پروفیسر قدوس جاوید
مرزا غالب کا شعر ہے
ایک دو ہوں تو سحر چشم کہوں
کارخانہ ہے واں تو جادو کا
حضرت میاں بشیر احمد لاروی کی شائع کردہ کتاب ’’متاعِ فقر و دانش میں شیخ المشائخ حضرت میاں عبداللہ المعروف ’’بابا جی صاحب ‘‘کے کشف و کرامات ،سحرِ چشم اور کرشمہ ناز و خرام کی ایک ایک ادا کو اس طرح شرح و بسط کے ساتھ بیان کیا گیا ہے کہ اب تو بس اتنا ہی کہا جا سکتاہے کہ
بسیار شیوہ ہاست بتاں را کہ نام نیست‘‘
دراصل ،شائد ہی کوئی ایسا بدنصیب ہوگا جو بابا جی صاحب کے روحانی مقام و مرتبہ سے ا ٓگاہ نہ ہو لیکن یہ بھی ایک سچ ہے کہ کچھ لوگ ہیں جو اگرچہ بابا جی صاحب کی دُعائوں کے طُفیل ہی کچھ سے بہت کچھ ہو گئے ہیں ،لیکن دولت و امارت ، منصب اور مرتبہ کی وجہ سے بعضوں کے دلوں میں بابا جی صاحب جیسے صوفیا اور مشایخ کے عشق کی آگ کچھ سر د ہوتی بھی نظر آنے لگی ہے ۔ اور مِن حیث القوم ہمارے زوال کا ایک سبب یہ بھی ہے لیکن غور کیجئے تو محسوس ہوگا کہ ایسے لوگوں کو بابا جی صاحب کی برکات زبان حال سے خود ہی کہتی ہوئی نظر آتی ہیں کہ
پتہ پتہ ، بوٹا بوٹا حال ہمار ا جانے ہے
جانے نہ جانے گُل ہی نہ جانے باغ تو سارا جانے ہے
دراصل برِصغیر ’ہندو پاک میں ، دین اسلام کی دعوت و تبلیغ کے حوالے سے جن صوفیاء۔کرام نے انتہائی محنت و ریاضت اور مجاہدہ و مکاشفہ سے کام لے کر اسلام کی شمع روشن کی ان میں ’شیخ المشائخ حضرت محمد عبداللہ ۔المعروف بابا جی صاحبؔ لاروی کی شخصیت ایک مثالی حیثیت کی حامل ہے ۔اس کی سب سے بڑی وجہ یہ ہے کہ بابا جی صاحب نے جنگلوں ،پہاڑیوں بیابانوں کے پسماند ہ باسیوں کو کُفر و الحاد کی تاریکیوں سے نکال کر ایمان و ایقان کی روشن راہوں پر گامزن کیا ،اور ان کے بعد ان کے خانوادے کے حضرت میاں نظام الدین لاروی ، حضرت میاں بشیر احمد لاروی اور جناب میاں الطاف احمد صاحب لاروی کے علاوہ بابا جی صاحب کے دیگر عقیدت مند ، بابا جی صاحب کے مشن کو بڑے خلوص کے ساتھ آگے بڑھا رہے ہیں ۔ یہی وجہ ہے کہٍ پورے سال ریاست اور ملک کے کونے کونے سے بابا جی صاحب کے عاشقان انہیں خراج عقیدت نذر کرنے کے لئے دربار بابا جی صاحب ’وانگت شریف‘‘ آتے رہتے ہیں ۔
