ریاستی حکومت نے سرکاری ملازمین پر سوشل میڈیا پر اپنے سیاسی خیالات کے اظہار یا کسی سیاسی شخصیت کے پوسٹ، ٹویٹ یا بلاغ سے اتفاق کرنے کے عمل پر پابندی عائید کرکے ایک نئے مباحثے کا دروازہ کھولا ہے کہ کیا سرکاری ملازمین حکومت کے سیاسی نظریات و اظہارات سے اتفاق کرنے کے تابع ہیں اور انہیں اپنے خیالات رکھنے کا کوئی حق نہیں ہے۔ فیصلے پر کم و بیش تمام سیاسی جماعتوں ، جن میں ریاست کا مزاحمتی خیمہ بھی شامل ہے، نے زبردست برہمی کا اظہار کرتے ہوئے اسے ملازمت طبقہ کے بنیادی حقوق چھین کر ایک آمرانہ سوچ کو مسلط کرنے کا اقدام قرار دیا ہے۔ ریاستی حکومت نے سرکاری ملازمین کے کنڈکٹ رولز مجریہ1971کے رول 13سب رول4میں ترمیم کرکےSRO525کے ذریعہ پر پابندی عائید کردی ہے۔ حالانکہ یہ بات شاید ہی بتانے کی ہے کہ افکار و اظہار کی آزاد کا حق ایک انسانی حق ہے، جس کی حقوق انسانی سے متعلق اقوام متحدہ کے آفاقی اعلان کے ذریعہ توثیق ہوئی ہے اور ہندوستان سمیت تمام ممالک اس اعلان کو تسلیم کرتے ہیں ۔ظاہر ہے کہ آزادیٔ اظہار کا حق ساری دنیا میں مروج اور محترم ہے، اِلاَّماشا اللہ ایسی مملکتوں میں جہاں آئین و قانون کا راج نہیں ہو اور جو ہمیشہ عالمی برادری کی جانب سے ہدف تنقید بنتی رہتی ہیں، اس کے علاوہ ہندوستان بھر میں آئین و قانون کے تحت عوام کو جو بنیادی حقوق حاصل ہیں اُس میں اختلاف کے اظہار کا حق بھی شامل ہے۔لہٰذا اگر سماج کے کسی ایک طبقہ کو اس سے محروم کر دیا جائے تو اس کے منفی مضمرات سے انکار کرنا سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہوگا۔ عام لوگوں کی جانب سے چند ایک سوالات پوچھے جا رہے ہیں، جنکا جواب مذکورہ ایس آر او میں موجود نہیں ہے، کیونکہ اس میں جو عبارت موجود ہے وہ کئی اعتبا رسے مبہم ہے۔ عبارت میں ملازمین پر یہ باور کرایا گیا ہے کہ وہ کسی سیاسی شخصیت کے پوسٹ، ٹویٹ یا بلاگ کی توثیق نہ کریں۔کیااُنہیں سوشل میڈیا پر اپنی آراء رکھنے کا حق ہوگا، اور اگر وہ آراء برسراقتدار سیاسی جماعتوں کےخلاف ہونگی یاحکومتی اقدامات یا پالیسیوں سے اختلاف ظاہر کر رہا ہوگا۔ یہ سب وضاحت اسمیں موجود نہیں۔ دوسرا اہم سوال یہ کیا جا رہا ہے کہ کیا ایسا کوئی حکمنامہ ملک بھر میں کسی اور ریاست میں بھی موجود ہے۔نیزاس وقت سوشل میڈیا عالمی سطح پر اظہار کا سب سے بڑا ذریعہ مانا جاتا ہے اور اس کے توسط سے اعلیٰ مراتب کے حامل سرکاری عہدہ دار اپنی آراء اور خیالات کا کھلم کھلا اظہار کرتے رہتے ہیں اور وزراء کے تو کچھ کہنے ہی ہیں کیونکہ وہ اپنی سیاسی مہمیں فیس بک، گوگل اور ٹوئیٹر کے ذریعہ ہی چلاتے ہیں۔ ایسےحالات میں سماج کے صرف ایک طبقہ پر ان پابندیوں کے اطلاق کے پس پردہ نیت پر شکوک و شبہات کا اظہار کیا جانا ایک قدرتی امر ہے۔ قانونی ماہرین کا اگرچہ یہ ماننا ہے کہ مذکورہ ایس آر او ایوان انصاف میں چیلنج کرنے کے لئے اپنے اندر بہت کچھ رکھتا ہے لیکن سیاسی مبصرین کو یہ خدشات لاحق ہوئے ہیں کہ کہیں یہ اقدام کسی ایسی پالیسی کی ابتداء تو نہیں، جو آگے چل کر مزید سنگین نوعیت اختیار کرے، کیونکہ جس مبہم طریقے پر عبار ت آرائی کی گئی ہے اُس کے ہوتے ہوئے ایسے خدشات کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا ۔مجموعی طور پر ریاستی سرکار کے اس اقدام کو ملازم طبقہ کے انسانی اور بنیادی حقوق کے اتلاف سے تعبیر کیا جا رہا ہے کیونکہ ملک کی دیگر کسی ریاست میں ایسا کوئی قائیدہ قانون موجود ہونے کی کوئی اطلاع نہیں ہے۔ اگر ایسا درست ہے تو کیا مختلف ریاستوں کے سرکاری ملازمین کے بنیادی حقوق مختلف ہو سکتے ہیںہے اور کیا اس اختلاف کو تسلیم کیا جا سکتا ہے۔ یہ ایسے سوالات ہیں، جسکا جواب ریاستی سرکار کو وضاحت کے ساتھ دینا چاہئے، کیونکہ جو اقدام ابتدائے آفرینش سے ہی اختلاف کا شکار ہو جائے، اُ س سے کسی مثبت نتیجے کی توقع رکھنا نہ صرف عبث ہے، بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ اسکے منفی مضمرات سے ایک ترقی پسند سماج کی بنیادوں کو نقصان پہنچنے کا احتمال ہے، تو شاید غلط نہ ہوگا۔