اشرف چراغ
کپوارہ//کپوارہ جمو ں و کشمیر کا ایک ایسا خطہ ہے جہا ں بے پناہ معدنی خزانے موجود ہیں لیکن ابھی تک ان معدنیات کے وسائل کو بروئے کار نہیں لایا جاسکا ہے جس کی وجہ سے ضلع کی اقتصادی ترقی میں کوئی اضافہ نہیں ہوسکا۔یہ ضلع اپنے محل وقوع ،جغرافیائی اہمیت ،قدرتی و معدنی وسائل ،ساخت اور متوع ثقافتی خدو خال کی وجہ سے ہمیشہ توجہ کا مرکز رہا ہے تاہم یہا ں کے لوگ نیم صحرائی زمینی ساخت اور بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے خشک سالی کے شکار رہتے ہیں۔ضلع میں زیادہ تر علاقہ پہاڑی ہے اور اس پہاڑی سلسلے میں بے شمار معدنیات پائے جاتے ہیں۔ کپوارہ میں معدنیات کی کھوج 1903سے شروع کی گئی تھی۔تاریخ کے اوراق سے معلوم ہوتا ہے کہ اسکے بعد اس
معاملے کی حوالے سے کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی۔ جموں کشمیر میں جب مہاراجہ امر سنگھ کی حکومت تھی تو انہوں نے ایک مائننگ انجینئرایچ رائے کی خدمات حاصل کی تھی، جس نے 1923میں انہیں کپوارہ کے پہاڑوں میں موجود قیمتی معدنیات کے ذخائر کے بارے میں رپورٹ پیش کی جو جیالوجیکل سروے آف انڈیا میں 1947میں بھی پیش کی گئی۔جیالوجی اینڈ مائننگ ڈیپارٹمنٹ کی سروے پر مبنی اعداووشمار کے مطابق کپوارہ کے آوورہ اور زرہامہ میں اعلیٰ کوالٹی کے 8لاکھ میٹرک ٹن سنگھ مر مر کے ذخائر موجود ہیں۔ قدرت کے انمول معدنی وسائل سے مالا اس خطے کو لووں کو آج تک کوئی فائدہ نہیں پہنچا ہے کیونکہ وسائل بروئے کار نہیں لائے گئے اور معدنیات کی موجودگی کا فائدہ نہیں اٹھایا گیا۔ 1980میں نیشنل منرل پالیسی کے تحت ضلع کے وتر کھنی درگمولہ ،آورہ ،زرہامہ اور گزریال دیہات میں سنگ مر مر کی تلاش شروع کی گئی اور اسی سال وتر کھنی ،آوورہ اور زرہامہ میں سنگ مر مر نکالنے کا کام شروع کیا گیا ۔ ان علاقوں میں ماربل نکالنے کیلئے ریاستی حکومت کی طرف سے مختلف کانوں کو 80 کی دہائی کے اوائل میں لیز پر دیا گیا۔سرکاری ریکارڈ کے مطابق کپوارہ میں سنگ مر مر کسی بھی نجی پارٹی کے ذریعے آخری بار 1985 میں نکالا گیا تھا۔کچھ عرصے بعد ہی کپوارہ قصبہ سے محض 3کلو میٹر دور باتر گا م میں 8 نجی کارخانے قائم کئے گئے جن میں صورہ مار بل،جے کے منرلز،کھانڈے ماربل،ایس ایم الطاف ماربل ،نیاز احمد اور مبین احمد مارملز شامل ہیں ۔محکمہ جیولوجی اینڈ مائننگ کے مطابق زرہامہ اور آ وورہ علاقہ میں اعلیٰ درجے کے سنگ مر مر پایا جاتا ہے۔باتر گام ترہگام میں سنگھ مر مر کے متعدد نجی کارخانے قائم ہونے سے قریب 200لوگوں کو براہ راست روزگار مل رہا تھا جبکہ بلا واسطہ طور پر مزید سینکڑوں لوگ اس سے وابستہ تھے۔ کرالہ پورہ کے مضافات میں گزریال میں بھی 1985میں سر وے کے دوران سنگھ مر مر کے ذخائر پائے گئے لیکن جو ں ہی سرکار نے کپوارہ میں بڑے پیمانے پر ماربل نکالنے کا کام شروع کیا تو وادی میں حالات خراب ہو گئے اور یہ نجی کارخانے بھی بند ہوئے، سنگھ مر مر نکالنے کا کام ٹھپ ہوگیا، کان کنی بند ہوگئی اور مزدور بیکار ہوگئے۔جموں و کشمیر سرکار نے 2013میں تقریبا ًدو دہائیوں کے وقفے کے بعد، 30 شناخت شدہ کانوں سے ماربل نکالنے کے لیے ٹینڈرز طلب کیے ہیں۔ کپواڑہ ضلع کے 30 بلاکس میں ماربل کے ذخائر نکالنے کے لیے نجی کاروباریوں کو مدعو کیا گیا تھا۔محکمہ ارضیات اور کان کنی ترہگام، زرہامہ، آوورہ اور درگمولہ کے ماربل کے تقریباً 30 بلاکس کی نشاندہی کی جہاں 50 ملین کیوبک میٹر کے ذخائر دستیاب ہیں۔لیکن یہ حکومتی اقدام کوئی نتائج بر آمد نہیں کرسکا۔کپوارہ میں سنگ مرمر کے جو بڑے ذخائر موجود ہیں،یہاں سرمئی سفید سے سبز تک مختلف رنگوں کے ماربل کے ذخائر اور زیبرا کی پٹیوں والی جگہوں پر دستیاب ہیں۔1990کے میں باتر گام ماربل کارخانوں کے احاطے اور عمارتوں میں سیکورٹی فورسز نے ڈھیرہ جما لیا اور کئی دہائیوں تک وہ یہاں مقیم رہے۔کارخانوں پر تالے لگنے سے یہاں موجود مشینری زنگ آلودہ ہوگئی اور نجی کارخانہ مالکان کو لاکھوں روپے کا نقصان اٹھانا پڑا۔
روز گار کے مواقع
جیالوجی اینڈ مائننگ حکام کا کہنا ہے کہ اگر کپوارہ میں سنگھ مر مر کو نکالنے کا کام دوبارہ شروع کیا جائے تو نہ صرف اعلیٰ کوالٹٰ کا سنگ مر مر وادی میں دستیاب ہوجاتا بلکہ وادی کے لوگوں کو کم قیمت پر سنگھ مر مر دستیاب رہنے کے مواقعے فراہم ہوتے جس سے مزدوروں، پڑھے لکھے نوجوانوں، تربیت یافتہ افراد اور ٹرانسپورٹروں کو بڑے پیمانے پر روزگار مہیا ہوسکتا تھا۔انہوں نے کہا کہ سرسری اندازے کے مطابق کپوارہ کے لوگوں کو سرینگر سے مہنگے داموں ماربل لانا پڑتا ہے اور ایک مہینے میں تقریباً 50لاکھ روپے ماربل لانے پر اوسطاً خرچ کئے جارہے ہیں ۔انہوں نے کہا کہ اگر کپوارہ میں دوبارہ کان کنی کی شروعات کی جاتی توضلع کے 30بلاک اقتصادی طور خود کفیل ہوکرسینکڑو ں بے روز گار نوجوان اپنا رو ز گار حاصل کر سکتے ہیں۔ کپوارہ کے جن علاقوں میں سنگ مر مر پایا جاتا ہے وہاں سجا وٹی پتھر بھی موجود ہے، جو پہلے مکانوں کے فرش کے بطور استعمال ہوتا تھا۔کپوارہ کے سنگھ مر مر کے ذخائر کو نکالنے کیلئے فوری طور پر پالیسی اپنا کر اس ضلع کی پسماندگی کو بہت مختصر وقت میں دور کیا جاسکتا ہے۔