حضرت بابا جی صاحب ’راسخ فی العلم عالم تو تھے ہی ، راسخ ا لعمل روحانی بزرگ بھی تھے ۔ راسخ فی العلم ‘اس عالم کو کہتے ہیں جس کا علم اس کے دل میں اتر گیا ہو ،جیسے مضبوط درخت وہ ہے جس کی جڑیں زمین میں جگہ پکڑ چُکی ہوں ۔اور جو ایسا عالم اور بزرگ ہوتا ہے اس کی صحبت دوسروں کو بھی خوش عقیدہ اور باعمل بنا دیتی ہے ۔ جموں و کشمیر کے عوام، بلا لحاظ مذہب و ملت بابا جی صاحب کے مقام و مرتبہ اور کردار ساز فیوض و برکات سے اچھی طرح واقف ہیں ۔پھر بھی یہ کہے بغیر نہیں رہا جاتا کہ سرزمین کشمیر کو ایک طرف جہاں قدرت نے نہایت فیاضی سے ظاہری حسن و جمال سے سرفراز کیاہے۔ وہیں دوسری جانب ، خالق ِ کائنات کے کرم سے اہالیانِ کشمیر کے باطن کو نور ایمان و ایقان سے منور کرنے کا فریضہ صوفیاء۔اور اولیا کرام نے انجام دیا۔اور یہی اس سرزمین کا اصلی حُسن ہے ۔
اور یہ بابا جی صاحب جیسے صوفیوں اور ولیوں کی خاک پا کی ہی برکت ہے کہ ہزارہا مصائب اور مسائل کے باوجود ،ریاست ’’جموں و کشمیر‘‘ میں’’ بات اب تک بنی ہوئی ہے‘‘ ورنہ اہل کشمیر (خصوصاً پسماندہ درجِ فہرست اقوام اور قبائل) نے ہزاروں سال کی تاریخ میں ایسے ایسے جبر اور قہر کا سامنا کیا ہے کہ اگر کوئی اور قوم ہوتی تو شائد خدا نخواستہ اب تک فنا ہو چکی ہوتی۔اور داستانوں میں بھی ان کی داستان ڈھونڈے سے نہیں ملتی ۔ لیکن حق یہ ہے کہ بابا جی صاحب جیسے صوفیا کامل کے قدموں کی خاک کی برکت سے یہ سرزمین ، اور یہاں کی غریب قومیں ،اپنی لسانی،تہذیبی اور پیشہ ورانہ شناخت کے ساتھ اپنا تاریخی وجود قایم رکھے ہوئی ہیں ۔جموں و کشمیر میں ،حضرت عبدالرحمن بُلبل شاہ ؒ،شیخ نورالدین نورانیؒ ، حضرت مخدوم حمزہؒ، حضرت میر سید علی ہمدانیؒ، لل دید، روپا بھوانی اور سینکڑوں دوسرے صوفیا اور اولیائے کرام کی ایمانی و ایقانی روایات کو عام کرنے کے لئے ہی حضرت میاں عبداللہ بابا جی صاحب کو’’ہزارہ‘‘( مظفر آباد ) سے ’’وانگت ‘‘کشمیر میں مسند روحانیت پر سرفراز کیا گیا۔
بابا جی صاحب کی عظیم روحانی شخصیت ،کمالات و کرامات اور تعلیمات و معجزات کے بارے میںان کے ارادت مند حضرات مجھ سے زیادہ معلومات رکھتے ہیں ۔ ’سینہ بہ سینہ اور بابا جی صاحب کی اپنی تصنیفات’’اسرار کبیری‘‘ ،ملفوظات نظامیہ ‘ا ور شعری کلام کے علاوہ حضرت میاں محمد بشیر صاحب مرحو م و مغفور کی شائع کردہ کتاب ’’متاعِ فقر و دانش ‘‘ کے وسیلے سے ’صفحہ در صفحہ، بابا جی صاحب کی عظیم شخصیت، بزرگی، کمالات اور معجزات سے متعلق معلومات کا ایک دریا موجیں مارتا ہوا ہم/آپ سب کے سامنے موجود ہے ۔ پھر بھی نئی نسل کے نو جوانوں کو بابا جی صاحب کے حوالے سے’’ تصوف‘‘ اور’ ولایت‘ کے بارے میں چند بنیادی باتوں کے بارے میں بھی جاننا مفید ہوگا ۔
