بلال فرقانی
بارہمولہ //شمالی کشمیر کے بارہمولہ لوک سبھا حلقہ میں پیر کو ووٹنگ شروع ہونے کے دوران ووٹروں نے بڑی تعداد میں پولنگ سٹیشنوں پر جمع ہو کر سیکورٹی کی بہتر صورتحال اور 3دہائیوں کے بعدماضی کی علیحدگی پسندوں کی طرف سے بائیکاٹ کالوں کے ختم ہونے والے “خوف” پر اطمینان کا اظہار کیا۔4اضلاع پر محیط اس پارلیمانی نشست کی کم و بیش تمام18اسمبلی نشستوں پر صبح سے انتخابی مراکز کے باہر لمبی لمبی قطاریں قطاریں دیکھنے کو ملی اور لوگ جوش و خروش کے ساتھ اپنی باری کا انتظار کر رہے تھے۔ نوجوانوں کا کہنا تھا کہ بدلائو اور بہتری کیلئے اپنا ووٹ ڈال رہے ہیں۔ انتخابی مراکز پر بزرگ مرد و خواتین کو بھی ووٹ ڈالتے ہوئے دیکھا گیا جبکہ کئی ایک بزرگوں کو سہارا دیکر ان کے اپنوں نے ووٹنگ مراکز تک پہنچایا۔سرینگر پارلیمانی نشست کے برعکس شمالی کشمیر کی نشست پر انتخابات میں لوگوں کا جوش غیر معمولی نظر آرہا تھا۔ اگرچہ سوپور کے کچھ علاقوں میں ووٹنگ کی رفتار کم تھی،تاہم ماضی کے مقابلے میں شام ڈھلتے ڈھلتے اس کی شرح بھی بہتر رہی۔ انتظامیہ نے تمام انتخابی مراکز کے اندر و باہر سیکورٹی کا معقول انتظام کر رکھا تھا اور کسی بھی نا خوشگوار واقعے کو روکنے کیلئے پولیس اور نیم فوجی دستے متحرک تھے۔ رائے دہندگان نے اگست 2019 میں آرٹیکل 370 کی منسوخی کے بعد یونین ٹیریٹری میں پہلی بڑی انتخابی مشق کو گزشتہ تقریباً پانچ سال کی مدت میں خطے میں ہونے والی پیش رفت پر اپنے جذبات کو اظہار کرنے کا ایک موقع کے طور پر دیکھا۔
مقامی لوگوں نے کہا”صورتحال میں بہتری آئی ہے اور خوف ختم ہوا ہے،یہ جمہوریت کے لیے اچھا شگون ہے، ماضی میں زیادہ تر لوگ اپنی جان کو لاحق خطرات کی وجہ سے ووٹ نہیں دیتے تھے لیکن، اس بار کسی بھی حلقے کی مداخلت کے بغیر تیزی سے ووٹنگ ہو رہی ہے‘‘۔وہ پچھلے دو برسوں میںملی ٹینسی کی سرگرمیوں میں کمی اور اس بار علیحدگی پسندوں کی طرف سے بائیکاٹ کال کی عدم موجودگی کا حوالہ دے رہے تھے۔ بائیکاٹ کی سیاست وادی میں 1990 کی دہائی کے اوائل میں ملی ٹینسی شروع کی گئی تھی۔لوگوںنے کہا، ہم اپنے مسائل کے ازالے کے لیے ووٹ ڈالنے آئے ہیں اور ایسے امیدوار کو منتخب کریں جو پارلیمنٹ میں ہماری آواز کی نمائندگی کر سکے۔کئی مقامات پر ووٹروں نے کہا کہ بجلی کے بلوں میں اضافے کے ساتھ ساتھ بے روزگاری عوام کو درپیش سب سے بڑے مسائل میں سے ایک ہے۔انہوں نے کہا”ہمیں بجلی کے بل ہماری کھپت سے زیادہ مل رہے ہیں، چونکہ پانچ سالوں سے کوئی حکومت نہیں ہے اور جموں و کشمیر لیفٹیننٹ گورنر کی زیرقیادت انتظامیہ چلاتی ہے، ہم اپنی آواز اٹھانے سے قاصر ہیں‘‘۔ایک ووٹر یاور احمد نے کہا کہ آرٹیکل 370 کی تنسیخ کے بعد وادی کے لوگ “گمشدہ” ہو گئے ہیں،کوئی بھی کھل کر بات کرنے کو تیار نہیں اور کوئی ہماری بات سننے کو تیار نہیں، یہ ہمارے لیے ایک موقع ہے کہ ہم اپنے لیڈر کا انتخاب کریں جو ہماری بات سن سکے اور ہمارے مسائل حل کر سکے‘‘۔غلام رسول ملک نے کہا کہ لوگ 2019 کے بعد دبائو میں ہیں اور اپنے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں، ٹرن آئوٹ کے تمام ریکارڈ توڑنے کا فیصلہ کیا ہے۔انہوں نے کہا کہ جموں و کشمیر میں جمہوریت نہیں ہے، ہم اپنے آسانی سے دستیاب نمائندوں کے ساتھ اپنے مسائل اٹھاتے تھے لیکن اب ہماری بات سننے والا کوئی نہیں ہے،” ملک نے مرکزی علاقے میں ایک مقبول حکومت کی بحالی کے لیے اسمبلی انتخابات کے انعقاد کی ضرورت کو اجاگر کرتے ہوئے کہا۔انہوں نے کہا”سڑک، پانی اور بجلی ترقیاتی سرگرمیوں کے ساتھ ساتھ مسائل پر حاوی ہیں۔ عوام اپنے امیدوار کو منتخب کرنے کے لیے بڑی تعداد میں ووٹ ڈالنے کے لیے باہر آئے ہیں اور ہم ریکارڈ توڑ ٹرن آئوٹ کے لیے پرامید ہیں‘‘۔