اللہ کا لاکھ لاکھ شکر و احسان ہے جس نے ہمیں رمضان المبارک کے مقدس مہینے میں روزہ رکھنے کی توفیق عطا کرکے عید کی خوشیاں نصیب کی ہیں۔ ماہ رمضان کے اختتام پر عید الفطر کی صورت میں اللہ ربّ العزت نے اپنے نیک اور متقی بندوں کے لئے حقیقی معنوں میں انعام و اکرام کادن مقرر کیا ہے۔ دوسری اقوام کے مقابلے میں امت مسلمہ کے لئے خوشیاں منانے کا بھی الگ ہی انداز ہوتاہے۔ یہ اْمت اس مقدس دن پر اپنے اعمال کا احتساب کرتی ہے،انسانیت کادْکھ درد بانٹ کر ایک دوسرے کی دل جوئی کرتی ہے۔ عید ایمان اور نیک عملی کے تعلق سے ہر مسلمان کے لئے پیغام لاتی ہے کہ وہ اپنی پوری زندگی میں رمضان المبارک سے حاصل شدہ سرمایہ ٔ تقویٰ کو ہی بازارِ زندگی کا مال ومتاع بنائے۔ ابدی ہدایت کا سرچشمہ قرآن مقد س جو اِسی بابرکت مہینے میں نازل ہو ا ، اس بازار تقویٰ کی ا صل سوغات ہے ۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے ’’رمضان وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیاجو انسانوں کے لیے سراسر ہدایت ہے اور ایسی واضح تعلیمات پر مشتمل ہے جو راہ راست دکھانے والی اور حق و باطل کا فرق کھول کر رکھ دینے والی ہیں۔‘‘(سورہ البقرہ :۵۸۱)۔
عید الفطر کا عظیم سبق یہی ہے کہ اس مہینے کو جس الکتاب سے برکت حاصل ہوئی ہے، اْسی کتاب کو ہم اپنی زندگی کا لائحہ عمل بنائیں۔ انفرادی مسائل میں بھی اِسی کتاب کی جانب رجوع کریں اور اجتماعی سطح پر بھی زندگی کے جملہ معاملات کے لئے اسی کتاب سے اہنمائی حاصل کریں۔قرآن کی تعلیمات اور اس پر عمل وقت کی عظیم اور اہم ترین ضرورت ہے۔ ملت اسلامیہ کے جملہ مسائل کا حل اس کتاب میں موجود ہیں۔ اس لیے اس عید کا بہترین پیغام ہمارے لیے یہی ہے کہ ہم اللہ تعالیٰ کی کتاب کے ساتھ اپنی وابستگی کو مضبوط سے مضبوط تر کریں۔
دنیاکے جس خطے میں ہم رہ بس رہے ہیں ،وہ ایک متنازعہ خطہ ہے۔ گزشتہ سات دہائیوں سے عموماً اور تین دہائیوں سے خصوصاً جن مصائب اور مشکلات سے ہماری قوم دوچار ہوئی ، اْن کے نتیجے میں یہاں سماجی سطح پر گونا گوں مسائل کا جنگل اُگ آیا ہیں۔ ایک جانب یتیموں کی تعداد لاکھوں میں موجود ہے دوسری طرف بیواؤں اور نیم بیواؤں کی کسمپرسیاں بھی ہیں اور آزمائشوں سے پُر ان کی اجیرن زندگیاں بھی ، قیدوبند میں سڑرہے اَن گنت پیر وجوان ہیں ۔ مجموعی طور پر یہ صورت حال ہم سب کے لیے ایک کھلا چلینج ہے۔ ہماری ملّت کو یہ کریڈٹ ضرور جاتا ہے کہ اْس نے ابتر سے ابتر حالات میں بھی یتیموں ، بیواؤں اور بُرے حالات کے بھنور میں پھنے ہوئے لوگوں کی داد رسی کی اور اْن کے روزہ مرہ مسائل حل کرانے کی خاطر درمندانہ سعی و کاوشیں کیں ۔ البتہ یہ بات بھی روز روشن کی طرح ظاہر و باہر ہے کہ ریاست جموں وکشمیر کو گزشتہ برسہا برس سے مسلسل جنگی حالات کا سامناہے۔ ان صورت حال نے مسائل کا انبار او ر مشکلات کا لامتناہی سلسلہ یہاں کھڑا کیا ہوا ہے۔ درمندلوگوں ، تنظیموں، تحریکوں ، اداروں اور افراد کی مسلسل رضاکارانہ کوششوں کے باوجود بھی ضرورت مندوں کی حاجات پوری نہیں ہوسکی ہیں۔ اس چیز کے پیش نظر آج عید کے موقع پر بحیثیت قوم ہماری یہ مجموعی ذمہ داری بنتی ہے کہ ہم زکوٰۃ و صدقات تک ہی محدود نہ رہیں بلکہ وسعت قلبی کے ساتھ انفاق کا مظاہرہ کرکے زیادہ سے زیادہ مال اللہ کی راہ میں خرچ کریں تاکہ یہ بے سہارا لوگ، یتامیٰ، بیوائیں اور مساکین بھی عید کی خوشیاں مناسکیں۔
ملت اسلامیہ کو اس وقت عالمی سطح پر بھی اور ریاستی سطح پر بھی گوناگوں مشکلات کا سامنا ہے۔ تہذیبی اور فکری سطح پرکئی طاقت ور قوتیں متحرک ہوچکی ہیں جو دن رات اس کام میں لگی ہوئی ہیں کہ کسی طرح اْمت مسلمہ کے اتحاد کا شیرازہ بکھیر کر رکھ دیں اور کسی طرح شاندار ماضی کی حامل ملت اس حد تک کمزور کی جائے کہ آئندہ یہ کسی بھی مرحلے پر اْن کے لیے کوئی بڑا چلینج ثابت نہ ہو نے پائے۔ ان آزمائشی حالات میں یہ عید ہمیں دعوتِ فکر دیتی ہے کہ ہم از سر نو غور وخوض کرکے اْن راہوں کو تلاش کریں جو مسلمانوں کو موجودہ تاریک ترین دور سے نکال باہر کرنے میں معاون و مدد گار ثابت ہوں۔ ہمارے لئے کرنے کا سب سے بڑا کا م یہ ہے کہ ہم میں سے ہر فرد ملت اسلامیہ کی وحدت کو برقرار رکھنے کے لیے اپنا حصہ ادا کرے۔ اتحاد و اتفاق وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔ مسلک کی بنیادپر، مکتب ِ فکرکی بنیاد پر، فروعی و جزوی مسائل کو لے کر جن فتنوں میں یہ ملت پڑی ہوئی ہے اْن سے نکلنے کی اشد ضرورت ہے۔ مسلمان کو مسلمان کا بھائی بن کررہنا ہوگا، ایک دوسرے کے خلاف شکوک وشبہات اور بغض وکینہ وترک کرنا ہوگا، ملت کو توڑنے کے بجائے اسے جوڑنے کے لیے تمام تر توانائیاں صرف کرنی ہوں گی۔ اگر ہم آپسی اتحاد و اتفاق اور یکجہتی کو قائم و دائم رکھنے میں کامیاب ہوجائیں تو ہم بجا طورکہہ سکتے ہیں کہ ہم نے عید کے مقاصد کو پالیا ہے۔ لہٰذاہماری جملہ مسلمانانِ ریاست سے بالعموم اور تحریکی رفقاء سے بالخصوص مودبانہ التماس ہے کہ وہ کسی بھی سطح پر ملّی اتحاد پر کوئی آنچ نہ آنے دیں۔ خد اپرستی ، انسان دوستی اور آخرت پسندی کے بنیادی جذبے سے لیس ہوکرا نسانیت کی بھلائی کے کام کریں۔ یہ خواب اْس وقت تک شرمندۂ تعبیر نہ ہوگا جب تک ہم قرآن اوسنت سے اپنا تعلق اور رشتہ مضبوط اور استوار نہ کریں۔ بنابریں اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامنے کی ضرورت ہے۔عید الفطر کے اس مقدس تہوار کے موقع پر میں جملہ مسلمانانِ کشمیر کو دل کی عمیق گہرائیوں سے عید مبارک پیش کرتا ہوں اور اللہ رب العزت کے حضور دْعا گو ہوں کہ وہ ہماری تمام مشکلات و مصائب کو دور فرمائے اور ہماری صفوں میں اتحاد و اتفاق کی شمع کو روشن رکھے۔ اللہ تعالیٰ ہم سب کا حامی و ناصر ہو۔