تصوف کی تعریف، تعبیر و تشریح کے معالے میں علما ء۔کے درمیان اختلاف رائے ملتا ہے ۔ پھر بھی عام طور پر یہ مانا جاتا ہے کہ ’’ تصوف‘‘ مذہب یا دھرم ( Religion ) نہیں بلکہ مذہب کے عقائد ،شرائط اور رسومات کے زیر سایہ پروان چڑھنے والا ایک ’روحانی نظام‘ ہے ،جس کا تعلق انسان کی خارجی کائنات سے زیادہ باطنی دنیا سے ہوتا ہے ۔ اسلامی تصوف کی غرض و غایت بھی ’’ترکِ دُنیا ‘‘نہیں بلکہ ظاہری رسوم و قیود کے مناسب احترام کے ساتھ ایک ایسا ’روحانی ‘ سلسلہ ہے جس کی انتہا ’خالقِ حقیقی‘‘ سے ایسی قُربت ہے کہ بندہ اور خُدا ‘‘میں ’’من و تُو ‘‘ کا فرق مِٹ جائے ۔’تُو من شُدی ،من تُو شُدی ‘ اپنے وسیع معنوں میں ’رضائے اِلہی کے لئے ’مادی اور روحانی زندگی کو توازن کے ساتھ برتنے کے سلیقے کا ہی دوسرا نام ’تصوف ‘‘ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ تصوف کی اصطلاح کا تعلق ’صوف ‘( اون سے بنا لباس ) صُفہ ‘ یا ’صفائی ‘ جیسے الفاظ سے ہے ۔ نبی اکرم ﷺ کا ارشاد ہے،
’’ ذَھَبَ صَفوُ الدُنیا َ وَ بَقَیَ کَدِرُھاَ‘‘( دنیا کی /سے صفائی رُخصت ہو گئی ،اور کدورت باقی رہ گئی۔‘‘
کسی بھی چیز کی لطافت کا نام ’صفا ‘ ہے،اور اس کی کثافت کو ’کدورت ‘ کہتے ہیں۔ ’صفا ‘ کدورت کی ضد ہے اور کدورت ایک انسانی خصلت ہے ۔اسی حوالے سے حقیقی’ صوفی‘ وہ ہوتا ہے ،جو ہر طرح کی ’کدورت ‘ کی منزل سے گزر جائے / نفسی کدورتوں پر قابو پالے ۔ حضرت بابا جی صاحب کی زندگی کے حالات و کوائف سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ انہون نے ہر طرح کی کدورتوں سے خود کو الگ تھلگ رکھ کر اپنے اندر’ صفائی اور پاکیزگئی قلب‘ کی صفات پیدا کر لی تھی ۔ حضرت بابا جی صاحب ک’صوفیت ‘ کو کئی سارے صوفیا کرام کے اقوال کے علاوہ حضرت داتا گنج بخش سید ابوالحسن علی ہجویری (وفات۔ ۴۶۵ھ) کے فرمودات کے حوالے سے بھی سمجھا جا سکتا ہے ۔انہوں نے اپنی کتاب ’’ کشف المحجوب ‘‘ میں، ’تصوف ‘ اور ’صوفی ‘ کے معنی و مفہوم کی تہوں کو کھولتے ہوئے لکھا ہے ۔
’’تصوف اخلاق اور آداب کا نام ہے۔’’اگر تصوف ’رسوم‘ کا نام ہوتا ،تو اسے ’مجاہدے ‘ کے ذریعے حاصل کیاجا سکتا ، اور اگر یہ محض ’علم ہوتا ‘تو سیکھنے اور پڑھنے سے حاصل ہو جاتا،لیکن یہ (تصوف) تو مخصوص ’اخلاق ‘کا نام ہے ،جب تک انہیں اپنے اندر پیدا نہ کیا جائے اور ان کے ذریعے اپنی ’ذات ‘ کے اندر اصلاح نہ کی جائے ،اس وقت تک ’تصوف ‘ حاصل نہ ہو گا ‘‘۔
’رسومات‘ اور علوم‘ سے ماورا حضرت بابا جی صاحب کی ذات کی صفات ، عادات و اطوار اور راہ و رسم کی تفصیلات پر غور کریں تو معلوم ہوگا بابا جی صاحب ’مجسم اخلاق ‘ و آداب تھے ۔ اسی لئے وہ ایک صافی ’صوفی ‘ اور ولی کامل اس بات کو مزید سمجھنے کے لئے تصوف اور صوفی کی بنیادی خصوصیات کو ذہن میں رکھنا ہوگا ۔ ۔ تصوف آٹھ خصلتوں پر مبنی ہوتا ہے ۔
