرونی اتحاد اور سالمیت کے تناظر میں اپنی قومی، نسلی اور فرقہ وارانہ شناخت کو جوڑنے یا ان سے جوڑنے کی اشد ضرورت ہے اور دوسری طرف اس کے عالمی اور کائناتی نقطہ نظر کو برقرار رکھنے کے لیے کوئی نئی حکمتِ عملی قائم کرنے کی بھی ضرورت ہے۔جس کے ذریعے بین مذہبی یا بین ثقافتی تعلقات کو بہتر کرکے ایک سازگار ماحول قائم کیا جاسکے۔
مضمون نگارسینئر سیاسی تجزیہ نگار ہیں ۔
ماضی میں وہ بی بی سی اردو سروس اور خلیج ٹائمز ،دبئی سے بھی وابستہ رہ چکے ہیں۔
www.asad-mirza.blogspot.com