سہیل لقمان تیمی
اس میں کوئی شک نہیں کہ اس عالم رنگ وبو میں متعدد امتیں موجود ہیں ،جن میں سب سے بہترین اُمتِ محمدیہ ہے۔ باری کون ومکان نے دیگر اُمتوں کے مقابلے میں اس امت کو بے شمار خصوصیات و امتیازات سے متصف کیا ہے اور انگنت انعامات سے نوازا ہے۔ اِنہی میں سے ایک رمضان المبارک بھی ہے۔اس پاکیزہ مہینہ کے آخری عشرہ میں ایک ایسی بابرکت وعظیم المرتبت رات ہے جواس کی دیگر تمام راتوں سے افضل ہے، اس لئے کہ اللہ تعالیٰ نے اس مبارک ومسعود رات کو ہزار مہینوں سے بہتر قرار دیا ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس مقدس رات کی رفعت وعظمت کو اُجاگر کرتے ہوئے فرمایا کہ بیشک یہ مہینہ تمہارے پاس آچکا ہے اور اس میں ایک ایسی رات ہے، جو ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔
لیلتہ القدر کا لفظی معنیٰ قدر کی رات ہے اور صرف قدر کا معنی قضاو حکم اور عزت وشرف کے آتا ہے، جب کہ شرعی اصطلاح میں قدر اس عمل کوکہا جاتا ہے، جس کواللہ تعالیٰ نے مقدر کردیا ہے اوراسی میں کاموں کے فیصلے کئے جاتے ہیں۔
لیلۃ القدر کی وجہ تسمیہ کے سلسلے میں علما کرام کے مختلف اقوال ہیں۔ امام زہری ؒ فرماتے ہیں کہ لیلۃ القدر عظمت وشرف والی رات ہوا کرتی ہے، اس لیے اس کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔ابن عثيمين ؒ فرماتے ہیں کہ لیلۃ القدر میں اللہ تعالیٰ ایک سال کے لیے تمام مخلوقات کے آجال وارزاق کولکھتا ہے، اس لیے اس کو لیلۃ القدر کہا جاتا ہے۔ابن حجرؒ فرماتے ہیں کہ لیلۃ القدر کا معنی قدر والی رات ہے، اس لیے کہ اسی رات میں قرآن کریم کا نزول ہوا ہے۔علامہ خلیل بن احمدؒ فرماتے ہیں ، لیلۃ القدر تنگی والی رات کو کہتے ہیں، اس لئے کہ اس رات کو زمین فرشتوں کے آسمان سے نازل ہونے کی وجہ سے تنگ ہوجاتی ہے۔ قرآن کریم اور کتب ِ احادیث کا مطالعہ بتاتا ہے کہ لیلۃ القدر کی بڑی مرتبت و فضیلت ہے اور اللہ تعالیٰ نے اس رات کو ڈھیر ساری فضیلتوں سے مزین کیا ہے، جن میں سے چند فضیلتیں پیش خدمت ہیں۔
لیلۃ القدر کی پہلی فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اسی رات میں دنیا کی سب سے مقدس کتاب قرآن کریم کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پر یکبارگی نازل فرمایا ہے، پھر وہاں سے جستہ جستہ حسب ضرورت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل ہوتا رہا، یہاں تک کہ تئیس سال کی مدت میں اس کے نزول کی تکمیل ہوئی ہے۔ ارشاد ربانی ہے کہ ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا ہے۔ لیلۃ القدر کی دوسری فضیلت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم جو کہ پوری دنیائے انسانیت کے لیے باعث رحمت وشفا ہے، میں قدر نام کی ایک مکمل سورت ہی نازل کردی ہے۔ جو پوری دنیا میں ہردن تقریباً لاکھوں مرتبہ پڑھی جاتی ہے اور تاقیامت پڑھی جاتی رہے گی۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کو خیر وبرکت والی رات بنایا ہے، جیسا کہ اللہ تعالیٰ اس کے بابرکت ہونے کو واضح کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ بے شک ہم نے اسے لیلۃ القدر میں نازل فرمایا۔ اللہ کے حکم سے اس رات تمام مخلوقات کے مقادیر کی تجدید ہوتی ہے اوران کی عمروں اور روزوں کو اگلےسال کے لئے لکھا جاتا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: اس رات میں ہر معاملہ کا حکیمانہ فیصلہ صادر کیا جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اس رات کی عبادت کو ہزار مہینوں کی عبادتوں سے افضل قرار دیا ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے کہ لیلۃ القدر ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ اللہ کے حکم سے اس رات لا تعداد فرشتے جبرئیل امینؑ کی زیرقیادت اس روئے زمین پر اترتے ہیں اور اپنی انوارات و تجلیات سے اس رات کی تاریکی کو تابندہ کرتے ہیں اور مومن بندوں کے لیے دعائے خیر کرتے ہیں، جیسا ارشاد الٰہی ہے کہ اس میں فرشتے اور روح الامین اپنے ربّ کے حکم سے ہر معاملہ لے کر اُترتے ہیں۔ اللہ کے بندے پر اِسی رات کو اُس کی جانب سے بکثرت سلامتی نازل ہو ا کرتی ہے۔ کوئی ملعون شیطان اس رات کی کسی بھی گھڑی میں کسی مومن بندے پر اثر انداز نہیں ہو پاتا ہے ، وہ اسے کسی طرح کی بُرائی کو انجام دینے کے لیے برانگیختہ کرپاتا ہے نہ اُسے کسی آفت یا مصیبت میں مبتلا کرپاتا ہے،اس طرح مومن بندے اس رات کو شیطانی حملوں سے محفوظ ومامون رہا کرتے ہیں۔ اس رات کے ہر لمحے میں اللہ تعالیٰ کے مقرب ترین فرشتے اللہ کے محبوب بندوں پر سلامتی ارسال کرتے ہیں اور ان کی سلامتی کی دعاکے لیے اپنی زبانوں کو ہلاتے رہتے ہیں ، اس طرح اُن پر فجر کے وقت تک سلامتی نازل ہوتی رہتی ہے۔ جیسا کہ ارشاد ربانی ہے کہ وہ رات طلوع فجر تک سلامتی والی ہوتی ہے۔
جو بھی بندہ اس رات کو قیام کرتا ہے اور اللہ کی تسبیح و تہلیل کرتے ہوئے رات کو گزار دیتا ہے ،اس پر اللہ کی مغفرت کا نزول ہوتا ہے اور وہ اس کی اس ادا کو مشاہدہ کرکے اس کے گزشتہ گناہوں کو بخش دیتا ہے، لیکن شرط یہ ہے کہ اس نے یہ ایمان واحتساب کے ساتھ کیا ہو۔ اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کسی کے گناہ کو اسی صورت میں معاف کرتا ہے۔ جیسا کہ ارشاد نبویؐ ہے، جو شخص ایمان واحتساب کے ساتھ لیلۃ القدر میں قیام کرتاہے ،اُس کے گزشتہ تمام گناہ معاف کر دئے جاتے ہیں۔ قرآن و حديث کے مطالعے سے معلوم ہوا کہ لیلۃ القدر ثابت ہے لیکن یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ وہ آخری عشرے کی کس تاریخ اور کس دن میں ہے ؟ اس کا مختصر جواب یہ ہے کہ یہ آخری عشرے کی طاق راتوں میں سے کسی ایک میں ہے جیسا کہ ارشاد نبوی ہے: تم اسے آخری عشرے کی طاق راتوں میں تلاش کرو۔
یہاں یہ واضح رہے کہ اس کو آخری عشرہ کی کسی طاق رات کے ساتھ خاص کرنا درست نہیں ہے ، اس لئے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے کسی طاق رات کا تعین نہیں کیا ہے بلکہ آپ ؐ نے آخری سات راتوں میں اسے تلاش کرنے کا حکم دیا ہے جیسا کہ فرمان نبوی ہے: ’’میں تمہارا خواب زیادہ تر آخری سات راتوں میں دیکھتاہوں، اس لئے جواس کو تلاش کرنا چاہتے ہیں، وہ آخری سات راتوں میں ہی تلاش کریں۔ لیلۃ القدر ایک مقدس رات ہے، اس رات میں ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بکثرت دعاومناجات کیا کرتے تھے اوراپنی اُمت کوبھی اس میں دعا کی تاکید فرماتے، حتیٰ کہ آپؐ نے اپنی اُمت کواس کے لیے ایک خصوصی دعا بھی سکھائی ہے اور وہ اس طرح ہے۔’’ اللہم انک عفو تحب العفو فاعف عنی‘‘خلاصہ کلام یہ ہے کہ لیلۃ القدر ماہ رمضان کی تمام راتوں میں افضل ہے اوراس کی عبادت ہزار مہینوں کی عبادتوں سے بہتر ہے۔ مسلمانوں کوچاہئے کہ وہ اسے ماہ رمضان کی طاق راتوں میں تلاش کریں ۔ اللہ سے دعاء ہے کہ تو تمام مسلمانوں کو عبادت کی توفیق دے۔ آمین