۱۔ سخاوت ۔(حضرت ابراہیم ، جنہوں نے اللہ کی خوشنودی کے لئے بیٹے کی قُّربانی دی ) ۔۲۔ رضا( حضرت اسماعیل۔ ) ۔۳۔صبر( حضرت ایوب)۔۴ ۔ اشارہ۔ (گُفتگو کا بدل ۔ کم گوئی ،حضرت زکریا) ۔۵۔ غریب الوطنی ( رضائے الہی کے لئے ہجرت، دوئم ، دنیاوی معاملات سے دوری ) ؐ ۔۶ ۔ اونی / سادہ لباس ۔۷۔ سیر و سیاحت ( تبلغ دین کی خاطر نکلنا )۔۸۔ ’فقر ( دُنیاوی مال و دولت سے بے نیازی( نبی اکرم ﷺ کی اقتدا ۔ اللہ نے آپ ﷺ کو زمین کے تمام خزانوں کی کُنجیاں عطا کی تھیں،لیکن ہمارے نبی نے فرمایا تھا ؛
’’اے میرے رب ، میں اس پر راضی ہوں ، کہ تو مجھے ایک دن کھانے کے لئے دے اور دو دن بھوکا رکھے ‘‘۔(کشف المحجوب ۔ ص ۔ ۳،۱۰۲۔)
بابا جی صاحب کی حیات و خدمات ، عادات و اطوار سے متعلق دستاب معلومات اور تصنیفات ( مثلا ۔متاعِ فکرو دانش ) پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ بلا شُبہ بابا جی صاحب کی ذات میں تصوف کی سبھی شرائط اور ’صوفی کی تمام خوبیاں بہ درجہ اتم موجود تھیں ۔ بابا جی صاحب پیدائشی ولی تھے ۔ ان کے پوتے حضرت میاں بشیر احمد لاروی نے اپنی کتاب ’ متاعِ فقر و دانش‘ میں بابا جی صاحب کی ولادت کے بارے میں لکھا ہے؛
’’ جب بابا جی صاحب کی والدہ حضرت مائی حلیمہ آمید سے تھیں تو وہ اس دور کے ولی کامل حضرت مولانا نظام الدین المعروف ’مولوی دادا ‘ کی خدمت میں حاضر ہوئیں اور اپنی تکلیف بتائی ۔مولوی دادا نے سُنتے ہی فرمایا ، ’’ولی کا ظہور ہونے والا ہے ۔ اس لئے باوضو رہا کریں اور بلا ناغہ نماز ادا کیا کریں‘‘۔
جب بچے( بابا جی صاحب) کی پیدائش ( ۱۸۶۳ء۔ بمقام ،نہجوڑ ہ،ضلع ہزارہ۔۱۸۶۳ء ) کا وقت آیا تو ان کے پیر و مُرشِد حضرت مولانانظام الدین المعروف ’’مولوی دادا صاحب صاحب ،جو تقریباً پانچ کلومیٹر دور رہتے تھے ،اچانک تشریف لے آئے ،بچے کو گود میں لیا ،کان میں ازان دی اور عبداللہ نام رکھا ۔ پھر گھر والوں کو تاکید کی کہ’’ اس بچے کا خاص خیال رکھیں ،بول چال کے وقت بھی اللہ تعالی کی طرف دھیان رکھا جا ئے ، کیونکہ یہ بچہ مادر زاد ولی ہے ، اور آنے والے دور میں رحمت کا نور بن کر چمکے گا ۔ ( متاعِ فقر و دانش ۔ص، ۳۲۔ )
