حضرت عباس علمدار کربلا، قمر بنی ہاشم کے والد ماجد امیر المومنین حضرت علی علیہ السلام ہیں ۔آپ کی والدہ ماجدہ کا نام فاطمہ جبکہ شہرت ام البنین سے ہوئی ولادت حضرت عباس سے عالم امکان کو ایک نئی روشنی ملی، افق علوی کے اس آفتاب نے دنیا کو وفا کے نور سے جگمگا دیا چونکہ حضرت عباس آغوش شجاعت میں پروان چڑھے تھے اور انہوں نے دامان ابوالائمہ علیہ السلام کے عصمتی کردار سے استفادہ کیا تھا لہذا آغوش اور ماحول کے اثرات نے انہیں عزت نفس، شہامت وجرات، طہارت و پاکیزگی، خرد کامل، علم وافر، اور اخلاق حمیدہ کا مہر نیم بنا دیا تھا قمر بنی ہاشم آفتاب امامت کے پرتو میں پروان چڑھ رہے تھے آپ نے جس جگہ قدم رکھا وہ شرافت وسیادت کی جگہ تھی ابوالفضل العباس علیہ السلام فضیلتوں کا مرکز تھے کرامت وبزرگی کا نمونہ اعلیٰ درحقیقت امام حسین علیہ السلام کی تجلی امامت کانام عباس ہے حضرت عباس علیہ السلام کے دہن میں امام حسین علیہ السلام کی زبان تھی اور ان کے قلب میں سید الشہداء علیہ السلام کی روح کار فرما تھی آپ کی بہادری اور شجاعت دیکھ کر ہی آپ کو علمدار اور سقائے سکینہ کی علمبرداری سونپ دی گئی کربلا میں حضرت عباس علمدار کے کارناموں کو دیکھنے کے بعد محققین کو ماننا پڑا کہ آپ میں جزبہ ایثار و فداکاری اپنے انتہائی عروج پر تھی اسی فدا کاری کا ایک منظر اس وقت بھی دیکھنے میں آیا جب آپ نے نہر فرات میں قدم رکھا پانی کو چلو میں لیا اور پھینک دیا چونکہ آپ کو یہ گوارہ نہیں تھا کہ امام حسین علیہ السلام کے حرم تک پانی پہنچنے میں لمحہ بھر کی تاخیر ہو خواہ یہ تاخیر ایک گھونٹ پانی پینے کے بقدر ہی کیوں نہ ہو ۔
حضرت عباس کی فدا کاری مدینہ سے شروع ہوکر کربلا تک اور عاشورہ کی صبح سے شروع ہوکر فرات کے کنارے زخموں وتیروں اور تلواروں پر تمام ہوتی ہے۔ حضرت عباس کی اس سرفروشی کے بعد ماننا پڑے گا کہ وہ ایثار و فداکاری کے بلند ہمالہ پر فروکش تھے جہاں معرکہ کربلا میں کوئی اور فدا نہیں پہنچ سکا۔
حضرت عباس علیہ السلام چونکہ خاندان امامت کے برجستہ ترین و شائستہ ترین فرد تھے لہٰذا سبھی فضائل ومناقب آپ کی سرشت میں پائے جارہے تھے اور خاندان نبوت کی ساری شرافتیں آپ کو ورثہ میں ملی تھیں۔ آپ خاندان نبوت کے علم و عمل کی مناسب تصویر تھے اور اس گھرانے کی ساری خصوصیتیں آپ میں منتقل ہوئی تھیں۔ حضرت عباس علیہ السلام مسند شرف و فضیلت کے صدر نشین تھے۔ آپ جس بزم میں وارد ہوتے تو آپ کی ہیبت ووقار سے حاضرین دمبخود ہوجاتے تھے۔
حضرت عباس ابتداء عمر سے حق کی سربلندی کے خواہاں اور ذلت و رسوائی سے بیزار و متنفر تھے ۔آغوشِ عصمت کی پرورش نے آپ میں شجاعت وشوق شہادت زندہ کردیا تھا لہٰذا اسلام کی حفاظت کیلئے آپ کا یہی مطمح نظر رہا یا دشمن کو تہہ تیغ کردیں یا خود جام شہادت نوش کریں اسی لئے عباس علمدار کیلئے ممکن نہیں تھا کہ آپ ذلت بار حیات کو شہادت پر ترجیح دیں۔ عباس اس زندگی کے خواہاں نہیں تھے جس میں ان کا بھائی حسین اپنے اہلِ حرم کے ساتھ سختی واذیت میں زندگی گزار رہا ہو بلکہ عباس علیہ السلام کا وجود کربلا میں امام حسین علیہ السلام کے حامیوں میں زبردست حامی کی حیثیت رکھتا تھا ۔آپ کے وجود سے اہلِ حرم میں ڈھارس تھی جب تک علم بلند رہتا اہل حرم کے دل کو قرار رہتا اس لئے امام حسین علیہ السلام نے آخری وقت تک اس مجاہد کو اجازت جنگ نہیں دی۔ غرض حضرت عباس اپنے بھائی امام حسین علیہ السلام کے شانہ بشانہ کھڑے رہے حضرت عباس علیہ السلام میں لشکر کو متحد کرنے ان کے حقوق کی نگرانی کی بھی بے پناہ قوت تھی جنگ کے نشیب وفراز میں آپ انہیں ثابت قدم رکھ سکتے تھے آپ آخری دم تک سقائے سکینہ کے فرائض بھی نبھاتے رہے اور اسی راہ میں جام شہادت نوش فرمائی۔
رابطہ۔خانپورہ کھاگ