عید الفطر کی آمد آمداو رہماری ذمہ داریاں

  برکتوں اور سعادتوں کا یہ مہینہ اختتام پذیر ہورہا ہے اور مسلمانان عالم عید الفطر منانے کی تیاریوں میں جْٹ گئے ہیں۔امت مسلمہ کیلئے عید کا تصور ہی دل کو شاد ماںکرنے والا ہے کیونکہ پورے ایک مہینے تک بدنی اور مالی عبادات کے ساتھ ہم آہنگ ہونے کی وجہ سے مسلمانوں کا جوش و خروش ہی بلند نہیں ہوتا بلکہ نفسیاتی اور روحانی سطح پر جذبات کی سطح عروج پر ہوتی ہے۔ وادی کشمیر میں بھی عید سے پہلے ہی چہل پہل اورجوش و جذبے کو جلا ملنا شروع ہوئی ہے۔ جوش و خروش کا عالم شروع ہوا۔ بازاروں میں گہما گہمی ہے اور لوگ خریداریوں میں مصروف نظر آرہے ہیں۔کاروباری سرگرمیاں بھی عروج پر ہیں۔بچوں کی خوشی کی عالم ہی نرالا ہے۔یقینا اس مقدس عید کے ساتھ مسلمانوں کے دلوں کی گہرائیوں میں موجود جذبات وابستہ ہیں۔ لیکن عید کی تیاریوں اور عید منانے کے طریقے کے حوالے سے بھی ہمارے معاشرے میں دو طرح کے رویے دیکھنے کو مل رہے ہیں۔ ایک مثبت اور ایک منفی۔سنجیدہ فکر لوگ خوشی کا یہ دن اخلاق و اقدار اور اعتدال کے اصولوں کو اپناتے ہوئے مناتے ہیں جبکہ عوام کا ایک طبقہ عید کو عیاشیوں ، کثیر خوری اور شاہ خرچیوں کا موقعہ سمجھ کر اختیار کرتا ہے۔عید منانے کی تیاریوں کیلئے لوگوں کو حد سے اصراف کرتے ہوئے دیکھا جاسکتا ہے۔پیسے کو پانی کی طرح بہایا جاتا ہے۔اسکے علاوہ بڑے دن کے نام پر اخلا ق و اقدار سے عاری حرکات سرزد ہوہو جاتی ہیں۔تاجروں کا ایک طبقہ عید کو خریداروں کی کھال ادھیڑنے کا ایک نارد موقعہ سمجھ کر ناجائز منافع خوری اور اصل کی جگہ ناقص مال بیچنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا ہے۔اس طرح سے ایک مقدس دن کے نام پر بھی غیر شائستہ حرکتوں کا ارتکاب کیا جاتا ہے۔حالانکہ ہم سب جاتنے ہیں کہ اس طرح کی حرکتیںقطعاً ایک مسلم معاشرے کے شایاں شان نہیں ہیں۔ویسے بھی عید منانے کے معاملے میں وادی کشمیر کے مسلمانوں پر کچھ اس طرح کی ذمہ داریاں عائد ہیں ، جو کہ عمومی طور پر مسلم معاشروں میں نہیں ہیں۔یہ وہ بدنصیب خطہ ہے جس کی آبادی کو گزشتہ 30سال کے دوران خوشیاں منانے کا کچھ کم ہی موقعہ نصیب ہوا ہے۔ بلکہ اس عرصے میں وادی کی مسلم آبادی نے انفرادی اوراجتماعی سطحوں پر بے بیاں مصیبتوں کا سامنا کیا ہے۔ آج یتیموں اور بیوائوں کی فوج اس معاشرے کا حصہ ہے، جو تل تل مرتے ہیں اور ان میں سے اکثریت کی زندگیاں عملاً جہنم زار بنی ہوئی ہیں۔ہمارے یہاں گزشتہ تین دہائیوں کے ناسازگار حالات کے نتیجے میں آج کمسنوں کی ایک بڑی تعداد بغیر کسی کفیل کے زندگی گزار رہے ہیں۔ایک ایسے معاشرے میں جہاں ستم زدگان اتنی بڑی تعداد میں ہوں، میں عید جیسے مقدس دن کو تہوار کی صورت میں مناتے ہوئے عوام بالخصوص صاحب ثروت لوگوں کو یہ ضرور سوچنا چاہیے کہ کیا وہ معاشرے کے ان تباہ حال لوگوں کے تئیں اپنی ذمہ داریاں نبھارہے  ہیں۔عید کی خوشیاں سمیٹتے ہوئے ہر سنجیدہ فکر شخص کو ٹھہرکر اسکے بارے میں سوچنا چاہیے۔مطلب یہ نہیں ہے کہ اپنی خوشیاں معطل کریں لیکن انہیں نادار اور مفلس لوگوں کے ساتھ یہ خوشیاں بانٹے کی کوشش کرنی چاہیے تاکہ انکی خوشیاں دوبالا ہوں۔ مصیبت زدگان کے ساتھ عید کی خوشیاں بانٹنے کا طریقہ یہی ہے کہ اس بڑے دن پر ہم سب اپنی مقدور کے مطابق انکی اعانت اور مدد کریں۔ ہم بے شک اپنے بچوں کی خوشی کیلئے ان پر بڑی رقومات خرچ کریں لیکن ہم پر یہ ذمہ داری بھی عائد کہ ہم ان یتیم بچوں کا بھی خیال رکھیں جن کے والدین یا کفیل گزشتہ دو عشروں کے پرتشددحالات کا شکار ہوکر یا تو جاں بحق ہوئے یا پھر لاپتہ ہوگئے۔اگر ہم اس ضمن میں اپنی ذمہ داریاں نبھائیں تو یقینابار گاہ ایزدی میں یہ ایک مقبول عمل ہوگا۔ برعکس صورت میں خود ہمارا ضمیر بھی ہمیں دھتکارے گا۔اس بڑے دن پر یتیموں ، بیوائوں اور ستم ذدہ کنبوں کی مدد و اعانت کرنا ایک مقدس کام ہی نہیں بلکہ ہماری معاشرتی ذمہ داری بھی ہے۔یہ توقع تو وثوق کے ساتھ کی جاسکتی ہے کہ اجتماعی شعور کی بیداری کے باعث یہ قوم نہ صرف اتحاد و اتفاق برقرار رکھتے ہوئے ہر مشکل کا متحد ہوکر مقابلہ کرے گی بلکہ عید کی خوشیاں بھی متحد ہوکر اور ایک دوسرے کیساتھ بانٹتے ہوئے منائے گی۔