مولوی دادا(حضرت نظام الدین کی اس پیشن گوئی کے مطابق والدہ محترمہ نے اسی انداز سے باباجی صاحب کی پرورش شروع کی۔ ابھی ان کی عمر چار برس کی ہی تھی کہ والد بزرگوار حضرت میاں فضل گُل صاحب کا سایہ سر سے اُتھ گیا ۔ والدہ انہیں لے کراپنے بھائی کے گھر چلی آئیں ۔ اس چھوٹی عمر میں بھی بابا جی صاحب اپنا وقت عبادت و ریاضت میں ہی گزارتے ۔ ان کے ماموں قبیلے کے دوسرے بچوں کی طرح آپ کو بھی اکثر مویشی چرانے کے لئے بھیجتے لیکن اس کا م میں ان کا دل نہیں لگتا ۔ ماموں بھی سمجھ گئے کہ یہ بچہ مویشی چرانے کے لئے نہیں ، عبادت و ریاضت کے لئے پیدا ہوا ہے ۔ چو نکہ بابا جی صاحب کی والدہ بھی عبادت گزار خاتون تھیں اس لئے انہوں نے بھی اپنے فرزند کی روحانی تربیت میں کوئی کمی نہ کی ۔ کلام پاک پڑھوایا ، اور دیگر مذہبی تعلیمات بھی دلوائیں۔ تنہائی میں یکسوئی کے ساتھ عبادت کی غرض سے بابا جی صاحب نے پہلے تو اپنے خاندانی قبرستاں میں ایک جگہ عبادت خانہ بنایا ۔ اور دو سال تک وہاں چلہ کیا ۔ جب والدہ محترمہ کا انتقال ہو گیا تو ایک دن بابا جی صاحب کھجور کے چند دانے لے کر والدہ کی قبر کے بغل میں بنی ہوئی ایک قبر میں داخل ہوکر ذکر اللہ میں ایسے مشغول ہوئے کہ پانچ برس تک باہر نہیں آئے ۔ لوگوں نے خیال کیا کہ شائد بابا جی صاحب فوت ہوچکے ہوں گے ۔ لیکن جب وہ قبر کھودی گئی تو لوگ یہ دیکھ کر حیران رہ گئے کہ بابا جی ٹھیک ٹھاک دوزانو بیٹھے ہوئے اللہ ھو،اللہ ھو‘ کے ورد میں مصروف تھے ۔ بابا جی صاحب کی عمر جب اٹھارہ سال کے قریب ہوئی توبابا جی صاحب ولایت کے اس مقام پر پہنچ چکے تھے جس مقام پر بندہ ہمہ وقت ’وصل حقیقی‘‘ کی تلاش و جستجو میں حیران و پریشان رہتا ہے ۔ ۔چنانچہ اسی بے چینی کے عالم میں ایک روز ،بابا جیصاحب ، مولوی دادا کی کی خدمت میں حاضر ہوئے ۔ رمضان کا مہینہ تھا مولوی دادا کی ’لیتری ‘میں گھاس کی کٹائی ہو رہی تھی ۔ بابا جی بھی دن بھر گھاس کی کٹائی کرتے رہے ۔ شام کو مولوی دادا نے حُکم دیا کہ مغرب کی نماز تُم پڑھائوگے ۔ چنانچہ،حسبِ حُکم باباجی نے مغرب کی نماز کی امامت فرمائی اور ولی کامل حضرت مولینا نظام الدین المعروف مولوی دادا نے ان کے پیچھے نماز پڑھی ۔ ۱۸۸۰ء۔ کے آس پاس کا یہ وہ زمانہ ہے جب بابا جی صاحب ’’سلوک ‘‘ کے کئی مرحلوں سے گزر کر ادراک و عرفان اور ’’فنا فی للہ ‘‘ کی منزل تک جا پہنچے تھے بابا جی نے اپنی کتاب ’’ملفوضات نظامیہ‘‘ میں خود لکھا ہے؛
’’ اُن دنوں میرے ناخنوں سے لے کر سر کے بالوں تک ،ہر چیز سے ’’اللہ ھو،اللہ ھو‘‘ کی آواز آتی تھی ‘‘۔ بابا جی صاحب ، اپنی اس کیفیت سے بے چین تھے اور وصال حق کے لئے مولوی دادا سے بیعت کے خواہش مند تھے ۔ لیکن مولوی دادا نے کہا ،’’ ہم تو قُمریوں کی طرح چھوٹی چھوٹی اُڑانیں بھرتے ہیں ،لیکن آپ ’’شاہ باز ‘‘ ہو ،جس کی پرواز آسمانوں کو چھوتی ہے ۔اس لئے آپ کو بیعت کرنے کی طاقت میرے اندر نہیں ،۔۔۔آپ کا حصہ علاقہ دراوہ میں حضرت نظام الدین کیانوی کے پاس ہے، آپ ان سے ہی بیعت کریں ۔۔۔۔۔اسی دوران بابا جی صاحب نے خواب میں اپنے مُرشد کو دیکھا جنہوں نے آپ کو اشارہ دیا کہ ’’مشرق کی طرف آ ‘‘۔چنانچہ بابا جی کنیاں شریف گئے اور حضرت نظام الدین کیانوی سے بیعت حاصل کی ۔( متاعِ فقر و دانش۔ص۔۳۵)۔
اس زمانے یعنی اٹھارہویں صدی کے ا خیر اور انیسویں صدی کے اوائل میں مظفر آباد کے علاقہ ’دراوہ‘ کا گائوں کنیاں چُنجاٹھ بلند و بالا پہاڑی سلسلوں اور جنگلوں سے گِھرا ہوا ایک پُرسکون گائوں تھا جو میاں نظام الدین کی عبادت و ریاضت ، خدمت خلق اور فیض عام کے سبب آگے چل کر’’ کنیاں شریف‘‘ کے نا م سے مشہور ہوا اور آج بھی قریب و دور کے عوام کے لئے مرجع خلائق ہے ۔ کنیاں شریف مسلک ’’نقش بندیہ مجددیہ‘‘ کا مرکز بنا ہوا تھا اور حضرت میاں نظام الدین کی رہنمائی سے سارا علاقہ فیضیاب ہو رہا تھا۔یہا ں اس بات کا ذکر بھی مفید ثابت ہوگا کہ ، یوں تو ’صوفیاء۔ کے کئی سلسلے ہیں لیکن برِ صغیر ہند و پاک میں صوفیاء۔ کے چارسلسلے مشہور ہوئے ہیں ،۱۔چشتیہ۔ ۔۲۔قادریہ۔ ۳۔سُہر وردیہ۔اور ۴۔نقش بندیہ ۔بابا جی صاحب کا تعلق ’’نقش بندیہ‘‘ سلسلے سے تھا ۔ اس بات کی شہادت سید باغ حسین شاہ بُخاری کے کلام سے بھی ملتی ہے ۔نقش بندیہ مجددیہ سلسلے کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ’ اس مسلک میں دین کی پیروی اور قران و سنت کی تابعداری ہر حال میں لازمی قرار دی گئی ہے۔ حضرت میاں نظام الدین کیانوی کے آبا و اجدادمغل دور میں افغانستان سے دہلی آئے تھے ۔کئی پشتوں تک ان کا قیام دہلی میں ہی رہا ۔لیکن حضرت میاں نظام الدین کے والد ماجد حضرت ملوک خاں جو بڑے دین دار صوفی منش،اللہ والے باکمال بزرگ تھے ۔ دہلی کے سیاسی اور سماجی حال احوال سے بیزار ہوکر پہلے ’مانسہرہ ‘ اور پھر مظفر آباد آگئے لیکن پھر کچھ عرصہ قیام کے بعد ’وادیٔ نیلم ‘‘ کے گاوں’ کنیاں جُجھاٹھ‘ آکر مستقل سکونت اختیار کرلی اور عبادت و ریاضت میں محو ہو گئے ۔ وہ’ منگل دھار‘ میں پہاڑوں کے بیچ ’’چِلہ کشی‘‘ کرتے رہے اور روحانیت کے اعلی مقام تک پہنچ گئے ۔ حضرت نظام الدین کی روحانیت اور کشف و کرامات کی شہرت اتنی پھیلی کہ دور دراز علاقوں سے لوگ جوق در جوق حضرت کے آستانے پر آنے لگے ۔ اور اس طرح دیکھتے ہی دیکھتے کنیاں منگل دھار گائوں، سلسلہ نقش بندیہ اور تبلیغ دین کا مرکز بن گیا ۔حضرت بابا جی صاحب کی دستار بندی اسی کنیاں شریف میں حضرت نظام الدین کیانوی کے دست مبارک سے ہوئی اور بابا جی صاحب نے تصو ف و لایت اور تبلیغ دین کا سلسلہ ہزارہ سے کشمیر آکر’’ کنیاں شریف‘‘ سے مماثلت رکھنے والے پہاڑوں اور جنگلوں سے گھرے ہوئے علاقہ ’’وانگت‘‘ میں قائم کیا جہاں آج بھی دور دراز علاقوں سے ہندو، مسلان سکھ اور ہر ذات برادری ،قوم اور قبیلہ کے عقیدت مند پا بندی سے آتے ہیں اور اپنی اپنی مرادوں کی جھولیاں بھر کر جاتے ہیں ۔
آج کی تاریخ میں ’’مسلم اُمہ ‘‘ مختلف مسالک ، فرقہ بندی ،ذات پات اور قوم پرستی سے دو چارہے ۔بد قسمتی سے ان اختلافات کو بعض قوتیں اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ہوا دے رہی ہیں حالانکہ یہ صورت حال دین اسلام کے کائناتی نظام انسانیت ( Universal System for Human being ) اور ’’اتحاد بین المسلمین ‘‘کی روح کے منافی ہے ۔ رسول پاک ﷺکے خُطبہ حجتہ ُالوداع‘ کے الفاظ اسے واضح کرنے کے لئے کافی ہیں جس میں انہوں نے فرمایا تھا ؛
’’۔۔۔۔۔۔ اے لوگو ؛ اللہ تعالی کا ارشاد ہے :’’ہم نے تم سب کو ایک ہی مرد و عورت سے پیدا کیا ہے اور تمہیں جماعتوںاور قبیلوں میں بانٹ د یا تاکہ تم لوگ الگ الگ پہچانے جا سکو۔لیکن تم میں عزت و احترام والا ،اللہ کی نظروں میں وہی ہے جو اللہ سے زیادہ ڈرنے والا ہے، پس کسی عربی کو عجمی پر فضیلت ہے نہ کسی عجمی کو عربی پر، نہ کالا گورے سے افضل ہے،نہ گورا کالے سے ۔ہاں بزرگی اور فضیلت کا معیار صرف تقوی ہے ‘‘۔
بعض مفسرین رسولِ پاک ﷺکے اس خطبے سے ایک مفہوم یہ بھی نکالتے ہیں کہ’’دنیا کے سارے انسان آپس میں بھائی بھائی ہیں ۔ کسی بھی عربی کو کسی عجمی پر کوئی فوقیت نہیں۔فوقیت اور افضلیت کی بنیاد صرف تقوی ، نیک عمل ہے ‘‘۔
ظاہر سی بات ہے ’’اللہ‘‘ رب العالمین ‘ ہے صرف اور محض ’’رب المسلمین ‘‘ نہیں ہے ۔ اور اگر صوفیا ء۔اور اولیا ء۔کرام کے اعمال و اقوال پر غور کریں تو اندازہ ہوگا کہ ان کا پیغام بھی تمام عوام الناس کے لئے ہے ۔ المیہ یہ ہے کہ اسلام کی اس بنیادی تعلیم کو خود مسلمانوں نے بھی یاد نہیں رکھا اور کم نظری اور تنگ دلی کا شکار ہوکر اپنے آپ کو ذات برادری کے حصار میں بند کر لیا ۔ علامہ اقبال نے اسی لئے کہاتھا؎
یوں تو سید بھی ہو، مرزا بھی ہو پٹھان بھی ہو
تم سبھی کچھ ہو بتائو تو مسلمان بھی ہو
اور اقبال نے ماضی میں مسلمانوں کے عروج اور عصر حاضر میں قوم کے زوال کی وجہ بھی بتائی ہے ۔
وہ زمانے میں معزز تھے مسلماں ہو کر
ہم ہوئے خوار فقط تارکِ قراں ہو کر
اب یہاں عرب،اور تُرکیہ، ایران اور ہندوستان میں صوفیاء۔اور اولیا کے ذکر سے صرف نظر کرتے ہوئے حضرت بابا جی صاحب کے تصوف اور ولایت کے کمالات اور معجزات کے بیان تک آئیں تب بھی یہ معاملہ بڑا تفصیل طلب ہو جائے گا ۔پھر بھی ہر شخص جانتا ہے کہ بابا جی صاحب کو ان کے روحانی مقام و مرتبہ کی بنا پر ہزارہ سے کشمیر (وانگت ) بھیجا گیا تھا تاکہ اس خطے کی تقدیر بدل سکے اور ایسا ہوا بھی ۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ دین اسلام کی آمد سے قبل ، زمانہ قدیم سے ہی کشمیر کی پہاڑیاں ہندو اور بودھ رشی مُنیوں کی عبادت و ریاضت ، تیاگ اور تپسیا کی آماج گاہ رہی ہیں اس کے شواہد ماقبل تاریخ کی تصنیف ’’ نیل مت پران‘‘ کے علاوہ پنڈت کلہن کی تصنیف ’’راج ترنگنی ‘‘ میں ملتے ہیں۔ نیل مت پُران وہ تصنیف ہے جس سے پنڈت کلہن کے علاوہ انگریزی اور دیگر کئی زبانوں کے مورخین نے کشمیر کی تاریخ لکھتے ہوئے استفادہ کیا ہے ۔ پنڈت کلہن نے ’’راج ترنگنی ‘‘ میں کشمیر کی افسانوی تاریخ بیان کی ہے لیکن ’’نیل مت پُران‘‘ میں خاص طور پر قدیم کشمیر کے مقاماتِ مقدسہ کا بیان ہے اور ’آشرم، برہم چریہ‘ اور’ سنیاس‘ جیسی اصطلاحات کی تشریح کی گئی ہے ،جو گرچہ غیر اسلامی عقائد اور مفروضات پر مبنی ہیںلیکن حضرت بابا جی صاحب نے دین اسلام کی تبلیغ کے علاوہ مختلف اقوام اور مذاہب کے مابین اتحاد اور یکجہتی کی جوروایت قائم کی تھی ، اس کاکشمیر کی انسان دوست ، سیکولر روایات سے گہرا رشتہ ہے۔
ان روایات کو بابا جی صاحب کے بعد ان کے فرزند حضرت میاں نظام الدین ، ان کے پوتے میاں بشیر احمد لاروی نے آخر دم تک زندہ رکھا اور آج بھی جناب میاں الظاف صاحب کی نگرانی اور سرپرستی میں دربار بابا جی صاحب ’وانگت شریف‘ میں روحانیت ، تبلیغ دین اور قومی یکجہتی کی سرگرمیاں جاری ہیں اور شیخ المشائخ حضرت میاں عبداللہ المعروف ’’ بابا جی صاحب کا قایم کردہ یہ مرکز رُشد و ہدایت آج بھی جموں و کشمیر بلکہ پورے برِ صغیر کی خلقت کے لئے محورِ ایمان و ایقان بنا ہوا ہے ،جہاں بلا تفریق مذہب و ملت جو چاہے اس دربار میں حاضری دے کر اپنی عاقبت سنوارنے کی راہ آسان کر سکتا ہے ۔ اگر عقیدہ پُختہ اور ارادہ مستحکم ہوتو سری نگر سے ’بابا نگری ‘تک کی ۴۵، ۵۰ میل کی مسافت جیسے لمحوں میں طے ہو جاتی ہے ،جا کر دیکھئے !۔
(مضمون نگارکشمیر یونیورسٹی کے شعبہ اردو کے سابق صدرہیں اورآپ کایہ زیر نظر مضمون ایک طویل مقالے کا مختصر حصہ ہے۔)
موبائل 09419010472،9018618504
میل۔[email protected]